مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا
آئی ایم ایف نے حکومت کے ساتھ روایتی کھیل کھیلنا شروع کردیا ہے۔ ایک جانب تعریف اور دوسری جانب اسٹاف لیول معاہدے کو آگے بڑھانے پر خاموشی۔ گاجر اور چھڑی والا کھیل امریکہ برسوں سے کھیل رہا ہے اور یہی وتیرہ اب آئی ایم ایف نے بھی اپنا لیا ہے۔ بلاشبہ ملک کی معیشت دبائو میں ہے اور اس دبائو سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پوری قوم فیصلہ کرے: تکلیف اٹھانا منظور لیکن عالمی ساہوکاروں کی شرائط منظور نہیں۔
آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے ہر حکومت نے یہی کہا کہ وہ ماضی کے قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لے رہی ہے، اب تحریک انصاف بھی یہی کہہ رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے پہلے دو برسوں میں ہی ماضی کے حکمرانوں سے دو گنا قرض لے چکی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ اس حکومت نے مجموعی طور پر 39 ماہ کے پروگرام کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، اور شرائط یہ ہیں کہ ہر تین ماہ بعد آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آئے گا اور کارکردگی کی بنیاد پر اگلی قسط ملے گی۔ اتفاق سے حالیہ بات چیت اُس وقت ہورہی ہے جب حکومت کو چین کو بھی قرض کی قسط ادا کرنی ہے اور وفاقی بجٹ بھی تیار ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 450 ملین ڈالر کی تیسری قسط کے اجرا اور گزشتہ 3 ماہ کے جائزے کے لیے مذاکرات کیے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 12 اقساط میں 6 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا جس کی 991.4 ملین ڈالر کی پہلی قسط اور 452ملین ڈالر کی دوسری قسط مل چکی ہے، اب مارچ میں اطمینان حاصل کرنے کے بعد 450 ملین ڈالر کی تیسری قسط جاری ہونی ہے۔ آئی ایم ایف نے جائزہ لیا ہے کہ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں پر رواں مالی سال کے پہلے7مہینوں میں مختص 429 ارب روپے کے بجائے صرف 188 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ حکومت سے کہا گیا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کو وفاق اور صوبوں میں پورا خرچ کیا جائے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں پیدا ہوسکیں۔ جائزہ مشن ریونیو وصولی کے ہدف میں کمی پر بھی مایوس ہوا ہے۔ اب تک رواں مالی سال میں 218 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے اور یہ کمی 750 ارب روپے تک جاسکتی ہے۔ حکومت نے جائزہ مشن سے ریونیو ٹارگٹ 5550 ارب روپے سے کم کرکے 4950 ارب کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے کہ حکومت نئے ٹیکس لگاکر کمی پورا کرے۔ آئی ایم ایف بجلی، گیس کے نرخ مزید بڑھانے پر بھی زور دے رہا ہے، لیکن حکومت بجٹ کے باعث احتیاط برت رہی ہے اور چاہتی ہے کہ یہ فیصلہ بجٹ کے وقت لیا جائے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات میں نیپرا اور اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دینے کے امور پر بھی غور کیا گیا ہے۔ مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی سیکرٹری خزانہ نوید کامران، جبکہ آئی ایم ایف کی نمائندگی ارنیستورامریز ریگو نے کی۔ مذاکرات کے لیے وزارت خزانہ، ایف بی آر، توانائی، نیپرا، اوگرا، نجکاری حکام نے بھی اپنی اپنی رپورٹیں تیار کررکھی ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ بجٹ کے وقت لیا جائے گا تو بجلی اور گیس کے نرخوں میں حد سے زیادہ اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ بجلی کی بلند قیمتوں کے باعث برآمدات اور صنعتی ترقی میں اضافہ ممکن نہیں، تاہم آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان تعلیم، صحت، سیوریج اور بجلی کی مد میں اخراجات میں اضافہ کرے۔ ان شعبوں میں کوئی روڈمیپ دیے بغیر حکومت قرض کی تیسری قسط کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کسی بھی مرحلے میں اب تک ان مذاکرات میں شریک نہیں ہوئے ہیں۔ حکومت ان کے متبادل کے لیے بھی سوچ رہی ہے۔ معاونت کے لیے مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر ہارون اختر خان سے رابطہ کیا گیا تھا، انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دی ہے۔
دیگر امور کی براہ راست معلومات کے لیے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے پاکستان کے حالیہ دورے کے طے شدہ ایام میں توسیع کردی ہے، اسی لیے آئی ایم ایف نے تاجروں سے براہِ راست خطاب بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ترجمان نے پاکستان سے مذاکرات پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک دورے میں کام مکمل نہیں ہوتا، پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور کام ابھی جاری ہے‘‘۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور شیڈول نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں پاکستان کی گزشتہ چند ماہ کی ترقی کو قابلِ ذکر قرار دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ مستحکم اقتصادی پالیسیوں سے اصلاحات میں تیزی لائی گئی، گزشتہ سال دسمبر تک تمام شعبوں کی کارکردگی میں ریکارڈ بہتری آئی ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات مکمل ہونے کی خبر آئی تھی، اور شنید تھی کہ مذاکرات کے درمیان طے پایا کہ جون 2020ء سے پہلے نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے، اس دوران منی بجٹ بھی نہیں آئے گا۔
آئی ایم ایف کا دبائو ایک خاص حکمت عملی کے تحت ہے۔ امریکہ ابھی پاکستان سے بہت کام لینا چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے اسی لیے کچھ امور التوا میں رکھ دیے ہیں اور وہ ان پر بات چیت کو امریکی صدر کے دورۂ افغانستان کے ساتھ جوڑ چکا ہے۔ پاکستان کو دبائو میں رکھنے کی پالیسی اس لیے اپنائی جارہی ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے میں پاکستان امریکہ کی خواہش کے مطابق اس کا ساتھ دے، جب کہ حقائق یہ ہیں کہ سی آئی اے اس خطے میں ایک پراکسی وار لڑ رہی ہے اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے دنیا بھر میں حکومت کرنا چاہتی ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے پینٹاگون کی دو ہزار صفحات پر مشتمل ایک خفیہ رپورٹ شائع کی ہے جس میں امریکہ کی طویل ترین جنگ کی ناکام حکمتِ عملی سے متعلق تفصیلات دنیا کے سامنے آئی ہیں۔ اس رپورٹ کا اختتام کچھ اس طرح ہوا ہے کہ افغانستان جنگ سے متعلق امریکی مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ اسی بات کا اظہار کچھ دبے الفاظ میں جنرل ڈگلس لیوٹ نے کیا تھا جو افغانستان میں بش اور اوباما کے دور میں افواج کا سربراہ رہا ہے۔ اُس کا کہنا تھاکہ ہم جو کچھ کررہے تھے، اس کا ہمیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں تھا۔ امریکہ نے ایک دور افتادہ جنوبی ایشیائی ملک میں تکبر، وحشت اور سفاکی پر مبنی حکمتِ علمی اپنائی۔ افغانستان پر حملہ بظاہر امریکہ کے خلاف نائن الیون حملوں کا انتقام تھا، جب کہ وقت نے ثابت کیا کہ افغانستان میں اس حملے سے متعلق کچھ نہیں ملا اور وہاں اس حملے کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ پینٹاگان کی اس رپورٹ کے باوجود پاکستان پر دبائو بڑھایا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی عہدیدار ایلس ویلز پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے باہر نکالنے میں مشروط مدد فراہم کرنے کی پیش کش لے کر آئی تھیں، ان کے دورے کو حافظ محمد سعید کو دی جانے والی سزا سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس پس منظر میں ہمیں آئی ایم ایف سے ہونے والی بات چیت اور اس کے نتائج کو سمجھنا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور حکومت کا اسٹاف لیول کا معاہدہ بھی اسی لیے نہیں ہوسکا۔
آئی ایم ایف جائزہ مشن نے اپنے دورے میں گردشی قرضے پر بھی گفتگو کی ہے جس میں ہر ماہ 44 ارب کا اضافہ ہورہا ہے۔ 36 ارب ماہانہ بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے گردشی قرض کو کئی گنا بڑھا دیا گیا۔ گردشی قرض 800 ارب سے 1900 ارب پر پہنچ چکا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیشہ ہماری کمزوریوں پر نظر رکھی ہے اور انہی کی بنیاد پر ہمیں پھنسایا ہے، لیکن حکومت ابھی تک کوئی سمت ہی طے نہیں کرسکی۔ معاشی روڈمیپ اور کسی سمت کے بغیر آئی ایم ایف کی مزید شرائط ماننا معاشی خودکشی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام مشکل چیلنج اورپاکستان کی ترقی کے لیے ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے یہ رائے بات چیت کے دوران سامنے رکھی ہے کہ قرض پیکیج پروگرام کے باوجود پاکستان کی معیشت جمود کا شکار ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام سے اُس طرح فائدہ نہیں اُٹھا رہا جس طرح اس کو اُٹھانا تھا، معیشت میں بہتری نہیں آرہی، معاشی ترقی کی رفتار کم ہورہی ہے اور مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔ جبکہ حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر محاصل میں200 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہوگا۔ محاصل کے لیے حکومت کے پاس منی بجٹ، متعدد اشیاء پر سیلز ٹیکس میں اضافے، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ناروا اضافے اور نجکاری کے ذریعے آمدنی کے آپشن موجود ہیں، لیکن قانون کے مطابق نجکاری سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ریونیو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری بڑی مصیبت یہ سامنے آئی ہے کہ ایف بی آر نے متعدد اشیاء پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ واپس لینے پر کام شروع کر دیا ہے۔ جن اشیاء پر پانچ فیصد، ساڑھے سات فیصد اور پندرہ فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے ان پر سیلز ٹیکس17فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان میں روغنی بیج، کپاس، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری مصنوعات، استعمال شدہ کپڑے اور جوتے، ٹریکٹر، پولٹری کے شعبے کی مشینری، سی این جی کے شعبے کے لیے درآمد کی جانے والی ایل این جی، گوشت اورمچھلی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ لے لیا گیا تو ملک میں مہنگائی مزید بڑھ جائے گی اور شرح نمو بھی 2.2 فیصد سے کم ہونے کی توقع ہے جو پہلے ہی مسلسل دبائو کا شکار ہے، کیونکہ ڈیڑھ سال میں ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں 40 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی سے ملک پر عائد قرضوں اور واجبات میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔