کیا ان ہاؤس تبدیلی سے ملک مشکلات سے نکل آئے گا؟۔

حکومت کی دوسری معاشی ٹیم جو دراصل آئی ایم ایف کی معاشی ٹیم ہے، وہ بھی ناکام ہوچکی ہے

زیرنظر کالم بروز بدھ 12 فروری 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوا ہے، جس میں معروف تجزیہ نگار ابراہیم کنبھر نے وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اظہارِ خیال کیا
ہے۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے کالم کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……

سندھی تحریر:ابراہیم کنبھر/ترجمہ:اسامہ تنولی

’’جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی دلاکر جن صاحب کے حوالے حکومت کی گئی، اس حکومت نے بدلے میں عوام کے سر پر جو سہرا سجایا ہے، اس کا احساس اب انہیں بھی ہورہا ہے جنہوں نے ان (مراد عمران خان) کے منشور میں ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ ڈالا تھا۔ ان اٹھارہ ماہ میں دوسری کوئی بھی تبدیلی محسوس نہیں کی گئی۔ بس اب جو تبدیلی آنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں وہ زیادہ اہم، دلچسپ اور معنی خیز ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں حکومت کو جو پیغامات ملے ہیں اُن کے بعد اس نے خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیے ہیں۔ تحریک انصاف نے حکومت بچانے کے لیے قاف لیگ سمیت اپنے تمام اتحادیوں کے ہر مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کا ارادہ کرلیا ہے، لیکن کیوں کہ سبھی کو علم ہے کہ تحریک انصاف ہو یا اُس کے اتحادی، اُن کے اقتدار کا راستہ ایک ہی ہے اور ایک ہی جا سے برآمد بھی ہوتا ہے (یعنی اسٹیبلشمنٹ سب کی مربی اور سرپرست ہے۔ مترجم) لہٰذا اتحادی بھلے سے یہ بیان دیں کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں، حکومت اور اتحادی الگ نہیں ہیں۔ لیکن یہ محض زبانی جمع خرچ کی حد تک ہی ہے۔ اس کے پیچھے کسی نوع کی کوئی بھی سنجیدگی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کو ناکامیوں سے سابقہ کیوں پیش آیا؟ اس پر ہم بعد میں آتے ہیں، لیکن ہم جیسے غریب ممالک میں جہاں پر سیاست اور اقتدار میں بے شمار انداز سے مداخلت کی جاتی ہے، اس لیے یہاں کرسیِ اقتدار پر آرام و سکون کے ساتھ براجمان ہونا اتنا سہل نہیں ہے، جتنا کہ خان صاحب گمان کررہے تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ وزیراعظم مارے سادگی کے مار کھا گئے ہیں۔ البتہ ایکسٹرا اسمارٹ ہونے کی وجہ سے مار کھانے والی دلیل میں کچھ وزن ضرور ہے۔ تحریک انصاف کو معلوم تھا کہ وہ کس کے ’’توسط‘‘ سے برسراقتدار آئی ہے۔ اس لیے ان کے ہاں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کا روزِ اول ہی سے اختیار نہیں تھا۔ کسی فیصلے پر اسٹینڈ لینے، مزاحمت یا مخالفت کرنے کی بھی ان کے پاس اخلاقی رٹ نہیں رہی ہے۔ اس لیے نوبت بہ ایں جا رسید کہ عالمی تنہائی سے لے کر گھر کے اندرونی حالات (ملکی معاملات کی طرف اشارہ ہے۔ مترجم) میں بھی ایک بڑا بگاڑ رونما ہوچکا ہے۔ یہ بگاڑ اتنا زیادہ ہے کہ سوچنے والے اب سوچ رہے ہیں کہ اگر خان صاحب کا حکومتی ’اسٹیٹس کو‘ جاری رہا تو ملک کو پہنچنے والے نقصان کا کوئی ازالہ ممکن ہی نہیں ہوپائے گا۔
محض معاشی محاذ ہی تو نہیں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ حکومتی معاشی ٹیم کے سربراہ تو اسد عمر تھے، جنہوں نے آتے ہی پہلا اعلان یہ کیا تھا کہ عوام کی ابھی مزید چیخیں نکلیں گی۔ خان صاحب کی یہ معاشی ٹیم تو پہلے چھے ماہ کے عرصے ہی میں ناکام ہوگئی۔ سچ یہ ہے کہ کابینہ کی اس تبدیلی کے بعد غیر منتخب تقرریوں کے بعد سے ہی کافی حد تک یہ امور واضح ہوگئے تھے کہ اب آگے چل کر کیا ہونا ہے، یا ہونے والا ہے؟ حفیظ شیخ کی سربراہی میں ایک نئی معاشی ٹیم مسلط کی گئی۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کے استعفے کے بعد اب اس بات کو یقینی گردانا جائے کہ عمران خان کی حکومت کی دوسری معاشی ٹیم جو دراصل آئی ایم ایف کی معاشی ٹیم ہے، وہ بھی ناکام ہوچکی ہے، جس میں تبدیلی شبر زیدی کے استعفے کے بعد ہوچکی ہے، جو ہر آنے والے دن میں مزید بڑھے گی۔ وزیراعظم نے شبر زیدی کو ایف بھی آر کا چیئرمین مقرر کرتے وقت حد درجہ اظہارِ مسرت کیا تھا۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شبرزیدی کا ساری زندگی کام کیا رہا ہے؟ شبر زیدی انتہائی شریف النفس ہیں، لیکن کانفلیکٹ آف انٹرسٹ کی بنیاد پر انہیں عہدہ قبول ہی نہیں کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ ان کا کام ساری عمر ٹیکس وصولی کے برعکس رہا ہے۔ شبر زیدی ساری زندگی سبق دیتے رہے کہ ٹیکس کس طرح سے بچانا ہے، پھر وہ بھلا کس طرح سے پہاڑ جیسا ٹیکس کی وصولی کا ہدف پورا کرپاتے؟ شبر زیدی گئے، حفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کی تبدیلی کی اطلاعات کے بارے میں وزیراعظم فی الحال تردید کررہے ہیں۔ ہمیں تو یہ علم ہے کہ تردید اُس وقت ہوا کرتی ہے جب اس کے پس منظر میں کچھ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے میرا اپنا خیال ہے کہ حفیظ شیخ نے بھی اربابِ اختیار کے سامنے دست بستہ یہ کہا ہے کہ یہ معاشی ہدف کا حصول (جو انہیں دیا گیا ہے۔ مترجم) ان کی بساط سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے دوبارہ آزمودہ کو آزمانے کے لیے اسد عمر کا نام سامنے آرہا ہے۔ اگر اسد عمر کو اپنی پہلی بے دخلی نہیں بھولی ہوگی تو وہ اسی سابقہ عہدے پر دوبارہ فائز نہیں ہوں گے، لیکن خان صاحب سے نبھانا ہے تو وہ بھلے سے ایک بار پھر وزارت کو سنبھالیں۔
تحریک انصاف کی حکومت تو اٹھارہ ماہ تک ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی کے خلاف قائم کردہ اپنے بیانیے پر خوب دھول اڑاتی رہی اور تنقید کرتی رہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ خان صاحب سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ آپ نے اتنے عرصے میں کیا کیا ہے؟ آپ کے پاس کون سا پلان ہے؟ کسی فرد، ادارے، تنظیم یا حکومت کے خلاف واویلا کرنے کے لیے بھی کوئی ٹائم فریم ہوتا ہے۔ آخر کب تک یہ راگ الاپا جاتا رہے گا کہ فلاں کھا گیا، فلاں لُوٹ گیا؟ حکومت جنہیں تمام برائیوں کی جڑ گردانتی ہے اُن سیاست دانوں کے کھانے پینے کا راستہ گزشتہ اٹھارہ مہینوں سے بند پڑا ہوا ہے۔ مال کھانے والے بھی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف نے اسمبلی میں دورانِ تقریر کہا کہ آصف زرداری اور نوازشریف کی شوگر ملیں تو بند ہیں، آخر پھر یہ چینی کیسے مہنگی ہوئی ہے؟ اٹھارہ مہینوں سے سارے کرپٹ تو جیلوں میں بند ہیں یا پھر عدالتوں سے ضمانتیں لینے کے چکر میں ہیں، کچھ ملک سے باہر ہیں۔ حکومت اس عرصے میں کرپشن کے کھڑکیاں اور دروازے بند کرچکی ہے۔ اس کے بعد ملکی خزانے میں بہتری کیوں نہیں آئی ہے؟ آٹے اور چینی کے بحران کے پس پردہ کون سی مافیا ہے؟ اگر مافیا ہے تو اس کے خلاف کون سی کارروائی ہوئی ہے؟ اگر نہیں ہوئی ہے تو کیوں نہیں ہوئی ہے؟ بیرونی دنیا نے اگر ہمارے ملک کی مدد کی تو اس میں بھی خان صاحب کا کوئی ہاتھ یا کردار نہیں ہے۔ وزیراعظم خود یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ اس مدد میں آرمی چیف کا بڑا کردار ہے۔ جب بیرونی ممالک کی امداد کا کام بھی وزیراعظم نہیں کرتے، اندرونی صورتِ حال کو بھی وہ سنبھال نہیں پاتے، خارجہ پالیسی ان کے ہاتھوں میں نہیں، وزارتِ داخلہ کو بھی وہی سنبھالتے ہیں جو ملکی دفاع کی وزارت کو سنبھالنے کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، ترقیاتی کاموں کو بھی فل اسٹاپ لگ چکا ہے، پچاس لاکھ نوکریاں اور ایک کروڑ گھر تعمیر کرواکر عوام کو دینے کا منصوبہ بھی پس منظر میں جا چکا ہے اور ہماری موجودہ حکومت پشاور میٹرو کے منصوبے میں پھنسی ہوئی ہے۔ آٹا مارکیٹ سے غائب ہے، چینی کی قیمت بڑھتی جارہی ہے، تو پھر اس کے ہونے یا نہ ہونے سے آخر کون سا فرق پڑتا ہے؟ جب ناکامیوں کے بعد مزید ناکامیاں ہی سامنے آتی رہیں گی تو بالآخر ایک روز اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ ناکام تجربے کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ یہ ملک کوئی برطانیہ یا امریکہ نہیں ہے کہ جسے جو بھی وزیراعظم آکر چلا لے۔ یہاں پر تو برسراقتدار آکر لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔ صرف کنٹینرز پر کھڑے ہوکر تقاریر کرنے سے حکومتیں نہیں سنبھالی جا سکتیں، اور پاکستان میں حکومت کرنا کوئی آسان کام ہرگز نہیں ہے۔ ہم اپنی بات کو اس بنیاد پر ختم کرتے ہیں کہ دو تین باتیں سیاسی مارکیٹ میں آج کل چل رہی ہیں کہ جن ’’صاحب لوگوں‘‘ نے تحریک انصاف کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا تھا اب وہ اس سے تنگ آچکے ہیں۔
یہ خبریں گرم ہیں کہ خان صاحب اور ان کے اتحادیوں کو ایک ہی نوع کے دو تین پیغامات مستقبل کے حوالے سے دیے گئے ہیں، جس کے بعد وزیراعظم سمیت ساری کابینہ کو اب یہ احساس دامن گیر ہوگیا ہے کہ انہیں جس راستے سے یہاں (یعنی حکومت تک) لایا گیا تھا اب ان کی واپسی بھی اسی راستے سے ہونے کا امکان بہت بڑھ گیا ہے۔ اس کے بعد سے نواز لیگ کو اس ساری صورت حال میں اہم کردار ملنے کی بھی تیاریاں جاری ہیں۔ میاں شہبازشریف بیمار بھائی کی وجہ سے لندن میں مقیم نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئے تجربے کی تیاری کررہے ہیں۔ جس طرح نوازشریف کی حکومت کے خلاف لندن پلان تیار ہوا تھا، اسی طرح سے لندن پلان (ٹو) کی تیاریوں کی خبریں بھی مارکیٹ میں چل رہی ہیں۔ اب تو چودھری نثار علی خان کی بھی لندن روانگی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض وفاق ہی سے نہیں بلکہ پنجاب میں بھی بوریا بستر (موجودہ حکومت۔ مترجم) گول ہونے کا امکان ہے۔ تبدیلی کس نوعیت کی ہوگی، اس کے حوالے سے کچھ نامکمل اور ادھوری خبریں موجود ہیں، جنہیں ابھی میچور ہونا باقی ہے۔ لیکن عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے دو تین ناقابلِ تردید اسباب ہیں۔ ایک ان کی خوش فہمی کہ جو انہیں لے کر آئے ہیں انہیں ان پر کامل اعتماد و اعتبار ہے، دوسرا اسمبلی کو غیر فعال کرکے سارے پارلیمانی نظام کے بخیے ادھیڑنا، تیسرا ناتجربہ کاری، چوتھا سبب خود کو عقلِ کُل، صادق، امین اور پرفیکٹ سمجھنے کا زعم، اور اپنے اتحادیوں کے سوا دوسروں کو چور چور کرکے پکارنا، پانچواں سبب اپنی صفوں میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کا دفاع کرنا، چھٹا سبب مکمل بے اختیاری کے باوجود کہیں بھی کسی بھی اختیار کے لیے سعی نہ کرنا اور ملک کے سیاسی نظام کے لیے خطرات پیدا کرنا… یہ سارے عوامل ان کے کمالات کا مظہر اور ثبوت ہیں جس کی وجہ سے ساری ناکامیاں ان کے دامن میں آگری ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ میاں شہبازشریف ہی اس سیٹ اپ کے نئے وزیراعظم ہوں گے تو آخر اُن میں کون سے ایسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ وہ اس ساری صورت حال کو بہتر کرسکیں؟ یہ بات تو پہلے دن سے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ عمران خان جیسے شخص کی سربراہی میں حکومت بناکر جو تجربہ کیا گیا ہے وہ ایک ناکام تجربہ ہے، لیکن شہبازشریف کی شکل میں یا اِن ہائوس تبدیلی کی صورت میں دوسرا کوئی بھی شخص اس اقتدار پر آن براجمان ہوا تو اس تجربے پر ناکامی کی ایک مہر لگ جائے گی۔ اس لیے شہبازشریف ہوں یا کوئی اور… موجودہ صورتِ حال میں ان کے آنے سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر اصل اہلِ اقتدار مقتدر حلقوں نے کسی تبدیلی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو خدارا شفاف الیکشن کرائے جائیں۔ یہی گزارش کراچی کی شہری پارٹیوں سمیت اُن تمام سیاسی پارٹیوں سے بھی ہے جن کی قیادت کے اندر کوئی نہ کوئی آمر رہتا ہے تاکہ وہ بھی وڈیروں، سرمایہ داروں اور اپنے گلوبٹ ٹائپ افراد کے ذریعے بیلٹ بکس چرانے والی روایت سے دست بردار ہوکر ایک مرتبہ پھر عوام کے ووٹ کی پرچی پر اعتماد کرکے دیکھ لیں۔ شفاف عام انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو فیصلہ سازی کا بھی اختیار دیا جائے۔ پارلیمنٹ کو بااختیار اور پالیسی سازی کا محرک بنانے کے ساتھ آئین کو حقیقی معنوں میں بالادست سمجھا جائے۔ دوسری صورت میں شہبازشریف ہوں یا اور کوئی، ان کی ڈور بھی اگر وہ پس پردہ ہاتھ ہلائیں گے تو جتنے ناکام عمران خان ثابت ہوئے ہیں ویسا ہی حشر آنے والے نئے صاحب کا بھی ہوگا۔‘‘