حکومت وعدوں اور اعلانات کو عملی جامہ پہنائے
جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کا تباہ شدہ مکانات کے معاوضوں کی ادائیگی میں تاخیر اور کم ادائیگی کے خلاف ٹانک میں جاری دھرنا پندرہویں روز میں داخل ہوچکا ہے، جس میں سیاسی رہنمائوں کی شرکت نے نئی جان ڈالی دی ہے۔ احتجاجی دھرنے سے گزشتہ روز جماعت اسلامی کے صوبائی سیکریٹری جنرل عبدالواسع، جے یو آئی(ف) کے ایم پی اے محمود بیٹنی، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما فرحت اللہ بابر اور بعض دیگر قائدین نے خطاب کیا۔ واضح رہے کہ محسود قبائل کے ہزاروں متاثرین نے آپریشن راہِ نجات میں تباہ ہونے والے مکانات اور کاروباری مراکز کے معاوضوں کی عدم ادائیگی کے خلاف 27 جنوری کو ٹانک میں ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان کے دفتر کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، اور دفتر سے متصل ایف سی گرائونڈ میں احتجاجی کیمپ لگاکر دھرنا شروع کردیا تھا، جو تاحال جاری ہے۔ مظاہرین نے انتظامیہ کے خلاف کشمیر چوک تک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔گزشتہ روز دھرنا کمیٹی کے اراکین سے تحریک انصاف کے ایم این اے عالمگیر محسود نے رابطہ کرکے بتایا کہ وفاقی حکومت جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کو تیار ہے، جس پر صلاح مشورے کے لیے دھرنا کمیٹی کے اراکین نے دو دن کا وقت مانگ لیا، اور اس سلسلے میں 40 رکنی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ کمیٹی میں شامل ڈسڑکٹ بار جنوبی وزیرستان کے صدر شیرپائو ایڈووکیٹ نے بتایا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے رابطہ ہوا ہے، اب کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ سروے کے مسائل کے حل کے لیے صوبائی سطح پر یا وفاقی سطح پر مذاکرات کیے جائیں۔ شیرپائو ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ دھرنا اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری متاثرہ شخص کو ادائیگی نہیں کی جاتی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے صوبائی سیکریٹری جنرل عبدالواسع، جماعت اسلامی قبائل کے رہنما ڈاکٹر سمیع اللہ جان محسود، جے یو آئی(ف) کے ایم پی اے محمود بیٹنی اور بعض دیگر قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور دھرنے والوں کے مطالبات تسلیم کرے، محسود قبائل نے ملک و قوم کے لیے بے تحاشا قربانیاں دی ہیں، آپریشن کے دوران تباہ شدہ مکانات کی دوبارہ آبادکاری ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضربِ عضب اور راہِ نجات آپریشنوں کے دوران محسود قبائل کو بے گھر کیا گیا، مذکورہ آپریشنوں کے دوران قبائلی عوام نے عظیم قربانیاں دیں اور ملکی مفاد کی خاطر اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت کو ترجیح دی، اب حکومتِ وقت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تباہ ہونے والے گھروں کو تعمیر کے لیے محسود قبائل کو معاوضے کی ادائیگی یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ قبائل کو اُن کے گھروں کی تعمیر کے لیے طے شدہ معاوضہ کی فوری ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس میں مہنگائی کے تناسب سے خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جائے، نیز قبائلی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے۔
دوسری جانب پچھلے دنوں صوبائی اسمبلی کے سامنے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تاجر اور کاروباری افراد آپریشن ضربِ عضب کے دوران کاروباری املاک کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان اور اس ضمن میں حکومتی عدم توجہی کے خلاف احتجاجی دھرنا منعقد کرچکے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہر کسی کو معلوم ہے کہ شمالی وزیرستان میں میران شاہ اور میر علی کے بڑے بڑے بازار مکمل طور پر زمین بوس ہوچکے ہیں جن میں دکانوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ ان میں موجود اربوں روپے کا سامان بھی تباہ ہوچکا ہے۔ ان سانحات کے نتیجے میں قبائل کی ایک اچھی خاصی تعداد جو کل تک خوشحال زندگی گزار رہی تھی اب کوڑی کوڑی کی محتاج ہوگئی ہے اور ان کی کہیں سے بھی کوئی داد رسی اور شنوائی نہیں ہورہی ہے، جس سے مایوس ہوکر انہیں احتجاج کا کٹھن راستہ اپنانا پڑا ہے۔
یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ قبائل کو ان مسائل کا سامنا صرف شمالی اور جنوبی وزیرستان میں نہیں ہے، بلکہ احتجاج اور ناراضی کا یہ سلسلہ باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک جاری ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں باڑہ میں بھی مقامی قبائل اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ باڑہ ضلع خیبر کے مختلف سیاسی وسماجی رہنمائوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ باڑہ میں دہشت گردی کے دوران تباہ شدہ مکانات کا سروے خاندان کی بنیاد پر کیا جائے اور دہشت گردی کے واقعات کے دوران تباہ شدہ حجروں اور مساجد کے لیے بھی معاوضے کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر مقامی قبائل احتجاج اور عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار باڑہ میں تباہ شدہ گھروں کے سروے کے بارے میں پریس کلب میں منعقدہ سیمینار میں کیا گیا جس میں ڈیڈک چیئرمین ضلع خیبر شفیق آفریدی، معروف کاروان کے رہنما حاجی معروف آفریدی، باڑہ پریس کلب کے صدر خادم خان آفریدی، سماجی کارکن ثاقب آفریدی، جماعت اسلامی کے رہنما شاہجہان آفریدی، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ خالد آفریدی، پی پی پی کے رہنما ولایت خان آفریدی، انجمنِ تاجران باڑہ کے چیئرمین سید ایاز وزیر، جمعیت(ف) کے مقامی امیر مولانا شمس الدین آفریدی، پیر سید عبداللہ شاہ سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے اس موقع پر کہا کہ بدامنی کے دوران تحصیل باڑہ میں ہزاروں حویلی نما گھر تباہ وبرباد ہوئے، ایک ایک گھر میں کئی خاندان رہتے تھے، جب کہ ایس او پی کے مطابق صرف ایک خاندان کو معاوضہ دیا جاتا ہے جو کہ ہمیں منظور نہیں ہے۔ انہوں نے متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ مذکورہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس او پی میں ترمیم کی جائے۔
دریں اثناء باجوڑ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق باجوڑ لیوی فورس نے 11 فروری کے بعد ایف آئی آر نہ کاٹنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ قومی مشران نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لیوی فورسز کے پولیس میں انضمام کا مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے۔ سابق رکن قومی اسمبلی شہاب الدین خان، جماعت اسلامی کے ایم پی اے سراج الدین خان، باجوڑ کے قومی مشران ملک عبدالعزیز، اے این پی باجوڑ کے صدر گل افضل خان، جے یو آئی (ف) باجوڑ کے امیر مولانا عبدالرشید، پی ٹی آئی رہنما حاجی سید احمد جان، مفتی حنیف اللہ، واجد علی سمیت دیگر مقررین نے سول کالونی خار میں باجوڑ لیوی فورس اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم نہ کرنے کے مسئلے پر بلائے گئے گرینڈ جرگے میں شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ آج باجوڑ میں جو امن قائم ہے یہ لیوی فورس کی قربانیوں کی مرہونِ منت ہے، لیکن بدقسمتی سے لیوی فورس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے، صوبائی حکومت پولیس میں انضمام کے مسئلے پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جس سے امن وامان کی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے۔ مقررین نے کہا کہ اصلاحات کے بعد سرتاج عزیز کی پیش کردہ رپورٹ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ لیوی فورس کو فزیکل ٹریننگ نہیں البتہ باجوڑ لیوی فورس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایف آئی آر اور تفتیش پر عبور حاصل کرنے کے لیے ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ جرگے میں باجوڑ لیوی فورس کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 11 فروری کے بعد اُس وقت تک وہ پولیس کا کوئی کام نہیں کریں گے اور ایف آئی آر بھی نہیں کاٹیں گے جب تک ان کے انضمام کے عمل کو شفاف طریقے سے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاتا۔ لیوی اور خاصہ دار فورس کے اس احتجاج اور تحفظات کے تناظر میں گزشتہ روز آئی جی پولیس خیبرپختون خوا ثناء اللہ عباسی نے نہ صرف باجوڑ کا دورہ کیا بلکہ انہوں نے لیوی فورس سے خطاب کے علاوہ یادگار شہدا پر بھی حاضری دی۔ انسپکٹر جنرل پولیس ثناء اللہ عباسی نے سول کالونی خار میں لیوی فورس کے دربار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لیوی وخاصہ دار فورس کا پولیس فورس میں باقاعدہ انضمام ہوا ہے اور ان کو پولیس کی تمام مراعات وسہولیات دی جائیں گی، اس کے علاوہ انہیں جدید ہتھیاروں سے بھی لیس کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تین دن کے اندر باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا۔ دورے کے موقع پر مقامی پولیس کے اہلکاروں اور افسران نے اپنے مطالبات اور مشکلات پیش کیں۔ آئی جی خیبرپختون خوا نے تمام مطالبات پورے کرنے اور مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ بعدازاں ثناء اللہ عباسی نے باجوڑ لیوی فورس کی یادگار شہدا پر حاضری دی اور یادگار پر پھول رکھے۔ انہوں نے شہدا کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی، جب کہ اس موقع پر شہدا کے لواحقین سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ شہدا کے لواحقین کو عزت دیں گے کیونکہ ان کے شہدا نے اس دھرتی کے امن کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
قبائلی اضلاع میں پائی جانے والی متذکرہ بے چینی کے ساتھ ساتھ جب سے ان اضلاع کا صوبے میں انضمام ہوا ہے تب سے یہاں امن وامان کی صورت حال بھی دن بدن دگرگوں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، جس کی اصل وجہ شاید لیوی اور خاصہ دار فورس میں پائی جانے والی یہی بے چینی ہے جس کی جانب مندرجہ بالا سطور میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس مایوس کن صورت حال کا تقاضا ہے کہ حکومت قبائل کو قومی دھارے میں لانے کے لیے جو اعلانات اور وعدے کررہی ہے ان وعدوں اور اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔