غیر قانونی تعمیرات، تجاوزات، سرکاری زمینوں پر قبضے کا خاتمہ کیونکر ممکن ہوگا؟ ۔
۔6 اور7 فروری کو کراچی میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سید سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سرکاری زمینوں پر قبضوں، غیر قانونی تعمیرات، تجاوزات کے خاتمے اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق مقدمات کی دو روزہ سماعت کے بعد دوٹوک الفاظ میں اپنے پرانے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کرانے کے لیے تمام ناجائز، غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔ واضح رہے قبل ازیں جسٹس گلزار احمد نے سینئر ترین جج کی حیثیت میں بھی کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران یہی حکم دیا تھا۔ انہوں نے سابقہ حکم پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی رپورٹ سیکرٹری ریلوے، سندھ گورنمنٹ اور میئر کراچی سے طلب کی، اور متعلقہ اداروں کے ذمہ داروں کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس دینا رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار احمد چودھری کی سربراہی میں ایک بڑا بینچ تفصیلی فیصلہ دس سال قبل سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی پٹیشن پر دے چکا ہے، جس میں تمام ناجائز اور غیر قانونی تعمیرات ختم کرکے تمام رفاہی پلاٹوں اور پارکوں کو اصل حالت میں بحال کرنے اور تمام سرکاری زمینوں کو انہی مقاصد کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ دے چکا ہے جس کے لیے یہ مختص کی گئی تھیں، جس پر وقتاً فوقتاً سپریم کورٹ عمل درآمد کا جائزہ لیتی رہتی ہے۔ مگر اس سب کے باوجود نہ تو سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کے دیے جانے والے فیصلے پر مکمل طور پر عمل ہوا ہے، اور نہ ہی موجودہ چیف جسٹس کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق بدنیت، بدعنوان اور نااہل انتظامیہ عمل درآمد کررہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضوں اور بااثر طاقتور افراد کی سرپرستی میں تجاوزات کرانے میں وہ ادارے پیش پیش رہے ہیں جن کی ذمہ داری ان غیر قانونی کاموں کو روکنا، سرکاری زمینوں پر قبضے نہ ہونے دینا اور تجاوزات کو روکنا تھا۔ اس میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا بنیادی کردار ہے۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ختم کرکے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا قیام طاقت ور، بااثر حکمرانوں کی پشت پناہی میں اسی مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا۔ اسی طرح سرکلر ریلوے کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود وزارتِ ریلوے ہے، جب کہ سندھ حکومت کے پاس اس کی تیکنیکی مہارت ہے اور نہ ہی صلاحیت، اور نہ وہ دل ہے جو وفاق کو اس پر عمل درآمد کے لیے آمادہ ہونے پر مجبور کرسکے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے جو کراچی کے شہریوں کو درپیش سفری سہولت کی عدم دستیابی کے بحران کا مداوا کرسکے۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1950ء کے عشرے میں بنا تھا۔ 1964ء میں یہ منصوبہ چار کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ اس کا افتتاح اُس وقت کے مغربی پاکستان کے وزیر ریلوے اور بعدازاں وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو (مرحوم) نے کیا تھا۔ کراچی سرکلر ریلوے لانڈھی اسٹیشن سے وزیر مینشن تک شہریوں کے لیے سب سے سستی اور محفوظ سفری سہولت ہوتی تھی۔ شہریوں کو یہ سہولت 1986ء تک یعنی 22 سال مکمل طور پر حاصل رہی۔ 1986ء کے بعد اس میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی، جسے 1999ء میں ’’قرآن پاک کے چالیس سپارے‘‘ بتانے والے وزیر ریلوے جاوید اشرف قاضی نے مکمل طور پر بند کردیا، جسے اب بحال کرنے کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دوبارہ اعادہ کیا ہے۔ اس کی بحالی کا اگر کوئی امکان ہے تو اس کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ اس پر عمل درآمد کی نگرانی کم از کم اسی طرح کرے جس طرح پاناما کیس پر عمل درآمد کے لیے کی گئی تھی۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کے تازہ حکم کے بعد بعض ذرائع سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ وزارتِ ریلوے اس منصوبے سے کلی طور پر لاتعلق ہونے کا فیصلہ کرچکی ہے، اس کے لیے وہ کے یو ٹی سی (کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن) کا دفتر جو کراچی کینٹ اسٹیشن کے عقب والی سڑک پر ریلوے کے ایک بنگلہ میں قائم ہے، بند کرکے اس کا سارا ریکارڈ سندھ حکومت کے حوالے کرنے جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلوے سیکرٹری اس کی وضاحت کریں۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ اس ادارے نے کرلیا ہے جسے سپریم کورٹ نے اس پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے منصوبے پر فائز رہنے والے سابقہ ایم ڈیز کو طلب کرکے وہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے جو انہوں نے اس کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں تیار کی تھی، اور جس کی بنیاد پر وفاق نے اسے بحال کرنے کا فیصلہ کرکے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کاپوریشن کا ادارہ قائم کیا تھا۔ (واضح رہے کہ 1969ء سے 1986ء تک کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ لانڈھی اسٹیشن سے وزیر مینشن تک دن میں 104 لوکل ٹرینیں چلتی تھیں۔ یہ سروس کراچی یونیورسٹی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، گلشن اقبال کے باسیوں کو میسر تھی۔ ہر اسٹیشن کے احاطے میں پارکنگ کے لیے ایک سے دو ایکڑ کا رقبہ مختص تھا، جس پر سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے لینڈ مافیا ناجائز تعمیرات کرچکا ہے۔) اب جس سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ، جدید ترین سہولیات سے مزین ائر کنڈیشن اور تیز رفتار ہوگی۔ اور اس کے روٹس کراچی کے تمام علاقوں تک بڑھائے گئے ہیں۔ یہ سرکلر ریلوے پچاس کلومیٹر طویل روڈ پر چلے گی جس میں کراچی ائرپورٹ پر بھی ریلوے اسٹیشن ہوگا، اور یہ ہر چھے منٹ بعد ہر اسٹیشن پر مسافروں کو میسر ہوگی۔ یہ پچاس کلومیٹر کا طویل سفر ایک گھنٹے میں طے کرے گی۔ اس کا کراچی سٹی اسٹیشن سے پہلا اسٹاپ لیاقت آباد کا ہوگا جہاں مسافر 20 منٹ میں پہنچ جائے گا۔ مجوزہ کرایہ 24 روپے تجویز کیا گیا تھا۔ اس کا منصوبہ 1991ء میں میاں نوازشریف کی پہلی حکومت کے دور میں کراچی اور لاہور کے لیے سامنے آیا تھا۔ جاپان حکومت نے اس کے لیے نہایت معمولی شرح سود یعنی 0.1 فیصد پر ادائیگی چالیس سالہ مدت میں کرنے کی پیشکش کی تھی۔
تاہم جاپان حکومت نے اس منصوبے پر عملی قدم 2004-05ء میں ’’جائیکا‘‘ کے ذریعے اٹھایا۔ اس کے تحت کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا ادارہ وجود میں آیا تھا، جو وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی شراکت میں قائم ہوا۔ جس میں وفاق کا 60 فیصد، سندھ حکومت کا 25 فیصد اور کراچی بلدیہ عظمیٰ کا 15 فیصد شیئر طے پایا تھا۔ اس منصوبے پر جاپان حکومت کا ادارہ ’’جائیکا‘‘ سروے بھی مکمل کرچکا ہے، اور کاغذی کارروائی کی دستاویز اور تیکنیکی امور پر بھی کام مکمل کرچکا ہے، صرف وفاق کی طرف سے گارنٹی کی کارروائی باقی تھی کہ 2014ء کے جناب عمران خان کے دھرنے کے دوران سابق صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو لے کر چین چلے گئے، جہاں سے واپسی پر سید قائم علی شاہ نے اعلان کیا کہ اب سرکلر ریلوے جاپان کے تعاون سے نہیں چین کے تعاون سے بنائیں گے۔ اُس وقت کے وزیر ریلوے سعد رفیق نے بھی اسی میں عافیت جانی کہ اسے سندھ حکومت کی جھولی میں ڈال دیں۔ رہی یہ بات کہ ریلوے کی زمینوں پر موجود تجاوزات پر آبادی کی آبادکاری کا کیا بنے گا؟ اس کے لیے جاپان کا ادارہ جائیکا خود سروے کرچکا ہے۔ وہاں آباد تمام لوگوں کا تفصیلی ڈیٹا جمع کرکے متاثرین کی تصاویر پر مبنی ڈیٹا تیار کرچکا ہے، جس کا ریکارڈ کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے پاس بھی محفوظ ہے۔ ان کی آبادکاری کے لیے وزارتِ ریلوے، سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان اتفاقِ رائے کے بعد شاہ لطیف ٹائون سے متصل 283 ایکڑ وہ زمین جو ریلوے اور سندھ حکومت کے درمیان متنازع تھی اور جس کے حصول کے لیے ریلوے نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن کی ہوئی تھی، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت یہ 283 ایکڑ زمین ریلوے کی زمینوں پر قبضہ ختم کرنے والے متاثرین کی آباد کاری کے لیے استعمال کی جائے گی، اور کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور جائیکا متاثرین کو مکانات کی تعمیر کے لیے مالی اور تیکنیکی تعاون بھی فراہم کریں گے۔ بھارت میں جائیکا نے دہلی میٹرو ٹرین کا منصوبہ مکمل کیا تھا جو کامیابی سے چل رہا ہے۔ دہلی میٹرو نے جائیکا کو وقت سے پہلے قرض واپس کرکے دوسرے منصوبے کے لیے جاپان سے آسان شرح سود پر قرض لیا، البتہ معلوم نہیں کہ جائیکا اب بھی کراچی سرکلر ریلوے کو سابقہ شرائط پر بنانے کو تیار ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کی خواہش پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے چین کی منظوری سے اسے سی پیک میں شامل کرالیا ہے۔ چین اس منصوبے کے لیے اتنا سستا قرض تو نہیں دے گا تاہم 4 فیصد شرح سود بھی غنیمت ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ دنیا بھر میں عوام کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے یا تو حکومت سبسڈی دیتی ہے یا وہ ادارہ اپنے زیر انتظام موجود زمین کو کام میں لاکر وسائل خود پیدا کرتا ہے اور عوام کو کم کرائے پر سفری سہولیات فراہم کرتا ہے۔ دہلی میٹرو کرائے کی مد میں کُل اخراجات کا 48 فیصد حاصل کرتا ہے اور اپنے زیر انتظام زمینوں کو کمرشل بنیادوں پر استعمال میں لاکر 52 فیصد پیدا کرتا ہے۔ دہلی میٹرو کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ اشتہارات ہیں جو کبھی پاکستان ریلوے کی آمدنی کا بھی ذریعہ تھے۔ دنیا بھر کی ریلوے کارگو کی مد میں منافع کماتی ہے اور مسافر ٹرینوں کا خسارہ اس سے پورا کرتی ہے۔ پاکستان ریلوے کے پاس جب تک سرکاری کارگو رہا، پاکستان ریلوے ایک منافع بخش ادارہ رہا۔ 1973ء تک ریلوے کا بجٹ خسارے سے پاک رہا ہے۔ 1974ء میں حکومت نے کراچی سے پشاور کے درمیان جانے والے سرکاری کارگو کو، روڈ مافیا کے دبائو میں آکر پرائیویٹ ٹرک کے ذریعے جانے کی اجازت دے دی تھی، تب سے ریلوے خسارے کا شکار ہے۔
سرکلر ریلوے کی تکمیل کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کرنا پڑے گی جو اس کی مہارت بھی رکھتے ہوں اور اس کے قابلِ عمل ہونے کے بھی قائل ہوں۔ سرکلر ریلوے کی بحالی ضروری ہے چاہے وہ جاپان کے تعاون سے ہو، یا چین کے تعاون سے۔ آئندہ کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضہ نہ ہونے دینے کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ ضمنی حکم ہر ادارے کے پیش نظر رہے کہ ’’سرکاری زمینوں پر قبضے اور غیر قانونی تعمیرات کسی صورت منظور نہیں ہوگی‘‘۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی کی تباہی کا ذمہ دار
کراچی میں ٹائون بلڈنگ کنٹرول کا نظام 1933ء سے قائم تھا، کراچی دارالحکومت بنا تو اُس وقت کی حکومت نے ’’کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ اتھارٹی‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا جو 1957ء تک قائم رہا۔ 1957ء میں اُس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت نے اس کی جگہ ’’کے ڈی اے‘‘ (کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے نام سے نیا ادارہ تشکیل دیا اور اسے امپروومنٹ ٹرسٹ اتھارٹی کے زیر انتظام شروع ترقیاتی منصوبے بھی منتقل کردیے تھے۔ ’’کے ڈی اے‘‘ کے زیرانتظام ترقیاتی منصوبوں کی تعمیرات کی منظوری کے لیے کے ڈی اے کے ذیلی ادارے کے طور پر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا تھا۔
کراچی میں 1958ء سے قبل صدر مملکت کے حکم پر ایک ڈپٹی کمشنر نے پبلک پارک کسی غیر ملکی سفارت خانے کو الاٹ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ’’میں تو سرکاری مشینری کا ایک معمولی سا پرزہ ہوں، اس غیر قانونی الاٹمنٹ کا اختیار تو صدر مملکت اور وزیراعظم کے پاس بھی نہیں ہے۔‘‘
مگر کراچی کا حلیہ جس طرح 2008ء میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم ہونے کے بعد بگاڑا گیا اس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ سرکاری زمینوں پر قبضے، غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات سرکاری مشینری اور طاقت ور بااثر افراد کی سرپرستی کے بغیر ناممکن ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا تو قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا کہ کس طرح طاقت ور بااثر حکمرانوں کی زیرسرپرستی بلڈرز کو نوازا جائے۔ بدقسمتی سے ایک دو مستثنیات کے سوا گزشتہ چالیس سال کے دوران بلدیاتی اداروںکے سربراہ بھی سندھ حکومت کی طرح غیر قانونی اور ناجائز تعمیرات کرنے والے بلڈرز کے شریک ِکار یا اُن کے پشتی بان رہے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ختم کرکے پرانے نظام کو اسی طرح بحال کیا جائے جس میں کوئی بلدیاتی سربراہ یا وزیر بلدیات، یا وزیراعلیٰ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کسی کو سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے دے اور نہ ہی تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات۔
سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کا آغاز تو ساٹھ کے عشرے میں ہی ہوچکا تھا۔ اُس وقت کے کراچی ڈویژن کے کمشنر سید دربار علی شاہ کے دور میں وفاقی حکومت کے ملازمین کے لیے قائم کالونیوں جہانگیر کوارٹر، مارٹن کوارٹر، پاکستان کوارٹر، ٹی اینڈ ٹی کالونی، فیڈرل کیپٹل ایریا، لائنز ایریا میں موجود کھیل کے میدان، اسکول اور اسپتال کے لیے مختص جگہوں پر سرکاری مشینری کی ملی بھگت سے قبضے ہونے شروع ہوگئے تھے، اور اب تو وہاں سرکاری ملازمین کم رہائش پذیر ہیں اور غیر متعلق افراد نے یا تو سرکاری اہلکاروں کو پیسے دے کر قبضے لیے ہیں یا حکمراں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے دور میں اپنے اثر رسوخ سے اپنے لوگوں کو وہاں آباد کردیا ہے۔