ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں
کاشف رضا
نواب شاہ شہر اس وقت گندے آلودہ پانی سے بری طرح متاثر ہے۔ بلدیاتی نظام اپنے اختتام کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے لیکن بلدیہ عظمیٰ نواب شاہ کی مشینری اس پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام نظر آرہی ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے بنایا جانے والا واٹر فلٹر پلانٹ ناکارہ ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ منوآباد، مریم روڈ پرانا نواب شاہ خاص طور پر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ڈرینج لائنیں واٹر سپلائی کی لائنوں کے ساتھ مل گئی ہیں۔ 1970ء سے قبل کی لائنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ بلدیہ کے موجودہ چیئرمین نے اس حوالے سے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی جس پر عوام اُن سے سخت نالاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بوسیدہ نکاسی آب اور فراہمی آب کی لائنوں، خاص طور پر منوآباد مریم روڈ، جام صاحب روڈ، تاج اعظم کالونی کے ساتھ ساتھ پورے شہر کی لائنوں کو تبدیل کرکے عوام کی بنیادی ضرورت پانی کو صاف شفاف بنایا جائے، تاکہ شہر بھر میں پھیلنے والے موذی امراض سے بچا جا سکے۔ اس وقت شہر میں متعدد سنگین امراض اور ناگہانی اموات کی ایک بڑی وجہ آلودہ پانی ہے جسے پینے سے لوگ پیٹ، جِلد، جگر اور دیگر مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماریاں پانی میں فلورائیڈ کی بڑھی ہوئی مقدار کے سبب لاحق ہوتی ہیں۔ آلودہ پانی کے سبب جوڑوں کا درد اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آنکھوں اور جِلد کے بہت سے مسائل کا بھی آلودہ پانی سے تعلق ہے۔
پاکستان میں ڈائریا اور گیسٹرو کے سالانہ دس کروڑ کیسز ہوتے ہیں۔ گیسٹرو اور ڈائریا سے زیادہ تر بچے متاثر ہوتے ہیں۔ گیسٹرو کے مریض آنتوں کی سوزش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں امراض چھوٹے بچوں، بوڑھوں، دل اور گردے کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے اسپتالوں میں چالیس فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہی ہے۔ آلودہ پانی پولیو وائرس پھیلانے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ مالی لحاظ سے ملک کو گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ ایک سو بارہ ارب روپے، جبکہ صحت کی خرابی اور آمدنی میں کمی سے روزانہ تیس کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کے صرف پندرہ فیصد شہری اور اٹھارہ فیصد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ توجہ طلب بات ہے کہ یہ آبِ حیات زہر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کو یہ سنگین مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 70 فیصد سے زائد لوگ جو دیہات اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، ان کے لیے اپنے مالی حالات کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ فلٹر شدہ یا ابلا ہوا پانی پی سکیں۔ صاف پانی صحت مند معاشرے کی اوّلین اور بنیادی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پینے کے پانی کے حوالے سے کچھ تلخ حقائق کے منظرعام پر آنے کے بعد اب یہ نعمت ملک کے بیشتر علاقوں میں صحت کے لیے غیر محفوظ تصور کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پینے کے لیے دستیاب پانی صحت کے لیے مضر ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں موجود پینے کے پانی کا نظام بہت پرانا ہے، اور یہ بہت حد تک آلودہ ہوچکا ہے۔ کثیر تعداد میں پرانی اور زنگ آلود پائپ لائنوں کی وجہ سے متعدد جراثیم آسانی کے ساتھ پینے کے اس پانی میں مل جاتے ہیں۔ ملک میں پانی کے ذخائر یا ٹینکیوں کی صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور40 فیصد بچوں کی اموات جن کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں، اسی آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اکثر فراہمی آب کی لائنوں کا گزر گندی نالیوں یا نہروں سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پانی کی فراہمی کی پائپ لائنوں میں بہت سی جگہوں پر سوراخ ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات بارش یا سیوریج کا پانی ان میں داخل ہوجاتا ہے اور پانی کو مزید آلودہ بنا دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ڈائریا، گیسٹرو سمیت پیٹ اور گلے کی بہت سی مختلف بیماریوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ جراثیمی بیماریاں بالخصوص آنتوں کی سوزش، قبض اور بواسیر پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ گندا پانی ہے، اس لیے نلکوں کے پانی کو خطرے سے خالی نہ سمجھا جائے۔آلودہ پانی انسانوں کا بہت بڑا قاتل ہے۔ ہر سال تیس لاکھ پاکستانی آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جن میں سے بارہ لاکھ انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں دو لاکھ پچاس ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی سے اسہال اور دیگر جراثیمی بیماریوں کی شرح میں خاطرخواہ کمی آسکتی ہے۔ دیہات میں ندی نالوں، کنووں اور جوہڑوں کے پانی میں کسی نہ کسی طرح جانوروں کا فضلہ، پیشاب اور زمینی غلاظت شامل ہوجاتی ہے، اس لیے ایسا پانی بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ اس گندے پانی سے نظام ہضم کی کئی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ انتڑیوں کی سوزش، بدہضمی، گیس، معدے کا السر، اپھارہ، اسہال اور جوڑوں کا درد جیسے امراض بھی گندا اور ناقص پانی پینے سے لاحق ہوسکتے ہیں۔