مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے، سسکتے اور کراہتے عوام کی چیخیں وزیراعظم عمران خان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی ہیں اور انہوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے تسلی دی ہے کہ حکومتی ادارے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے اسباب کی جامع تحقیقات کا آغاز کرچکے ہیں، قوم اطمینان رکھے آٹے اور چینی کے بحران کے ذمے داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی اور ان کا زبردست محاسبہ کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے قوم کو یہ یقین بھی دلایا ہے کہ انہیں تنخواہ دار طبقے سمیت عوام کو درپیش مشکلات کا ادراک ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ان کی حکومت عوام کو بنیادی اشیائے ضروریہ اور غذائی اجناس کی کم قیمتوں میں فراہمی کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔ وزیراعظم کے اس اعلان کی روشنی میں منگل کو اُن کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عوام کو اشیائے خور و نوش کی رعایتی نرخوں پر فراہمی کے لیے 15 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کی منظوری دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس پیکیج کے تحت لوگوں کو یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے آٹا، چینی، گھی، دالیں اور چاول وغیرہ جیسی بنیادی اشیائے خوراک بازار کی نسبت سستے داموں مہیا کی جائیں گی۔
’’کچھ نہ کرنے سے ہے کچھ کرنا بہتر‘‘ کے مصداق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی جانب سے عوام کی مشکلات کے احساس اور ان کے خاتمے کے لیے اقدامات کی تحسین کی جانی چاہیے کہ ان کے نتیجے میں قوتِ خرید سے محروم ہوتا ہوا عام آدمی شاید کچھ سہولت محسوس کرسکے۔ تاہم حکومت کے اعلان کردہ پیکیج کا سرسری سا جائزہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ پیکیج ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، اور ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کی محدود تعداد تک معاشرے کے کتنے فیصد لوگوں کی رسائی ہوسکے گی؟ اور پھر ان اسٹورز کے سامنے سستی اشیاء کی خریداری کے لیے غریب لوگوں کو قطار اور انتظار کی جو صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں گی اور جس ذہنی و جسمانی اذیت سے گزرنا پڑے گا اس کے بعد کیا لوگ حکومت کے ان اقدامات کی تحسین کریں گے، یا الٹا حکمرانوں کے لیے بے ساختہ بددعائیں ان کے منہ سے نکلیں گی؟ یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے رعایتی نرخوں پر اشیاء کی فراہمی کے ضمن میں ماضی کا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ امدادی رقم کا ایک بڑا حصہ یوٹیلٹی اسٹورز اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام کی جیبوں میں چلا جاتا ہے، جب کہ ان اسٹورز کی سستی اشیاء چور دروازوں سے بازار میں فروخت کرکے ناجائز منافع کمانے کی شکایات بھی ماضی میں عام رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز جیسے چور دروازے کھولنے اور نمائشی اقدامات کے بجائے ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں منڈی، بازار اور عام دکانوں پر لوگوں کو معقول قیمتوں پر استعمال کی ضروری اشیاء آسانی سے اور باافراط دستیاب ہوسکیں۔ یوں بھی بھاری ٹیکس عائد کرکے ان کی جبراً وصولی کے ذریعے لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے کے بعد ان سے وصول شدہ رقم کا ایک معمولی حصہ انہیں سبسڈی کے نام پر لوٹاکر ان پر احسان جتانا اور اپنی غریب پروری کے ڈنکے بجانا کسی بھی طرح قابلِ ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس پر عوام بجا طور پر حکمرانوں سے یہ گزارش کرسکتے ہیں کہ ہم پہ یہ احساں جونہ کرتے تو یہ احساں ہوتا!
وزیراعظم نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات شروع کی جا چکی ہیں اور قوم اطمینان رکھے کہ مہنگائی کے ذمہ داروں کا بھرپور محاسبہ کیا جائے گا اور انہیں کڑی سزا دی جائے گی۔ اس سلسلے میں پہلا سوال تو یہی ہے کہ ماضی میں کبھی اس قسم کی تحقیقات نتیجہ خیز ثابت ہوسکی ہیں؟ زیادہ پرانی باتوں سے صرفِ نظر بھی کردیا جائے تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ خود وزیراعظم عمران خان کے دورِ اقتدار میں آج تک شاید ہی کوئی مثال پیش کی جا سکے کہ کسی بحران یا سانحے کی تحقیقات منظرعام پر آئی ہوں، اور کسی حقیقی ذمہ دار کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دیگر لوگوں کے لیے عبرت کا سامان کیا گیا ہو …؟
اس ضمن میں تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت اس بحران کے ذمہ دار وزیراعظم کے دائیں بائیں بیٹھے بعض لوگوں کو تصور کرتی ہے، کیونکہ چینی اور آٹے کی تیاری اور تقسیم کا نظام زیادہ تر انہی لوگوں کے کنٹرول میں ہے۔ مگر افسوس کہ وزیراعظم نے اپنی اعلان کردہ تحقیقات کے نتائج کا انتظار کیے بغیر ازخود ہی یہ فیصلہ بھی سنادیا ہے کہ لوگوں کی نظر میں مجرم، وزیراعظم کے ان ساتھیوں کا آٹے اور چینی کے بحران میں کوئی کردار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ تحقیقات کے تکمیل تک پہنچے بغیر وزیراعظم کسی شخص کے بے گناہ ہونے کا اعلان کس طرح کرسکتے ہیں؟ اور پھر یہ سوال بھی نہایت اہم ہے کہ وزیراعظم کے منصب پر موجود شخص کی جانب سے تحقیقات سے متعلق اس طرح کی رائے زنی کے بعد کیا آزادانہ، غیر جانب دارانہ، صاف، شفاف اور قابلِ اعتماد تحقیقات ممکن بھی ہوسکیں گی؟
صورتِ حال کا یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ایک جانب اگر وزیراعظم عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے عزائم کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے۔ جناب عمران خان قوم کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات دلانے کا وعدہ کرکے برسراقتدار آئے تھے، مگر ان کے اقتدار میں یہ شکنجہ مزید سخت ہوچکا ہے۔ جاری مذاکرات کے بارے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر منی بجٹ لانے یا دو سو ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے، اس کے علاوہ قومی اداروں کی نجکاری کو تیز تر کرنے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کو اپنا فراہم کردہ قرض مع سود وصول کرنے سے غرض ہے، سود خور مہاجن کی طرح اُسے اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ اُس کی عائد کردہ شرائط کے بعد مقروض زندہ بھی رہ پائے گا یا زندہ درگور ہونے پر مجبور ہوگا۔ اس لیے جناب وزیراعظم کو ان مذاکرات اور ان کے نتائج پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ ان کی معاشی ٹیم ایسی ناگوار شرائط قبول کرنے سے بھی احتراز اور احتیاط کرے جن کے باعث ملک کی رہی سہی خودمختاری بھی گروی رکھ دی جائے اور عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تر ہوجائے۔ (حامد ریاض ڈوگر)۔