نیم کا درخت ہوتا تو کڑوا ہے مگر میٹھے لوگوں کے لیے فائدہ مند بہت ہے
حضرتِ انسان نے ازالۂ مرض کے لیے سب سے پہلے نباتاتی دوا استعمال کی تھی۔ جڑی بوٹیوں کے خواص کیسے معلوم ہوئے یہ الگ موضوع ہے، اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ آج علم نباتات جس میں پودوں کی زندگی کے حالات اور حوادث بیان کیے جاتے ہیں، ان کی ظاہری ساخت، افعال اور ماحول پر بات کرنا مقصود ہے۔ اور یہ بھی بیان کرنا ہے کہ ان کے اعمالِ حیات کیا ہیں۔ اگر آپ کسی درخت کو دیکھیں تو اس میں جڑ، تنا، پتے، پھول، پھل اور کلیاں ملیں گی۔ ہمارے یہاں ایک خودرو، سایہ دار، ماحول کو صاف کرنے والا، انسان کو زندگی دینے والا درخت ہوتا ہے جسے ہم ’نیم‘ کہتے ہیں۔ قدرت نے نیم کے ہر حصے میں شفا رکھی ہے۔ پہلے مغرب اس کی اِس شفایابی کی خصوصیات سے واقف نہیں تھا، مگر اب اس نے پورے کے پورا درخت کو رجسٹرڈ (پیٹنٹ) کرالیا ہے۔
نیم کا درخت ہوتا تو کڑوا ہے مگر میٹھے لوگوں کے لیے فائدہ مند بہت ہے۔ گرمی کے موسم میں اس پر پھول آتا ہے جس کی بھینی بھینی خوشبو آس پاس میں بس جاتی ہے۔ اس کے بعد پھل آتا ہے جو انگور کے دانے کی شکل کا ہوتا ہے اور ’نبولی‘ کہلاتا ہے۔
کچی نبولیاں سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ مزا کڑوا ہوتا ہے۔ پکنے پر ان کی رنگت پیلی ہوجاتی ہے اور مزا ذرا میٹھا ہوجاتا ہے۔ نبولی کی گٹھلیوں سے مینگ نکلتی ہے اور اس کو کولہو میں پیل کر تیل نکالا جاتا ہے جو نیم کا تیل کہلاتا ہے۔ نیم کے بعض درختوں سے تاڑ اور کھجور کی طرح ذرا مٹھاس لیے پانی نکلنے لگتا ہے، اس کو نیم کا ’مد‘ کہا جاتا ہے۔ نیم بنیادی طور پر برصغیر پاک و ہند کا درخت ہے۔ ویدک سنسکرت میں اس کا نام نمبا (NIMBA) ہے۔ اسے برصغیر کی روایات میں اکسیر اور تمام امراض کی شافی دوا سمجھاجاتا ہے۔
آیورویدک کے ایک قدیم وید چکراوتا نے نیم کے مختلف اجزا کو اپنے نسخوں میں استعمال کیا تھا۔ مثلاً پیٹ کے کیڑے خارج کرنے کے لیے وہ نمک ملا نیم کا رس پیتا تھا۔ یرقان کے لیے رس میں شہد ملاتا تھا اور یہی نسخہ وہ جلدی امراض میں بھی استعمال کرتا تھا۔
اشوک اعظم چندراگپت موریا کا پوتا تھا۔ اس نے اپنے ویدوں کے مشور ے سے اپنی سلطنت میں بہت سی جگہ نیم کے بڑے بڑے جھنڈ لگوائے تھے۔ اس کے ساتھ املی اور مہوا (Mahua) کے درخت بھی تھے، کیوں کہ نیم اور دونوں دوسرے درخت ہوا کو صاف کرتے ہیں۔ ابھی تک پرانے ویدوں اور طبیبوں میں یہ روایت بھی چلی آتی ہے کہ تیز بخار کی صورت میں مریض کو نیم کی پتّوں بھری شاخوں کا پنکھا جھلا جاتا ہے۔ نیم کے پتوں کی ہوا ماحول کی ہوا کو بھی صاف کرتی ہے اور درجہ حرارت کو بھی کم کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم خسرہ کے مریض کے بستر میں نیم کے پتے ڈال دیتے ہیں۔
نیم کا درخت برصغیر میں ہر جگہ ہی پایا جاتا ہے۔ اس درخت کی افادیت کے بارے میں نہ صرف ہمارے ہاں تحقیقی کام ہوا ہے بلکہ مغربی ممالک مثلاً جرمنی اور امریکا وغیرہ میں بھی اس سے متعلق تحقیق جاری ہے۔ اسے ایک مؤثر قدرتی جراثیم کش درخت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ملکوں میں تو نیم کی ان خصوصیات کو ایک عرصے سے مانا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کپڑوں اور کتابوں کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نیم کی خشک پتیوں کا استعمال عام بات ہے۔
فرانس اور جرمنی کو ایک زمانے میں نیم کے 14 ٹن خشک پتے برآمد کیے گئے ہیں۔ اس کے لیے کم از کم 140 ٹن ہرے پتے توڑے گئے۔ اس کی مینگیں اور جڑیں سب طبی خواص سے مالامال ہیں۔ اہلِ مغرب نے اس کے مختلف اجزا کے عصارے (Extract) لے کر مختلف فارمولوں سے طبی اجزاء اور ادویہ تیار کرکے ان کے پیٹنٹ حاصل کرلیے ہیں۔
گھنے نیم کی سدا بہار پتیاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بخوبی جذب کرکے بڑی مقدار میں آکسیجن خارج کرتی ہیں اور اس طرح فضائی آلودگی اور عالمی افزائش حرارت (Global Warming) میں خاصی کمی کا سبب بنتی ہیں۔ نیم کی ایک اور عجیب و غریب خاصیت یہ ہے کہ دوسرے تمام درختوں سے رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج ہوتی ہے، جبکہ نیم سے یہ گیس خارج نہیں ہوتی۔ چوں کہ یہ بڑا چھتردار درخت ہوتا ہے، اس میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ضیائی تالیف سے مراد یہ ہے کہ پودے، سورج کی روشنی کی موجودگی میں اپنی غذا بناتے ہیں۔
نیم کی جراثیم کش خصوصیت کے پیشِ نظر اس کی نرم ٹہنیوں کو بھی گھروں، خصوصاً دیہی علاقے کے گھروں میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور شاخ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس سے مسواک بھی بنائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مسواک سے دانتوں اور مسوڑھوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ نیم سے بنا ہوا صابن اور ٹوتھ پیسٹ نہ صرف ہمارے ملک، بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی استعمال ہورہا ہے۔ نیم کی خشک پتیوں کو جلانے سے مچھر بھاگتے ہیں۔ یہی کام نیم کے تیل سے بنے کوائل سے بھی لیا جاتا ہے۔ بیکٹریا، پھپھوند اور وائرس کے باعث لاحق ہونے والی اکثر بیماریوں کے لیے بھی وہ ادویہ مفید سمجھی جاتی ہیں جنھیں نیم سے تیار کیا جاتا ہے۔
نیم کی کڑواہٹ مشہور ہے اور اس میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں، ان کی وجہ سے اسے طبی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے پسے ہوئے پتے خارش میں فائدہ مند ہیں اور پندرہ دن کے استعمال سے یہ مرض دور ہوجاتا ہے۔ نیم کی چھال کو ایگزیما سمیت جلد کی متعدد بیماریوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے تیل سے تیار کیا ہوا لیپ گٹھیا کے مرض میں مفید ہے، اور نیم کی نبولی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ جلاب کے لیے خوب ہے اور پیٹ صاف کرتی ہے۔ نیم کو قدرتی جراثیم کش کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا یہ پیڑ نہ کیمیائی جراثیم کش مرکبات کی طرح زمین میں آلودگی کا باعث بنتا ہے، نہ پانی کو آلودہ کرتا ہے اور نہ انسانی صحت کے لیے مضرت رساں ہے۔ پتی اچھلنے اور پھوڑوں کے لیے پینے کے پانی میں نیم کے پتے ڈال دیے جاتے ہیں اور یہی پانی مریضوں کو پلایا جاتا ہے۔ دانتوں کی صفائی کے لیے نیم کی مسواک مفید سمجھی جاتی ہے۔ نیم کا تیل معدے کے السر، کیڑوں کی چھوت (انفیکشن) اور بادی کے دردوں کے لیے مستعمل ہے۔ اس درخت کے تمام اجزا کیڑے مارنے کی خاصیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ پتنگوں اور ٹڈیوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ سلاجیت کے نسخے میں نیم کا رس شامل ہوتا ہے۔
نیشنل ریسرچ کونسل امریکہ کے مطابق نیم برتھ کنٹرول، ماحولیاتی آلودگی اور کیڑوں سے نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے اور ترقی پذیر ملکوں کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسرے کیمیائی اجزا کے ساتھ نیم قوتِ مدافعت کو کم کرنے والے وائرس (مثلاً ایڈز کے وائرس) کے پھیلائو کو روکتا ہے۔
نیم حیاتی کیڑے مار(Biopesticide) ثابت ہوا ہے۔ فصلوں کو تباہ کرنے والے کیڑوں میں سے 80 انواع پر اثرانداز ہوتا ہے۔
نیم کے تمام اجزا کڑوے ہوتے ہیں، لیکن نیم مزے کے لحاظ سے جس قدر کڑوا ہے، فائدے کے لحاظ سے اسی قدر میٹھا ہے۔ اس کے تمام اجزا پتے، پھول، پھل، چھال بطور دوا استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا سایہ بھی صحت بخش ہے۔
نبولیوں کی گری بواسیر میں مفید ہے۔ اسے دوسری مناسب دوائوں کے ساتھ خونیں و بادی بواسیر میں کھلاتے ہیں۔ رسوت، نبولی کی گری، کالی مرچ اور گوگل… ہر ایک ہم وزن ملا کر جنگلی بیر کے برابرگولیاں بنائیں اور ایک ایک گولی صبح و شام پانی سے کھلائیں، اور نبولی کی گری پتھر پر پانی کے ساتھ گھسِ کر روئی لتھیڑ کر بواسیری مسوں پر لگائیں، اور لنگوٹ باندھیں۔ جلن اور درد رُک جائے گا۔
نیم کے پتے بڑے اچھے مصفی خون ہیں۔ تقریباً سات ماشہ لے کر سات کالی مرچوں کے ساتھ پیس چھان کر پینے سے خارش، داد، پھوڑے، پھنسیوں، حتیٰ کہ جذام (کوڑھ) کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
نیم کا تیل جو نبولیوں کی گری سے دوسرے روغنی بیجوں کی طرح نکالا جاتا ہے، بہت اچھا دافع سڑاند ہے۔ اس کو سڑے ہوئے زخموں پر لگانے سے فائدہ ہوتا ہے، اگر زخم میں کیڑے پڑ گئے ہوں تو وہ اس کے لگانے سے مر جاتے ہیں۔ اس سے مرہم بناکر سڑے ہوئے زخموں پر لگاتے ہیںاور جوئیں مارنے کے لیے سر کے بالوں میں لگاتے ہیں۔ نیم کا مد بھی خون صاف کرتا ہے اور مقوی ہے۔ خارش، پھوڑے، پھنسی اور آتشک و جذام کے امراض بھی اس کے پلانے سے اچھے ہوجاتے ہیں۔ یہ مد روزانہ پانچ تولے تک پینا چاہیے۔ نیم کی کونپلیں پیس کر لگانے سے گرمی دانے ختم ہوجاتے ہیں۔
نیم کے پتے پھوڑے پھنسیوں کو دور کرتے، درد کو تسکین دیتے اور اُن کو پکاکر پھوڑتے ہیں اور زخموں سے مواد کو نکال کر پاک صاف کرتے ہیں۔ ان فوائد کے لیے نیم کے پتوں کو کچل کر گولا بنائیں اور اوپر کپڑا لپیٹ کر گیلی مٹی لگائیں اور آگ میں دبائیں۔ جب اوپر کی مٹی پک جائے تو اندر سے پتوں کا بُھرتہ نکال کر پھوڑے، پھنسیوں اور زخموں پر باندھیں۔ کھجلی میں نیم کے پتوں کے جوشاندے سے نہاتے ہیں۔