سَیر، سیر اور سِیر

ایک قاری نے استفسار کیا ہے کہ پچھلے شمارے میں لاش اور نعش کا فرق تو سمجھ میں آگیا، لیکن یہ ’’بنات النعش‘‘ کیا ہے؟ بنات تو لڑکیوں کو کہتے ہیں، تو پھر نعش کی لڑکیاں کہاں سے آگئیں؟ انہوں نے غالب کا یہ شعر بھی پیش کردیا کہ:۔

تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں

موصوف کے خیال میں یہ اگر بنات یا بیٹیاں ہیں تو خواہ کسی کی ہوں، غالب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان کے لیے عریاں کا لفظ استعمال کرتے، گو کہ انہوں نے ان بنات کو رات کے وقت عریاں کیا ہے۔ ان کے اعتراضات بجا ہیں لیکن غالب سے کون پوچھے! پچھلے دنوں 15 فروری کو ان کا یوم وفات منایا گیا ہے۔ وہ 1869ء میں اُس وقت نکل لیے تھے جب کسی نے پوچھ لیا کہ غالب کون ہے (پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے)۔ عنایت علی خان نے غالب کے حروف کی ترتیب بدل کر اسے بالغ کردیا۔
رہی بات ’’بنات النعش‘‘ کی، تو یہ وہ 7 ستارے ہیں جن کی ترتیب اس طرح ہے جیسے چار جنازے ہوں اور دیگر 3 ستارے ان کو لے جارہے ہوں۔ ان میں ایک چھوٹا سا ستارہ ’’سہا‘‘ کہلاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون پولیس افسر اسی نام سے سامنے آئی ہیں۔ ایک شاعر بھی سہا نام کے تھے۔ عربی میں بَنات (’ب‘ پر زبر) بنت کی جمع ہے یعنی بیٹیاں۔ عربی میں جنازہ اٹھانے والے کو ابن النعش کہتے ہیں، اور ان کے محاورے میں ابن النعش کی جمع بنات النعش ہے۔ ان 7 ستاروں میں سے چار جنازے اور تین جنازہ اٹھانے والے کہلاتے ہیں۔ یہ 7 ستارے قطب شمالی کے قریب پھرا کرتے ہیں۔ انہیں عقد ثریا بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس بات کا کسی ثریا کے عقد سے تعلق نہیں۔ اگر لاشیں اٹھانے والوں کو بنات النعش کہتے ہیں تو ایدھی والے اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ غالب کے بقول یہ جنازے اٹھانے والے دن کی روشنی میں دیگر ستاروں کی طرح نظر نہیں آتے۔ یہ اور بات کہ درپیش مسائل کی وجہ سے دن میں تارے نظر آتے ہیں۔
اردو میں مستعمل ایسے کئی الفاظ ہیں جن کا املا ایک ہی ہے لیکن معنی مختلف، تلفظ کے ہلکے سے فرق کے ساتھ۔ مثلاً سَیر اور سیر۔ پہلا لفظ ’سیر‘ فارسی کا ہے اور بروزن دیر (بتکدہ) ہے۔ اردو میں ’سیر حاصل‘ کا استعمال عام ہے، گو کہ ’حاصل‘ عربی کا ہے مثلاً سیر حاصل گفتگو، سیر حاصل تبصرہ، طبیعت سیر ہوگئی۔ یعنی طبیعت بھر گئی۔ ایک شعر سن لیں:۔

تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

فارسی کے ’سیر‘ کا مطلب ہے آسودہ، چَھکا ہوا، گرسنہ کی ضد، پیٹ بھرا۔ سیر چشم کا مطلب ہے بے پروا، قانع، صابر، سخی، حوصلے والا۔ فیاض بھی ہے۔ اور عربی کا سیر بھی بروزن ’’دیر‘‘ ہے لیکن یہ دیر تاخیر کے معنوں میں ہے۔ اس طرح ’سیر‘ کی طرح دو ’دیر‘ بھی ایک جیسے املا کے ساتھ ہیں۔ عربی کا سیر گھومنے پھرنے، تفریح کرنے کے معنوں میں آتا ہے جیسا کہ یہ مصرع ہے ’’سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں‘‘۔ قرآن کریم میں زمین کی سیر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ عربی کے سیر کا مطلب چلنا پھرنا، روانگی، ہوا خوری، گشت، جیسے شام کو باغ میں سیر کرنے چلے جایا کرو۔ مومن خان مومنؔ کا شعر ہے:۔

مومنؔ آئو تمہیں بھی دکھلا دوں
سیر بت خانہ میں خدائی کی

یہاں مومنؔ نے نظارہ و تماشا کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ سیر کا ایک مطلب لطف، مزہ و بہار بھی ہے۔ بقول داغؔ:۔

حور کے واسطے زاہد نے عبادت کی ہے
سیر تو جب ہے کہ جنت میں نہ جانے پائے

داغؔ کے زمانے میں وہ انجکشن دریافت نہیں ہوئے تھے جن کے لگنے سے حوریں نظر آنے لگیں۔ دہلی میں ایک میلہ لگتا تھا جس کا نام تھا ’’پھول والوں کی سیر‘‘۔ یہ برسات میں ہوتا تھا اور اس میں کثرت سے پھول بیچنے والے جمع ہوتے تھے۔ پھولوں کی نمائش تو پاکستان کے شہروں میں بھی لگتی ہے لیکن وہاں پھول بیچنے والے نہیں، پھول دیکھنے والے جمع ہوتے ہیں۔
سیر کے اور بھی کئی معانی ہیں مثلاً مزہ چکھانا۔ قلقؔ کا شعر ہے:۔

سیر میں آپ کو دکھا دیتا سب گھمنڈ آپ کا بھلا دیتا

لیکن یہ مطلب صرف شاعری میں ملتا ہے، ورنہ تو تماشا دیکھنا، کسی مقام پر جانا ہی کے معنوں میں آتا ہے۔ غالب کا شعر ہے:۔

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آئو نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

’’کوہِ طور‘‘ غالب نے استعمال کیا ہے اس لیے کیا کہا جائے، ورنہ ’طور‘ کا مطلب ہی کوہ یا پہاڑ ہے۔ سیر ہونا، آسودہ ہونا کے معنوں میں اردو میں اس کی ایک مونث بھی ہے یعنی ’’سیری‘‘۔ ابن انشاء کا مصرع ہے ’’کب دید سے دل کو سیری ہو‘‘۔ ’بنات النعش‘ (ڈپٹی نذیر احمد کا ناول) میں ایک جملہ ہے ’’کسی طرح سے مجھ کو سونے سے سیری نہیں ہوتی ہے‘‘۔
فارسی میں سِیر (’س‘ کے نیچے زیر) لہسن کو کہتے ہیں۔ ہندی میں سیر سولہ چھٹانک کے وزن کو کہتے ہیں بلکہ کہتے تھے۔ اب تو سیر، چھٹانک صرف محاوروں میں رہ گئے ہیں، ان کی جگہ کلو اور گرام آگئے ہیں۔ سیر پر سوا سیر محاورہ ہے۔ ایک اور محاورہ ہے ’’سیر کی ہانڈی میں جہاں سوا سیر پڑا وہ ابلی‘‘۔ یعنی کم ظرف کو اُس کے ظرف سے زیادہ مل جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ پانچ سیر کے بٹے کو پنج سیری کہتے تھے۔ محاورہ ہے ’’سیر میں پنسیری کا دھوکا‘۔ یعنی چھوٹی رقم میں سے بڑے حصے کا غبن۔ سیروں خون بڑھ جانے کا محاورہ ابھی تک ’’کلو‘‘ میں تبدیل نہیں ہوا۔ ایک لفظ ’سِیر‘ ہے جو سیرت کی جمع ہے جیسے سِیر صحابہؓ۔ سیر پر سیر حاصل بات ہوگئی، اس لیے اس کا پیچھا چھوڑ کر کوئی اور بات کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں دھینگا مشتی کا بڑا چرچا رہا۔ مشتی تو مشت یا مٹھی، گھونسے سے ہے، لیکن یہ دھینگا کیا ہے؟ آتے یہ دونوں ساتھ ہیں۔ مشت فارسی کا ہے اور ’’یک مشت‘‘ اردو میں عام ہے۔ فارسی کی ایک ضرب المثل ہے ’’مشتے ازخروارے‘‘۔ یعنی خروار سے ایک مٹھی۔ مگر یہ خروار کیا ہے؟ پہلے جب گدھوں پر سامان لایا جاتا تھا تو ایک گدھے پر لدے وزن کو ’’خروار‘‘ کہتے تھے۔ اس میں سے بطور نمونہ ایک مٹھی لینا، یا بڑے ڈھیر میں سے کسی کو مٹھی بھر دینے کے موقع پر کہا جاتا ہے۔ مگر یہ ’دھینگا‘ تو رہا جاتا ہے؟
لغت میں دھینگا مشتی کا مطلب ’’گھونسے کی لڑائی، ہاتھا پائی، زور آوری‘‘ وغیرہ دیا ہے۔ یہ دھینگا ہندی کے لفظ ’دھینگ‘ (بروزن سینگ) سے نکل آیا ہے۔ دھینگ کا مطلب ہے قوی، مضبوط، مسٹنڈا۔ ہندی میں دھینگا مشتی کے بجائے دھینگا دھینگی، دھینگا دھانگی ہے۔ دھینگ دھونکڑی کرنا بھی زور زبردستی کرنا، زور آوری کرنا، دست درازی کرنا کے معنوں میں آتا ہے، جیسے ایک جملہ ہے ’’تم دھینگا دھینگی سے مجھ کو قائل کرنا چاہتے ہو‘‘۔ یہ کام عموماً حکمران عوام کو قائل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن اردو میں دھینا دھینگی، دھانگی وغیرہ مستعمل نہیں ہیں۔ اردو میں صرف دھینگا مشتی ہوتی ہے حالانکہ ہندی کے ساتھ فارسی کا جوڑ نہیں بیٹھتا۔ تو کیا مشتا مشتی کہا کریں؟ ماہرینِ لسانیات ’’دن بہ دن‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں کہ ’دن‘ چونکہ ہندی کا لفظ ہے اس لیے اس کے ساتھ ’بہ‘ نہیں آنا چاہیے۔ روز بروز کہا کریں یا دن پردن۔ اس طرح تو کئی الفاظ ساقط کرنا پڑیں گے۔ ہماری غیر ماہرانہ رائے ہے کہ اردو کو اگر ایک ترکیب ’دن بہ دن‘ کی مل رہی ہے تو قبول کرلیں۔