جامعہ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار

اس کتاب کا عرصے سے انتظار تھا، بالآخر چھپ گئی اور ہم تک پہنچ گئی تاکہ معزز قارئین سے اس کا تعارف کرا سکیں۔ یہ ایک اہم تحقیق ہے جس کے متعلق دو چوٹی کے علما کی وقیع آرا ہم پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی بن مولانا سید سلیمان ندویؒ (ڈربن جنوبی افریقہ )کی وقیع رائے ہے:
’’سب سے پہلے مقالہ نگار اور ان کے علمی مشیر تعریف اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے گزشتہ تاریخِ اسلامی کے ایک بھولے ہوئے عہد کی علمی کاوش اور مدرسہ نظامیہ بغداد کی تاریخ پر قلم اٹھایا۔ ہمارے مدارسِ عربیہ اور انگریزی جامعات کے کتنے قارئین نظامیہ بغداد و نیشاپور کے ناموں سے بھی واقف ہوں گے۔مقالہ یقینا بہت محنت سے لکھا گیا ہے۔ نفسِ عنوانِ مقالہ کے تعلق سے مقالہ نگار نے بہت خوبی کے ساتھ ریسرچ، تحقیق کے اصولوں کے مطابق مقالہ لکھا ہے اور قابلِ اعتماد حوالوں کا اہتمام کیا ہے۔ مقالے کے لیے عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے اصلی اور ثانوی ماخذ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے مقالہ نگار کی ماخذ پر گرفت اور رسائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ عربی عبارتوں کے ترجمے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ عام طور پر مقالہ نگار اس سے غفلت کرتے ہیں، لیکن مقالہ نگار نے ترجمے کا اہتمام کرکے غیر عربی دانوں کے لیے سہولت کردی ہے۔ صفحہ 335 تا 343 میں ضمیموں کا اضافہ بہت ہی مفید اور کارآمد ہے۔ خصوصاً ضمیمہ اوّل میں اصحابِ صفہ کی فہرست کو یکجا دے کر بہت بڑا علمی کام کیا ہے۔ عام طور پر اصحابِ صفہ کے سلسلے میں چند ہی مشہور نام لیے جاتے ہیں۔ اس فہرست سے اصحابِ صفہ کی تعداد کا اندازہ ہوگا۔ ابواب سوم تا ششم اس مقالے کی جان ہیں۔ بڑی کاوش سے ان ابواب میں متعلقہ امور سے بحث کی گئی ہے۔ صفحہ 198تا 199 پر مقالہ نگار نے گبن (Gibbon) کے بیان پر صحیح گرفت کی ہے کہ نظامیہ بغداد کے متخرجین کی تعداد یقیناً چھے ہزار سے زیادہ ہوگی۔
صفحہ 115 تا 117 پر مقالہ نگار نے صحیح بحث کی ہے کہ مدرسے کی ترقی یافتہ شکل کا مؤسسِ حقیقی نظام الملک ہی تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اس سے پہلے مدرسوں کی تعمیر کا کام شروع ہوچکا تھا اور مدارس کے انصرام و اہتمام کا آغاز ہوچکا تھا۔ مگر مدارس کی ترقی یافتہ شکل جس کے تتبع میں آج کی جامعات اور مدارس کا نظم و قیام ہے، دراصل نظام الملک ہی کی مرہونِ منت ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بنو عباس کی خلافت کا آغاز تو ابوالعباس السفاح (136/754) کی خلافت ہی سے ہوگیا تھا، مگر خلافتِ عباسیہ کا اصل مؤسس و معمار درحقیقت ابو جعفر المنصور (158/775) ہی کو مانا جاتا ہے۔
مقالہ نگار نے جن اہداف و مقاصد کا اپنے مقدمے میں ذکر کیا ہے وہ انہوں نے بہت خوبی اور کامیابی سے حاصل کیے ہیں اور۔ آئندہ کے متحققین کے لیے بہت معلومات فراہم کردی ہیں۔ عہدِ ماضی کی علمی تاریخ کے اس تابناک پہلو کو آج کے نوجوان علما اور طلبہ کے لیے خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ عربی و فارسی ماخذ میں نظامیہ بغداد کی تاریخ بکھری ہوئی ہے۔ اردو میں عبدالرزاق کانپوری کی کتاب ’’نظام الملک طوسی‘‘ میں معلومات یکجا کی گئی ہیں، مگر اس کے بعد اس عنوان کے مالہٗ اور ماعلیہ پر یہ مقالہ ایک کامیاب علمی کارنامہ ہے‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی شعبہ علوم اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی و سابق ڈاکٹر شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ ،انڈیا،کتاب کے متعلق فرماتے ہیں:
علم کے فروغ کا بنیادی کام ازل سے قلم کے سپرد ہوا جو کتاب و معلم کے مثلث کا تیسرا زاویہ ہے۔ مثلث کے اندرون میں اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے بقول ’’جوف‘‘ میں ادارہ مدرسہ بستا ہے جس کو اب ایک زیادہ معنی آفرین لفظ اور مروج اصطلاح میں جامعہ کہا جاتا ہے۔ مکاتیب و مدارس اور جامعات کے ظاہری روپ نئے ہوسکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں، لیکن اسلامی تہذیب و تمدن اور تاریخ و ثقافت میں ان کے علم پرور ادارے روزِ اول سے موجود تھے کہ وحیِ الٰہی نے ان کی بساط پہلے ہی بچھادی تھی: ’’اللہ نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور وہ سب کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرضِ منصبی کا اظہار یوں کیا کہ ’’میں معلم کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ اور اس فرضِ معلمی کی بجا آوری میں آپؐ نے روزِ بعثت سے تعلیم گاہوں کا انتظام فرمایا۔
عہدِ نبویؐ سے مکاتیب و مدارس کا جو ارتقا ہوا وہ خلافتِ اسلامی کے مختلف ادوار میں حلقوں، زاویوں، مدرسوں اور جامعات کی صورت میں اہلِ اسلام و ایمان ساتھ ساتھ تمام انسانوں کو علم و فن، دانش و حکمت اور تدبر و تفکر کی دولت سے مالا مال کرگیا۔
سلاطین اور فرماں روائوں اور ان کے علما و فضلا، علاوہ اہلِ انتظام و انصرام کے جوہرِ قابل نے ان کو فروغ دیا تو دیا، ان کی ادارتی تشکیل بھی کی۔ جامعات اور مدارس کی اعلیٰ پیمانے پر ترقی و تعمیر کا سب سے بنیادی کام جامعہ نظامیہ بغداد نے چوتھی، پانچویں/ دسویں، گیارہویں صدیوں میں انجام دیا۔ اس نہادی کارنامے کے بانی سلجوتی سلاطین کے مردِ بزرگ وزیراعظم نظام الملک طوسی تھے۔ وہ صرف ایک جامعہ نظامیہ بغداد ہی کے بانی، منتظم اور والی نہ تھے بلکہ مدارس و جامعاتِ نظامیہ کے ایک طلائی سلسلے کے مؤسس اور بانی بھی تھے۔ ان کی علمی و تعلیمی فکروں نے علوم و فنون کے فروغ اور ان کے ذریعے شخصیات کی تعلیم و تربیت کا ایک نظام العلم قائم کیا۔ اس علمی نظام سے اُس وقت کے اہم ترین علما و فقہا اور مشائخ و رجال کو وابستہ کیا اور تعلیم و تدریس کا ایک متوازی و کامل نصاب بنایا، اور اساتذہ و مؤذبین کی ایک نسل تیار کی۔ اسی جامع نظام علمی سے امام غزالیؒ جیسی عبقریات نے جنم لیا جنہوں نے تعلیم و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف، تربیت اور شخصیات سازی کے ادارے بنائے اور بعد میں آنے والی نسلوں کو تدریسی و تربیتی جامعات قائم کرنے اور زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ان کو ہم آہنگ کرنے کا طریقہ و منہاج سکھا گئے۔
ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے اسلامی تعلیم و تربیت کے ان ہی تمام اداروں کی تاریخِ ارتقا اپنے مقالے میں پیش کی ہے۔ جامعہ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار صرف سہ صد سالہ تحقیقی جائزہ ہی نہیں، وہ عہدِ نبویؐ سے تعلیمی اور ادارتی تشکیلات کا بھی ایک مرقع ہے۔ وہ عہدِ نبویؐ سے خلافتِ راشدہ اور خلافتِ امویہ و خلافتِ عباسیہ کے تعلیمی اداروں سے بحث کرتے ہوئے اس کا سلسلہ جامعہ نظامیہ بغداد سے جوڑ دیتا ہے۔ اس مختصر تاریخی جائزے سے اسلامی تعلیمی و تدریسی ارتقا کی ایک روزافزوں ترقی نظر آتی ہے۔
جامعہ نظامیہ بغداد ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کی تحقیق و جستجو کا مرکزی محور ہے۔ لہٰذا وہ اس پر اپنی توجہ مرتکز کرتے ہیں اور غالباً سب سے پہلے اردو زبان کو اس عظیم اسلامی میراث سے مالا مال کرتے ہیں۔ جامعہ نظامیہ بغداد کے بانی نظام الملک طوسی کے حوالے سے وہ سلجوتی تاریخ کا ایک سیاسی و سماجی باب بھی کھولتے ہیں اور شخصیاتِ علمی و عبقریاتِ فنی کے خاکے بھی سامنے لاتے ہیں۔ جامعہ نظامیہ بغداد کے اساتذۂ کرام، طلبائے عزیز اور فارغین کا تذکرہ تحقیق و تدقیقِ علمی کا ایک دلنشین باب تو ہے ہی، وہ اس پورے دور کی علمی و فنی تاریخ بھی مرتب کرتا اور قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔
جامعہ نظامیہ کے ماتحت مدارس و جامعات کا عنوان دیا جائے یا اس عظیم نہادی تجربے کے ثمرات کو بتایا جائے یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ اس عظیم و نتیجہ خیز ادارے نے اپنے برگ و بار دور دور تک پھیلا دیئے تھے۔ ان تمام جامعاتِ نظامیہ نے اپنے علمی و فکری کردار کے ذریعے نہ صرف تعلیم و اشاعتِ علوم و فنون کا کام انجام دیا بلکہ ان کے ذریعے شخصیت سازی، آدم گری اور بندہ پروری کی عظیم تر خدمات انجام دیں۔ یہ اسلامی میراث کی ایک قیمتی دستاویز ہے۔
مصنفِ عزیز گرامیِ قدر ہم سب کی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی کئی برسوں کی محنت کے ذریعے اپنی علمی پیاس بجھائی تو بجھائی، اسلامیانِ عالم اور خاص کر اردو دنیا کے طالبینِ علم و فن کو ان کی گمشدہ نہ سہی، فراموش کردہ متاع واپس لوٹا دی۔ امید ہے کہ صاحبانِ دل اور حاملینِ ذوق ان کی کتاب مستطاب سے خاطر خواہ استفادہ کریں گے اور اپنی شناخت کو تابندہ تر کریں گے‘‘۔
زیر نظر کتاب ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس پر ان کو ڈگری عطا کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:۔
’’بلاشبہ مسلمانوں کی علمی و تہذیبی تاریخ میں مدارسِ اسلامیہ کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ یہ ادارے اپنے دور میں دوسرے معاشروں کو متاثر کرنے کا ذریعہ بھی رہے ہیں۔ ان مدارس کی نسبت ’’اصحابِ صفہ‘‘ سے ہے، جو اسلام کا پہلا باقاعدہ مدرسہ تھا۔ اصحابِ صفہ بارگاہِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر رہتے تھے اور دین و دنیا کی علمی سرفرازیوں سے ہم کنار ہوا کرتے تھے۔ صفہ، وہ عظیم درس گاہ تھی جس کے معلم اعظم سید الانبیا والمرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تھے اور متعلّمین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین نے ایک عمومی اور خودکار تعلیمی تحریک جاری فرمادی تھی جو مسجد نبویؐ سے شروع ہوئی اور جلد ہی تین براعظموں میں پھیل گئی‘‘۔
یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’’مدارسِ اسلامیہ: آغاز و ارتقا‘‘۔ باب دوم فصل اول ’’بغداد کی تاریخ و سیاسی پس منظر‘‘، فصل دوم ’’مؤسس مدارسِ نظامیہ نظام الملک طوسی‘‘، باب سوم ’’مدرسۂ نظامیہ بغداد‘‘، باب چہارم ’’مدرسین نظامیہ بغداد‘‘۔ باب پنجم ’’طلبائے نظامیہ بغداد‘‘، باب ششم ’’مدرسہ ہائے نظامیہ (علاوہ بغداد)‘‘، باب ہفتم ’’مدارسِ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار‘‘، باب ہشتم ’’خلاصہ تحقیق و استخراج نتائج‘‘۔ تین ضمیمہ جات آخر میں لگائے گئے ہیں۔
کتاب خوب صورت سرورق سے مزین ہے، مجلّد ہے۔