بھارت کے ظلم اور کشمیریوں کے صبر میں ایک نہ ختم ہونے والی آنکھ مچولی جاری ہے
کشمیرکے معروف حریت پسندوں محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کی برسیوں پر مقبوضہ وادی میں ہڑتال، مظاہرے، اور آزاد کشمیر بھر میں جلسے جلوس اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس کے نظربند و اسیر راہنمائوں نے ان دونوں مواقع پر ہڑتال کی کال دے رکھی تھی۔ مقبول بٹ اور افضل گورو کی پھانسیوں میں تقریباً انتیس سال کا فاصلہ ہے مگر دونوں کی سزا اور عتاب کا انداز ایک جیسا ہے۔ افضل گورو حقیقت میں مقبول بٹ کے پیروکار اور انہی کے نظریات سے متاثر تھے۔ کشمیریوں میں یہ احساس ہمیشہ موجود رہا ہے کہ دونوں کے ساتھ بھارت کے عدالتی نظام نے انصاف نہیں کیا۔ دونوں کو نظامِ انصاف کا قتیل سمجھا اور جانا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں کی سزا پر عمل درآمد نے کشمیریوں میں ردعمل کے جذبات کو غیر معمولی حد تک بڑھاوا دیا۔ مقبول بٹ کی پھانسی کے چند سال بعد ہی سیکڑوں مقبول بٹ اُبھر گئے، تو افضل گورو کی پھانسی نے برہان وانی جیسا کردار منظر پر اُبھار دیا جس نے کشمیری نوجوانوں کو اپنا دیوانہ بناکر رکھ دیا۔ بھارت نے پانچ اگست سے پہلے ہی ہڑتالوں اور مظاہروں کو روکنے کے لیے وادی کے طول وعرض میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کردیا تھا، اور کشمیر اور بھارت کی جیلیں ہزاروں سیاسی راہنمائوں اور کارکنوں سے بھری پڑی ہیں، اس کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نوجوان کے قتل کے بعد کئی نوجوان سامنے آکر بھارت کو للکارتے ہیں۔ یہ بات حال ہی میں تہاڑ جیل میں کام کرنے والے ایک افسر سنیل گپتا نے بھی تسلیم کی ہے، جس نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’بلیک وارنٹ کنفیشنز آف اے تہاڑ جیلر‘‘ میں مقبول بٹ کو ایک نفیس، نرم مزاج اور اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان قرار دیا اور کہا کہ اگر برطانیہ میں بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کو قتل نہ کیا جاتا تو مقبول بٹ کو پھانسی نہ دی جاتی۔
وادی میں بھارت نے پانچ اگست کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے عوام پر خوف ودہشت کی رات مسلط کررکھی ہے، مگر کشمیری عوام سروں کے چراغ ہتھیلیوں پر رکھ کر میدانِ عمل میں موجود ہیں ۔ افضل گورو اور مقبول بٹ کی کی شہادت کے ایام اِس بار بھی کشمیریوں کا ریفرنڈم بن گئے۔ مقبول بٹ کی والدہ نے کپواڑہ ترہگام میں برسی کے موقع پر ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ جیل سے ان کے چھوٹے بھائی ظہور احمد بٹ نے یاد دلایا کہ مقبول بٹ کشمیر کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے حامی تھے۔ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے مظفر آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں دونوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقبول بٹ کی شہادت کے بعد ہزاروں مقبول بٹ پیدا ہوئے۔کشمیری عوام کا روزِ اوّل سے مطالبہ تھا کہ بھارت محمد افضل گورو اور محمد مقبول بٹ کے اجسادِ خاکی کو کشمیر منتقل کرے تاکہ ان شہدائے وطن کو پورے اعزاز سے خاکِ وطن کا کفن پہنایا جائے۔
محمد افضل گورو کو سات سال قبل بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی اور بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا جواز پیش کیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ محض اپنے عوام کو خوش کرنے کی خاطر کیا تھا۔ حد تو یہ کہ افضل گورو کی پھانسی سے پہلے نہ تو اہلِ خانہ سے اُن کی ملاقات کرائی گئی اور نہ ہی اُن کا جسدِ خاکی ورثا کے حوالے کیا گیا۔ اس سے پہلے 1984ء میں دہلی کی اسی تہاڑ جیل میں معروف حریت پسند محمد مقبول بٹ کو اسی طرح انتقام اور ردعمل میں پھانسی دی گئی تھی، اور اُن کے جسدِ خاکی کو بھی تہاڑ کے کسی گوشے میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی کشمیری عوام اُن کا جسدِ خاکی مانگ رہے تھے، مگر بھارتی حکومت ان کے غم زدہ بھائیوں کو گرفتار کررہی تھی۔ بھارت کا یہ رویہ کشمیریوں کے دلوں کو زخمی کررہا تھا، اور ان زخموں کی ٹیسیں بعد میں کشمیریوں کی ایک زوردار مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی تھیں۔ محمد مقبول بٹ کی پھانسی سراسر ردعمل اور انتقام کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کے اغوا اور قتل کے بعد انتقام کی آگ میں جلتی ہوئی اندرا گاندھی نے مقبول بٹ کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا مقصد بھارت کی رائے عامہ کو خوش کرنا تھا۔ اب افضل گورو کے معاملے میں بھی بھارت نے اسی رویّے کا مظاہرہ کیا۔گویا کہ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے بھارت وقفے وقفے سے کشمیری راہنمائوں کو بَلی چڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کو دنیا بھر کے منصف مزاج قانونی اور سیاسی ماہرین نے عدالتی قتل قرار دیا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ بھارت کشمیریوں کو پھانسی دیتا ہے تو پھر اُن کی لاشیں بھی اس خوف سے ورثا کے حوالے نہیں کرتا کہ یہ مزار جدوجہدِ آزادی کے نشان اور علامتیں بنیں گے اور کشمیری عوام ان سے طاقت اور توانائی حاصل کرتے رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی طاقت اور توانائی حاصل کرنے کے لیے قبروں کا ہونا یا نہ ہونا اہمیت نہیں رکھتا، اصل بات اس مقصد کی ہوتی ہے جس کی خاطر شہدا نے اپنی جان قربان کی۔ محمد مقبول بٹ اور افضل گورو نے آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ اس حقیقت کا ادراک کشمیری عوام کو پوری طرح ہے، اسی لیے وہ اپنے متعین کردہ راستے سے سرمو انحراف کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
بھارت نے مقبول بٹ کو پھانسی دی تو افضل گورو سامنے آئے۔ افضل گورو کو بے نام ونشان بنایا تو برہان وانی کی صورت میں ایک نیا ہیرو کشمیری معاشرے کو مل گیا، اور برہان وانی کے بعد سرفروشوں کی ایک پوری قطار کھڑی ہوگئی۔ یوں بھارت کے ظلم اور کشمیریوں کے صبر میں ایک نہ ختم ہونے والی آنکھ مچولی جاری ہے۔ بھارت طاقت، ترغیب، تحریص سمیت ہر حربہ اختیار کرکے دیکھ چکا ہے، مگر کشمیری عوام کا جذبہ غیر متزلزل اور ان کا عزم لازوال ہے۔ بھارت نے کشمیر کو دنیا کا خوبصورت قید خانہ بنا رکھا ہے۔ بدترین محاصرے کو چھے ماہ ہوچکے ہیں مگر بھارت ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ لوگوں پر ایک شبِ دہشت طاری کی گئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن کا ہر راستہ کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے۔