ریکوڈک کے ذخائر کے بارے میں وزیراعظم کے خطاب پر اہلِ بلوچستان کی ناراضگی
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد بھی صوبائی خودمختاری تشنہ ہے۔ اُن جماعتوں کے لیے صوبائی خودمختاری کی سرِدست اہمیت نہیں ہوگی جن کی سیاسی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہوں۔ البتہ صوبے کی وہ سیاسی جماعتیں، رہنما اور اراکین جو صوبے کی خودمختاری کے لیے کسی نہ کسی صورت میں جدوجہد کررہے ہیں اور وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ زیادتیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، اُن کے لیے یہ معاملہ اہمیت کا ہے۔ 13فروری کو وزیراعظم عمران خان کی تقریر کی خبر اخبارات میں چھپی جو انہوں نے اسلام آباد میں نیشنل انکیوبیشن سینٹر اسٹارٹ اپس کی تقریب میں کی تھی، جس میں وزیراعظم نے کہا کہ ’’ریکوڈک کے سونے سے غیر ملکی قرضے اتاریں گے۔ گیس، تیل کے مزید ذخائر دریافت کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے‘‘۔ پیش ازیں بھی وزیراعظم عمران خان ان خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ خصوصاً بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے وزیراعظم پاکستان کے اس بیان کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے بلوچستان اسمبلی میں تحریک التواجمع کرادی ہے۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر محمد شہید نے ایوانِ بالا میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے خلاف تحریک التوا جمع کراتے ہوئے کہا کہ
’’عمران خان نے ڈیڑھ ماہ قبل ریکوڈک کے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں ایک کمپنی نے اس بارے میں بتایا۔ حیرت کی بات ہے کہ ریکوڈک ایشیا کا سونے کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے اور عالمی عدالت میں پاکستانی حکومت بلوچستان حکومت کے ذریعے مقدمہ لڑرہی تھی، ہم مقدمہ ہار گئے اور 6 ار ب ڈالر کا جرمانہ ہوگیا۔ وزیراعظم ان ساری باتوں سے لاعلم تھے، اور اب گزشتہ روز عوامی تقریر میں کہا کہ ریکوڈک کے سونے سے ملک کے تمام قرضے اتاریں گے۔ وزیراعظم کو معلوم ہی نہیں کہ کون سا مسئلہ وفاق کا اور کون سا صوبے کا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں پتا ہی نہیں کہ صوبے اور مرکز کے اختیارات کیا ہیں۔ ان کے منہ میں جو کچھ آجاتا ہے، بول دیتے ہیں۔ درجنوں بار ایسی باتیں کہیں۔ صوبائی معاملے میں وزیراعظم مداخلت کرکے صوبائی خودمختاری پر ضرب لگا رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم 2010ء کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ وزیراعظم اتنے بڑے منصب پر بیٹھے ہیں، انہیں آئین، اور وفاقی اکائیوں کے اختیارات کا محافظ بننا چاہیے تھے، لیکن وہ خود اس پر شب خون مار رہے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے مگر ہم اس لیے چیخ رہے ہیں کیونکہ 1952ء میں گیس نکلی، اور جس ڈیرہ بگٹی اور سوئی نے پورے ملک کو گیس دی وہاں آج بھی ہماری عورتیں لکڑیاں جمع کرکے آگ جلاتی ہیں۔ اسی طرح سیندک پراجیکٹ بیس پچیس سال قبل چین کو دیا گیا، اس کا صرف دو فیصد بلوچستان کو مل رہا ہے۔ آج بھی سیندک کے لوگوں کے پائوں میں جوتے نہیں۔ سب کہتے ہیں گوادر سی پیک کا جھومر ہے، مگر 57 ارب ڈالر میں سے بلوچستان اور نہ ہی گوادر کو کچھ ملا۔ بلوچستان 2200 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے مگر 570 یونٹ بجلی کے لیے ترستا ہے۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے مگر ماضی کے ان تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے ہمیں خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ریکوڈک سے بھی ہمیں کچھ نہیں ملے گا، مگر ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ریکوڈک لاوارث نہیں، یہ بلوچستان اور بلوچوں کی جائداد ہے، کسی کے باپ کی میراث نہیں کہ وہ ایک تقریر کرکے اسے بیچ دے۔ چند دنوں سے سی پیک اتھارٹی قائم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں، یہ صوبائی خودمختاری میں مداخلت ہوگی۔ اگر ایسی کوئی حرکت کی گئی تو ہم احتجاج کریں گے، عدالت بھی جائیں گے۔ یہ بلوچستان حکومت کا اختیار ہے کہ وہ خود عالمی سطح پر اشتہار دے کر منصوبہ کسی کو دے۔‘‘
گویا صوبے کی سیاسی فضا میں اس بیان کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ آئینِ پاکستان کے تحت معدنی وسائل صوبوں کا بنیادی حق ہے، جس پر اختیار صوبوں کا ہے، مگر بدقسمتی سے صوبہ بلوچستان اس ضمن میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد بھی نظرانداز ہے۔ صوبہ اپنے قدرتی وسائل کے استعمال سے محروم ہے۔ سوئی کے اندر گیس 1952ء میں دریافت ہوئی، قابلِ استعمال بنائی گئی اور ڈیرہ بگٹی کیا، سوئی بھی اب تک اپنی اس نعمت سے محروم ہے۔1955ء سے1970ء تک بلوچستان کی گیس ملک کی91 فیصد ضرورت پوری کرتی تھی۔ صوبے کو مختلف تکنیکی بھول بھلیوں میں گم رکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں گیس کی پیداوار میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں ضلع قلات میں گیس کا ذخیرہ دریافت کیا گیا ہے اور یہ سوئی کے بعد دوسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ اسی طرح سوئی میں گیس کے92کنویں ہیں۔ لیکن بلوچستان کی گیس کم نرخ میں لی جاتی ہے۔ بقول ثناء بلوچ ’’بین الاقوامی اصولوں کے مطابق قلات کی گیس کا نرخ مروجہ قیمت پر مقرر کیا جائے‘‘۔ گویا صوبے کو سیندک منصوبے اور ریکوڈک کے معاہدوں اور ان میں صوبے کے حصے پر اوّل روز سے تحفظات رہے ہیں۔ ریکوڈک کا مسئلہ تو ٹھیتیان کمپنی سے معاہدہ توڑنے کے بعد الجھ کر رہ گیا ہے۔ مقدمہ عالمی عدالت میں ہے۔ اب تک پاکستان اس معاہدے کی وجہ سے مشکل میں ہے۔ اب نئی شرائط پر دوبارہ ٹھیتیان کے ساتھ معاہدے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ پورے ملک کے غیر ملکی قرضے ریکوڈک سے ادا کرنے کے لیے سوچ بچار ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے صوبوں کا بوجھ بھی بلوچستان پر لادا جائے گا، اور اب تک جتنی رقم بلوچستان کو محروم رکھ کر باقی صوبوں کو ترقی دینے پر خرچ ہوئی وہ بھی یہ پسماندہ صوبہ ادا کرے گا۔ بہرحال صوبے کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو اس پس منظر میں ایک رائے کے ساتھ جانا ہوگا۔ یوں اپنے وسائل کا تحفظ اورصوبے و عوام کی تعلیم، روزگار، صحت اور دوسرے شعبوں پر خرچ کرسکیں گے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے13فروری کو سوئی ٹائون واٹر سپلائی اسکیم کی بنیاد رکھنے کے موقع پر ان محرومیوں کا اظہار کیا ہے۔ جام کمال خان نے کہا کہ ’’1954ء سے پورے ملک کو گیس فراہم کرنے والا سوئی ٹائون 2020ء میں بھی گیس، بجلی، پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے‘‘۔ چوں کہ سوئی پلانٹ کی لیز کی مدت ختم ہوچکی ہے چناں چہ جام کمال کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے تمام معاملات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، اور بغیر سوچے سمجھے لیز میں توسیع نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق وفاقی حکومت سے اس بارے میں تین نشستیں ہوچکی ہیں۔ لیز میں ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے عوام کے مفاد کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا، اور لیز میں توسیع اُس وقت کریں گے جب بلوچستان کے جائز حصے یعنی شیئر کو تسلیم کیا جائے گا۔