جرمن نومسلم سفارت کار، ڈاکٹر مراد ہوفمین

اشتیاق احمد ظلی
مشہور اسلامی اسکالر اور مصنف ڈاکٹر مراد ہوفمین کا 13 جنوری 2020ء کو بون، جرمنی میں انتقال ہوگیا۔ وہ جرمنی کے ایک ممتاز سفارت کار تھے۔ انہوں نے بڑے امتیاز سے اپنی مفوضہ خدمات انجام دیں اور اپنے وطن کی شہرت اور نیک نامی کے لیے کام کیا۔ ان کا نام ولفریڈ ہوفمین (Willfried Hofmann) تھا۔ انہوں نے اپنا اسلامی نام مراد رکھا۔ وہ اعلیٰ درجے کے مصنف اور خطیب تھے، اور انہوں نے اپنی اس خداداد صلاحیت کو بھرپور طور پر اسلام کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔ مغربی دنیا میں انہوں نے اسلام کے دفاع اور تعارف کی ذمہ داری کو بہت اچھی طرح ادا کیا۔ خاص طور سے نائن الیون کے حادثے کے بعد اُن کی خدمات کی اہمیت اور دائرۂ کار دونوں میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ اس پس منظر میں اسلاموفوبیا سے بری طرح متاثر مغربی دنیا میں انہوں نے بڑی سمجھداری اور پامردی سے اسلام کا تعارف بھی کرایا اور اس کے خلاف کیے جانے والے اعتراضات کا مؤثر طور پر جواب بھی دیا۔ اس خدمت کے لیے مکمل طور پر یکسو ہوجانے کے مقصد سے انہوں نے قبل از وقت سروس سے ریٹائرمنٹ لی اور پھر اسی کام کے ہورہے۔ اپنی کتابوں اور مضامین سے انہوں نے اسلام کی ابدی اور لازوال تعلیمات سے مغربی معاشرے کو صرف روشناس ہی نہیں کیا، بلکہ اسلام کو انہوں نے مستقبل کے لیے تنہا متبادل کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے پوری قوت اور صراحت سے یہ بات کہی کہ انسانیت کو درپیش مسائل کا حل صرف اسلامی تعلیمات میں موجود ہے، اور وہ مختلف نظریہ ہائے حیات کی طرح ایک اور متبادل نہیں ہے بلکہ وہ تنہا متبادل ہے۔
ولفریڈ ہوفمین 6 جولائی 1931ء کو جرمنی کے شہر Aschaffenburg میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک عیسائی کیتھولک گھرانے سے تھا۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1954ء میں میونخ یونیورسٹی نے انہیں قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ انہوں نے نیویارک اور ہارورڈ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ امریکہ میں قیام کے دوران 1951ء میں وہ کار کے ایک حادثے میں بری طرح زخمی ہوگئے تھے۔ صحت یاب ہونے کے بعد ان سے ڈاکٹر نے کہا کہ اس طرح کے حادثوں میں عام طور پر لوگ بچ نہیں پاتے، شاید خدا نے آپ کو کسی خاص کام کے لیے بچایا ہے۔ مدتوں بعد جب وہ نعمتِ اسلام سے مشرف ہوئے اور مغربی دنیا میں اُن کو اللہ کے دین کی خدمت کا موقع ملا تب انہیں اندازہ ہوا کہ اُن کو اسی کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا تھا۔
انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن اس میدان میں انہیں اپنے دل و دماغ کی تسکین کا سامان نہیں ملا۔ جنگِ عظیم دوم کو ابھی ختم ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ اس جنگ کے جو اثراتِ بد جرمنی پر پڑے تھے ان کے آثار ابھی ہر طرف موجود تھے۔ اس کے نتیجے میں اقوام عالم کے درمیان جرمنی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ہوفمین نے سفارت کاری کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اقوامِ عالم کے درمیان اپنے عزیز وطن کے وقار کو بحال کرنے کے لیے کام کرسکیں۔
انہوں نے پہلے ناٹو کے تحت نیوکلیئر ڈیفنس کے ماہر اور انفارمیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد وہ 1961ء سے باقاعدہ سفارت کار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1987ء میں ان کو الجیریا میں جرمنی کا سفیر مقرر کیا گیا۔ یہاں انہوں نے قریب چار سال تک بحیثیت سفیر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں انہیں مراکش میں سفیر مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے 1994ء تک کام کیا۔ اگلے سال 63 سال کی عمر میں انہوںنے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنی تمام تر توانائیاں اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیں۔ ملازمت کے دوران ہی انہوں نے 1980ء میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ چنانچہ ان دونوں مسلمان ملکوں میں انہوں نے بحیثیت مسلمان سفارت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
جب اُن سے قبولِ اسلام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بہت دلچسپ جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کی محبت میں گرفتار ہوجانے والے کے لیے یہ بتانا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس کا سبب کیا ہے۔ دوسری جگہوں پر انہوں نے اپنے قبولِ اسلام کے لیے بعض اسباب کا ذکر کیا ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ الجیریا گئے تو اُس وقت وہاں آزادی کی جدوجہد اپنے شباب پر تھی۔ وہاں انہوں نے الجیریا کے باشندوں کے خلاف فرانس کے ظلم و جبر کے بڑے تکلیف دہ مناظر دیکھے۔ قتل اور انتہائی درجے کی اذیت رسانی روزمرہ کی بات تھی۔ اس ظلم و جبر کو الجیریا کے باشندے جس صبر و ضبط سے برداشت کرتے تھے وہ ان کے لیے انتہائی حیرت انگیز تجربہ تھا۔ جب انہوں نے اس غیر معمولی قوتِ برداشت کے پیچھے کارفرما اسباب و عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا سرچشمہ دراصل ان کا مذہب تھا۔ فطری طور پر انہوں نے اس مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ان کو قرآن مجید تک لے گئی۔ اس کے نتیجے میں اُن کا اس کتابِ حکیم سے ایسا گہرا رشتہ استوار ہوا جو زندگی بھر قائم رہا، اور دراصل یہی اُن کے قبولِ اسلام کا ذریعہ بنا۔ مسلمانوں کی اس غیر معمولی قوتِ برداشت کا راز اُن کو استعینوا بالصبر والصلوٰۃ کی قرآنی تعلیم میں نظر آیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دراصل اسی قرآنی تعلیم کا اثر تھا۔ انہوں نے قرآن کا ایک اور معجزہ دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ بھی قرآن کو آسانی سے حفظ کرلیتے ہیں جو عربی سے یکسر نابلد ہوتے ہیں۔ اُن کے لیے یہ قرآن کا کھلا ہوا معجزہ تھا، کیوں کہ کسی ایسی زبان کی عبارت یاد کرنا ممکن نہیں جس سے آدمی واقف نہ ہو۔ قرآن سے یہ تعلق اور اس پر غوروفکر بالآخر اُن کے قبولِ اسلام پر منتج ہوا۔
ڈاکٹر ہوفمین بہت اعلیٰ درجے کے ذوقِ جمالیات کے حامل تھے۔ اسلامی فنِ تعمیر اور خطاطی میں ان کو جمالیاتی پہلو بہت ترقی یافتہ شکل میں نظر آیا۔ خاص طور سے اسپین کے سفر میں وہاں کی مسجدوں اور محلات میں اُن کو اپنے ذوقِ جمالیات کی تسکین کا بہت کچھ سامان ملا۔ یہ چیز بھی کسی حد تک اسلام سے قربت کا ایک ذریعہ بنی۔
قرآن مجید کی تعلیمات اور مطالب سے جیسے جیسے اُن کی واقفیت بڑھتی گئی ویسے ویسے اُن کو مسیحی عقائد کے تضادات زیادہ واضح طور پر محسوس ہونے لگے، اور پیدائشی گناہ اور کفارہ کے تصورات ذہنی الجھن کا باعث بننے گلے۔ یہ مسئلہ ناقابلِ فہم نظر آنے لگا کہ اس گناہ سے نجات کے لیے کفارے کے طور پر خدا کے بیٹے کو مصلوب ہونا پڑا۔ جب ان کی نظر سورۃ النجم کی آیت 38 : ’’لاتزروازرۃ وازراخری‘‘ پر پڑی تو ان کے سامنے پوری صورتِ حال واضح ہوتی چلی گئی۔
اس کے علاوہ مشہور اسلامی اسکالر محمد اسد اور دوسرے مسلمانوں سے تعلقات بھی کسی حد تک اس سلسلے میں معاون ثابت ہوئے، اور وہ ذہنی طور پر اسلام سے قریب ہوتے چلے گئے۔ بالآخر اپنے طویل غوروفکر کے نتائج کو انہوں نے سپردِ قلم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تحریر جو 12 صفحات پر مشتمل تھی انہوں نے خاص طور سے اپنے بیٹے کی اٹھارویں تاریخِ پیدائش کے موقع پر اسی کو دینے کے لیے لکھی تھی۔ اس تحریر میں انہوں نے جو باتیں لکھی تھیں ان کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ فلسفہ کی کسوٹی پر پوری اترتی تھیں اور ان میں شبہ کی گنجائش نہیں تھی۔ اس مسودے کو انہوں نے کولون (Cologne) کی مسجد کے امام محمد احمد رسول کو اس درخواست کے ساتھ پیش کیا کہ وہ اسے ایک نظر دیکھ لیں۔ اسے دیکھنے کے بعد امام صاحب نے کہا کہ ان باتوں کا لکھنے والا اگر ان باتوں پر یقین بھی رکھتا ہے تو وہ مسلمان ہے۔ چند دن بعد ہی ڈاکٹر ہوفمین نے اسلام قبول کرلیا۔ گواہ کے طور پر وہ اپنے ساتھ (لیوپولڈ) محمد اسد کو لائے تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد انہوں نے وزارتِ خارجہ میں پندرہ سال مزید ملازمت کی۔ سفیر کی حیثیت سے ان کی دونوں تقرریاں اس کے بعد ہی ہوئیں۔ انہیں نہ صرف یہ کہ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں کسی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا۔ چنانچہ اسلام قبول کرنے کے ڈیڑھ سال بعد ہی جرمن صدر Dr.Carl Castens نے انہیں آرڈر آف دی میرٹ آف دی فیڈرل پبلک آف جرمنی کے باوقار ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ حکومت نے اُن کی کتاب ’’ڈائری آف اے جرمن مسلم‘‘ کو مسلم ممالک میں واقع اپنے تمام سفارت خانوں کو خصوصی مطالعے کے لیے ارسال کیا۔
1995ء میں انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام کی خدمت کے لیے پوری طرح فارغ ہوجائیں۔ گزشتہ ربع صدی کا پورا عرصہ انہوں نے اپنے اسی مشن کی تکمیل میں گزارا۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے مصنف اور خطیب تھے، اور ان کی یہ صلاحیتیں خدمتِ اسلام کے لیے وقف تھیں۔ مغرب میں اسلام کے دفاع اور تعارف کا کام انہوں نے بہت اچھی طرح انجام دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں، معیاری مجلات میں بے شمار مضامین لکھے، تقریریں کیں اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ غرض ہر وہ کام کیا جس کی اس مقصد کے حصول کے لیے ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یورپ اور دنیا کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُن غلط فہمیوں کے ازالے کی طرف خصوصی توجہ دی جو مغرب میں اسلام کے سلسلے میں پائی جاتی تھیں، اور جن میں نائن الیون کے حادثے کے بعد بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ مغربی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے وہ ان باتوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے جو مغربی ذہن کے لیے الجھن کا باعث بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اس میدان میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔
انہوں نے جو کتابیں لکھیں ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: فیوچر آف اسلام ان دی ویسٹ اینڈ ایسٹ، اسلام دی آلٹرنیٹو ریلجن آن دی رائز: اسلام ان دی تھرڈ ملینیم، جرمنی ٹو مکہ، اسلام اینڈ قرآن، اسلام ان دی ویسٹ، اسلام 2000ء، فلاسوفیکل پاتھ وے آف اسلام، جرمنی ٹو اسلام: ڈائری آف اے جرمن ڈپلومیٹ۔ اس کے علاوہ معیاری مجلات میں انہوں نے اپنی دلچسپی کے موضوعات پر بہت سے مقالات لکھے۔ جن مجلات میں ان کے مقالات اور مضامین چھپتے رہے ان میں جرنل آف اسلامک اسٹڈیز، اسلام آباد، مسلم ورلڈ بک ریویو، لیسٹر انگلینڈ، دی امریکن جرنل آف اسلامک سوشل سائنسز، ورجینیا، انکائونٹر، لیسٹر اور الاسلام، میونخ شامل ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ پوپ بینی ڈکٹ XVI نے 12 ستمبر 2006ء کو یونیورسٹی آف ریجنس برگ (University of Regensburg) میں ایک لیکچر کے دوران حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ایک بازنطینی بادشاہ کا ایک نہایت اہانت آمیز تبصرہ نقل کیا تھا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں نے اس پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں 13 اکتوبر 2007ء کو مسلمان علماء نے اہم عیسائی شخصیات کے نام ایک کھلا خط لکھا۔ یہ خط دراصل سورہ آل عمران کی آیت 64 میں اہلِ کتاب کو کلمہ سواء کی بنیاد پر جو دعوت دی گئی اُس پر مشتمل تھا۔ اس کا عنوان تھا: A Common Word Between Us and You. ، ڈاکٹر ہوفمین اُن مسلم اسکالرز میں شامل تھے جنہوں نے اس پر دستخط کیے تھے۔
ڈاکٹر ہوفمین جرمن مسلم کونسل کے رکن اور مشیر تھے۔ ان کی شادی ایک ترک خاتون سے ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے ان کا قیام جرمنی اور ترکی دونوں جگہ رہتا تھا۔ ان کے انتقال سے یورپ کے اسلامی حلقوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فسیح جناتک
(بہ شکریہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، فروری 2020ء)
www.shibliacademy.org