یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر بزنس فورم کی تقریب سے خطاب
اسلام آباد میں پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان بزنس فورم کی ایک تقریب ہوئی، جس میں اسلام آباد کی تمام تاجر تنظیموں اور کاروباری اداروں سے نمایاں اور منتخب افراد شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور سابق رکن قومی اسمبلی میاں اسلم، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا بھی شریک ہوئے۔ میزبان کاشف چودھری نے افتتاحی کلمات ادا کیے، اس کے بعد تقریب میں موجود تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے اظہارِ خیال کیا۔ تقریب میں رئیل اسٹیٹ، فارما سوٹیکل انڈسٹری، پلاسٹک انڈسٹری، فلور ملز ایسوسی ایشن، فرنیچر انڈسٹری، بلڈرز ایسوسی ایشن، ڈویولپرز ایسوسی ایشن، میڈیکل انڈسٹری، شوگر ملز ایسوسی ایشن، چکس ایسوسی ایشن و صنعت و تجارت کے نمائندہ وفود شریک تھے۔ نمایاں افراد میں سید عمران بخاری، زاہد قریشی، جاوید رائو، عمران شبیر عباسی، طاہر عباسی، طاہر آرائیں، مہتاب حسین شاہ شامل تھے۔ اجلاس میں پاکستان کا فرنٹ مین بزنس طبقہ حکومتی اقدامات پر پھٹ پڑا، اور تاجر نمائندگان کے مشاورتی اجلاس میں سراج الحق سے کردار ادا کرنے کی اپیل کردی۔
سینیٹر سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان
تاجروں کی گفتگو سن کر پریشان ہوگیا ہوں، یہاں آنے سے قبل بہت خوش تھا۔ اِس بار جماعت اسلامی تاجر برادری کے ساتھ مل کر وفاقی بجٹ سے قبل ایک بجٹ دے گی، تاجر تنظیموں کے نمائندے ہمارے ماہرین کے ساتھ بیٹھ جائیں اور بجٹ تیار کریں، تاکہ حکومت ان بجٹ تجاویز سے رہنمائی لے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے ملکی معیشت کو قرق کرنے کا قسم کھا لی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں پہیہ جام ہڑتال کریں۔ ملکی صورتِ حال اس بات کی عکاسی کررہی ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے، تاجر برادری کے مسائل جوں کے توں ہیں، حکومت خودمختار معاشی پالیسی دینے میں ناکام ہے، کسی ملک میں تاجر برادری خوش نہیں تو عام لوگ کیسے خوش ہوں گے! ملکی معیشت میں تاجر برادری کا کردار دوڑتے خون کی طرح ہے۔ ملک پر اس وقت معاشی دہشت گردی مسلط ہے،ایف بی آر نے کوڑے اُن لوگوں پر برسائے جو ٹیکس دیتے تھے، شبر زیدی ملک سے بھاگ گئے اور عنقریب مشیر خزانہ حفیظ شیخ بھی ملک چھوڑ جائیں گے۔ وزیراعظم کو ملکی معاملات کا پتا ہی نہیں ہے۔ اصل میں یہ حکومت نہیں بلکہ دوستوں کا ایک ٹولہ ہے جو اقتدار پر قابض ہے۔ اس وقت ملکی معیشت قریب المرگ ہے۔ صنعت و تجارت سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ ملک معاشی بدحالی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہ بات اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ ورلڈ بینک اور حکومتوں کا تعلق ایک گدھا گاڑی اور مالک کا ہے، مالک گھوڑے کو اتنی ہی گھاس کھلاتا ہے جس سے گھوڑا چلتا رہے۔ مشاہدہ ہے کہ ورلڈ بینک حکومتوں کو یرغمال بنا کر رکھتا ہے۔22 کروڑ عوام کی حکومت آئی ایم ایف کے ایک کلرک سے اجازت طلب کرتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں پانی کے چارجز کئی سو گنا بڑھا دیے گئے ہیں، اور اسی طرح سوشل سہولتوں پر بھی ٹیکس بڑھا دیے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی مقامی قیادت اس کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرے گی اور عدلیہ سے بھی رجوع کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام وزارتوں، دفاتر اور بنگلوں کا گھیراؤ کریں گے۔ ملک کا نظام لاوارث ہے، پاکستان ہماری کشتی ہے، یہ ڈوب گئی تو لوگ کیا کریں گے! ترقی یافتہ ممالک میں شرح سود کم ہورہی ہے، یہاں اضافہ کیوں؟ ملک میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، بددیانتی، اور نااہلی کا مسئلہ ہے۔ جماعت اسلامی عوام کے مفاد کے لیے بجٹ سے 40 روز قبل ایک عوامی بجٹ دے گی۔ تاجر برادری سود کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔ شرعی عدالت میں جو وکیل نون لیگ کی حکومت میں سود کی وکالت کرتا رہا، وہی آج بھی سود کا وکیل ہے۔ نوجوانوں کا بڑا طبقہ حکومت سے مایوس ہے۔ اس وقت ملکی نظام حکومت کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تاجر برادری کی تجاویز سینیٹ میں پیش کروں گا۔
میاں محمد اسلم
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
آج کی نشست کا موضوع ہے: معاشی خودمختاری اور آزادی کشمیر کے ذریعے خوشحالی، فلاحی اور مستحکم پاکستان کی تعمیر کے لیے۔ اس وقت ہمیں جو حکومت میسر ہے وہ آزاد، جرأت مند، ترقی پسند اور ویژنری نظر نہیں آرہی۔ ان تینوں شعبوں میں اس کی کارگزاری منفی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ عالمی سامراج نے پیدا کیا اور ہماری حکومت نے ماضی کی طرح بزدلی دکھائی ہے، اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر نہیں ہے۔ اس صورت حال میں خودمختار معیشت اور مستحکم پاکستان کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی مسلط کی گئی پالیسیوں سے ملک چل رہا ہے۔ قسطیں پوری کرنے کے لیے مہنگائی کی گئی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ مسائل کا حل کیا ہے؟ مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کو منتخب کیا جائے۔ اگر شہہ رگ زخمی ہو تو پھر انگلی کا علاج نہیں کیا جاتا۔ آپ سب کو جماعت اسلامی کی قوت بننا ہوگا۔
کاشف چودھری
صدر مرکزی تنظیمِ تاجران پاکستان
تاجر برادری کے نمائندوں کے حکومت کے ساتھ بہت سے مذاکرات ہوئے اور ہڑتال بھی ہوئی، جس کے بعد معاہدہ ہوا، لیکن جن نکات پر معاہدہ ہوا تھا ان پر ابھی تک پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ حکومت کو قانون سازی کرنی تھی لیکن وہ آرڈیننس کے ذریعے کام چلا رہی ہے، اور ہم بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہمیں مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کو تیز کرنا پڑجائے۔ ہم نے حکومت پر واضح کیا ہے کہ تاجر ٹیکس دے رہے ہیں اور کبھی اس سے انکار نہیں کیا، لیکن اگر حکمران وی وی آئی پی کلچر ہمارے ٹیکس پر ہی بنائیں گے تو پھر کیوں کوئی ٹیکس دے گا! سود والی معیشت نہیں چل سکتی، ہمیں یہ نظام ختم کرنا ہوگا، اور ایسا نظام بنانا ہوگا کہ پیداواری لاگت اور ٹیکسوں میں ہم آہنگی ہو، اور مناسب طریق کار ہونا چاہیے۔ بجلی کے ٹیرف کا بھی مسئلہ ہے، شناختی کارڈ کا مسئلہ ہے اور دیگر مسائل ہیں۔ ان کے حل کے لیے حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ ہم لاک ڈائون کی طرف نہیں جانا چاہتے، لیکن ہمیں مجبور بھی نہ کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، عالمی برادری کو چاہیے کہ یہ مسئلہ حل کرے اور کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا جائے۔
محمد احمد
صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس
ایف بی آر کے پاس تعلیم اور علم ہے مگر تجربہ نہیں ہے۔ 17 فی صد سیلزٹیکس سے ملکی معیشت بیٹھ گئی ہے۔ متعدد بار حکام سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کے ساتھ معاملات زیر بحث رہے ہیں، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہمارے ایف بی آر کے ماہرین ٹیکس کی بات کرتے ہیں لیکن اسے وسیع البنیاد نہیں بنایا جاتا۔ جو ٹیکس دے رہا ہے اسے ہی مزید بوجھ تلے لایا جارہا ہے۔
میاں اکرم فرید
ہر انسان فکرمند ہے، مسائل بھی بہت ہیں، انہیں حل کرنے کے لیے عزم چاہیے جو نظر نہیں آتا۔ پیداواری لاگت زیادہ ہوگئی ہے۔ پرانی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بجلی بھی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
نعیم صدیقی
پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن
ملک کی معیشت اس لیے بیٹھ گئی ہے کہ برآمدات نہیں ہورہی ہیں۔ معاشی بہتری کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن حکومت اور عوام دونوں ہی معیشت کی بہتری نہیں چاہتے۔ ملک میں اس وقت ایسا نظام ہے کہ اگر کوئی کام کرنا بھی چاہے تو اسے کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے مگر زراعت میں کمی ہوئی ہے، اسی وجہ سے ملکی جی ڈی پی میں کمی سامنے آرہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو سمجھوتے کیے گئے ہیں اُن کے اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ملکی معیشت اُس وقت بہتر ہوگی جب برآمدات بڑھیں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ درآمدات پر پابندی بھی ختم کرے۔
طاہر ایوب
فوڈ ویجی ٹیبل ایسوسی ایشن
ہماری معیشت کا انحصار زراعت پر ہے، لیکن موسمی تغیرات کی وجہ سے یہ شعبہ بہت متاثر ہوا ہے۔ گندم میں کمی ہوئی ہے۔ حکومت نے پہلے گندم برآمد کی، اب درآمد کرنے جارہی ہے، اور خوراک کی اجناس بھی جن میں گندم، گھی شامل ہے، اسمگل ہورہے ہیں۔ ٹماٹر بھی مہنگا ہوا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ کسی چیز کی قلت کے باعث حکومت اسے درآمد کرلیتی تھی جس سے قیمت مستحکم رہتی تھی۔ اب قیمت بھی بڑھ رہی ہے، حکومت نے لائسنس فیس میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ صرف آئی ایم ایف کو خوش کیا جارہا ہے۔ اب تو مزدوری ملنا مشکل ہوتی جارہی ہے۔
میاں عارف
پوری کاروباری برادری پریشان ہے۔ سیلزٹیکس اور شرح سود کی وجہ سے چالیس فی صد کیپٹل کم ہوگیا ہے، ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اس سے پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
زاہد رفیق
جنرل سیکرٹری اسلام آباد رئیل اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن
حکومت نے پالیسی یہ بنالی ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو چلنے نہیں دینا، بلکہ اس کے مقابلے میں صنعت کو فروغ دینا ہے۔ ہمیں مشکلات میں پھینک دیا گیا ہے۔ ہمیں کہہ دیں، ہم یہ کاروبار ہی بند کردیتے ہیں۔ حکومت نے پانی، بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ کرکے مزید پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے ساتھ چالیس دوسری صنعتیں بھی چلتی ہیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے، لیکن یہ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو دبا رہے ہیں۔
کامران عباسی
بانی صدر اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز
اس وقت چھوٹا تاجر بہت پریشان ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر چل رہی ہے، اس سے معاشی خودمختاری نہیں آسکتی۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے لیکن شعبہ زراعت بھی متاثر ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے اور فیصلے کرے۔
صلاح الدین غازی
جیولرز ایسوسی ایشن
ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے سونے کا کاروبار بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں سونا اسٹیٹ بینک خود دے اور وہ خود ہی اس کا حساب بھی رکھے۔ سیلز ٹیکس نے یہ کاروبار تباہ کردیا ہے۔ اس صنعت کے ساتھ بہت سی دیگر کاٹیج انڈسٹری وابستہ ہے اور ہمیں اپنے کام کے لیے بہت سے شعبوں کے کاریگر درکار ہوتے ہیں۔
اشفاق چٹھہ
اس وقت پورے ملک میں معاشی بحران ہے۔ گھریلو صنعت بھی اب ٹیکسوں کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ فرنیچر کا کاروبار ایسا ہے کہ ایک ہی خاندان کے متعدد لوگ یہ کام کرتے ہیں۔ اب دکان پر سائز کے حساب سے ٹیکس لگا دیا گیا ہے، اور سیلزٹیکس نے تو کاروبار ہی ختم کردیا ہے۔
احسن بختاوری
حکومت اور تاجر برادری میں باہمی اعتماد نہیں رہا، کسی معاملے میں تاجروں سے مشاورت نہیں لی جاتی، جس سے مقامی سرمایہ کار بھی بھاگ رہا ہے۔
طاہر عباسی
نائب صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس
حکومت کو چاہیے کہ شرح سود کم کرے۔ جتنی شرح سود ہے اس پر کوئی بھی بینک سے قرض نہیں لے گا، اور اس طرح پیسہ سرکولیٹ ہی نہیں ہوگا تو معیشت کیسے چل سکتی ہے! ہمیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ بجلی کے بل بہت زیادہ ہیں، اور مزدوری تو مل ہی نہیں رہی۔ اٹھارہ ہزار روپے کی آمدنی والا شخص دس ہزار روپے بجلی کا بل دینے پر مجبور ہوگیا ہے۔
محمد فاروق
زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں گندم کا بحران ہے۔ حکومت نے پہلے گندم بیرونِ ملک بھجوائی اور اب باہر سے منگوا رہی ہے۔ چھے سات لاکھ ٹن گندم تو مرغیوں کی خوراک میں استعمال ہوئی ہے۔ حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب بحران آیا تو باہر سے منگوالی ہے۔
سردار ثاقب
فرنیچر انڈسٹری تباہ ہوتی جارہی ہے، لائسنس فیس تباہ کن ہے، ٹیکس کی بات کی تو کمشنر کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
ناصر قریشی
فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن
کورونا وائرس کی وجہ سے متعدد ادویہ اب باہر سے نہیں آرہی ہیں، یہ صورتِ حال آگے چل کر ایک نیا بحران کھڑا کردے گی۔ ٹیکس بڑھ رہا ہے اور مشینری پر اب بہت ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ ہم نے ہر فورم پربات کی لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔ بجلی کے لائن لاسز بھی تاجروں سے پورے کیے جارہے ہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں حکومت 23 ارب روپے لے چکی ہے، اب انڈسٹری کو گیس بھی نہیں دی جارہی جس سے لاگت بڑھ گئی ہے، اور ہمارے لیے دکانوں کا کرایہ پورا کرنا مشکل ہورہا ہے۔ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے اعتماد کا بحران آیا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے اور ہمیں نقصان کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔
مسرت اعجاز خان
چیئرمین فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان
حکومت بابوئوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ حکومت ہم سے ہاتھ کا نوالہ بھی چھین رہی ہے۔ اس حکومت کے ہوتے ہوئے ہمیں ترقی نظر نہیں آرہی۔ میں سراج الحق کا بہت احترام کرتا ہوں، زندگی میں اگر کسی سیاست دان کے ساتھ اپنی خواہش پر تصویر بنائی ہے تو وہ سراج الحق ہیں۔