نومولود بچوں کی بے چینی پر مائیں بار بار پیمپر کھول کر دیکھتی ہیں اور اس میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کی جانب ایک کم خرچ ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ پیش رفت ہوئی ہے۔
میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے انجینئروں نے ایک چھوٹا آرایف آئی ڈی سنسر بنایا ہے جو پیمپر گیلا ہونے پر والدہ یا دیگر افراد کو ایک پیغام بھیجتا ہے۔ اسے بنانا بہت آسان ہے جس میں ایک پیمپر کی قیمت دو سینٹ یا پاکستانی تین روپے کے برابر ہے۔ آرایف آئی ڈی سنسر کو کسی بھی ہائیڈروجل والے ڈائپر میں لگایا جاسکتا ہے، کیونکہ ہائیڈروجل ڈائپر میں عام پائے جاتے ہیں۔ اسے لگانے سے پیمپر کی ساخت اور وزن پر کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ جیسے ہی بول و براز کی صورت میں ڈائپر گیلا ہوتا ہے، آر ایف آئی ڈی سنسر ایک میٹر کے دائرے میں اس کی خبر دیتا ہے جسے فون یا ٹیبلٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ سنسر کے لیے علیحدہ بیٹری لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، اور یہ گھر کے وائی فائی سے جڑے نیٹ ورک پر بھی اس کی اطلاع دے سکتا ہے۔ اگر والدین چاہیں تو کی چین میں ایک مخصوص ریڈر بھی لگاسکتے ہیں۔ مائیں جانتی ہیں کہ گیلے پیمپرز سے نہ صرف بچے روتے ہیں بلکہ رات کے کسی بھی پہر والدین کو جگاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں گیلے پیمپر طلاق کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔
اگرچہ سنسر والے ڈائپر بنالیے گئے ہیں لیکن ان کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ مقبول نہیں ہوسکے۔ پھر اس میں بیٹری اور بلیو ٹوتھ سنسر سے وہ بھاری ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ڈپریشن ؕکا خطرہ
ریسرچ جرنل ’’دی لینسٹ سائیکاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی ماہرین نے ایک تفصیلی مطالعے کے بعد دریافت کیا ہے کہ جو بچے نوبلوغت کی عمر میں زیادہ وقت بیٹھے رہنے میں گزار دیتے ہیں، جب وہ بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو اُن کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا سب سے زیادہ خطرہ، یعنی 60 فیصد، اُن بچوں میں دیکھا گیا جو سب سے زیادہ سست تھے اور روزانہ 10 گھنٹے تک بیٹھے رہنے کے عادی تھے۔ البتہ یہ بچے حرکت سے معذور نہیں بلکہ حد سے زیادہ آرام پسند ہیں اور کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی میں حصہ لینے سے جی چراتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مطالعے کے نتائج اُن والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہیں جو اپنے بچوں کو ہر وقت آرام دینا چاہتے ہیں، حالانکہ نوبلوغت کی عمر (12 سے 17 سال) بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اپنے بچوں کو آرام پسندی کی ترغیب دینے والے والدین صرف اُن کی جسمانی صحت کے ساتھ ہی نہیں کھیل رہے بلکہ اس مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ وہ اُن کی ذہنی صحت بھی تباہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔
کورونا وائرس شناخت کرنے والی اسمارٹ فون لیبارٹری تیار
ماہرین نے ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ بنائی جو ایک کارڈ پر سماسکتی ہے، اور یہ کارڈ فوری طور پر کورونا وائرس، ملیریا اور دیگر امراض کے جراثیم اور وائرس کی پہچان کرسکتاہے۔ اس کارڈ کو کسی بھی اسمارٹ فون سے جوڑ کر لیبارٹری کا نتیجہ ڈسپلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ وائرس کی شناخت کے لیے ایک مرتبہ استعمال کے قابل پلاسٹک کا ٹکڑا مریض کو منہ میں رکھنا ہوتا ہے جس پر لعاب جمع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی جانچ کے لیے ایک خاص ڈبے میں رکھا جاتا ہے اور یہ نظام فوری طور پر وائرس کی شناخت کرکے اس کی خبر اسمارٹ فون کو دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ ملیریا، کورونا وائرس، ایچ آئی وی، لائم کے مرض اور دیگر کئی امراض کی شناخت کرسکتا ہے۔ لیکن ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کا بنایا ہوا آلہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ جیسے امراض کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ ایپ کے ذریعے آپ کے ڈاکٹر کو بھی روانہ کیا جاسکتا ہے۔ کارڈ پر بیماریاں شناخت کرنے والی اس تجربہ گاہ میں لعاب چپک جاتا ہے تو وہ دو باریک چینل میں جاتا ہے، اور جہاں منجمد اینٹی باڈیز اور روشنی خارج کرنے والا منجمد میٹریل شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تھوک کے دونوں نمونے دوبارہ جمع کرکے تین سنسر تک پہنچتے ہیں۔