تقریب میں ڈپٹی کمشنر ژوب اور مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا اللہ داد کاکڑ کی شرکت
ہندو اور سکھ بلوچستان کے قدیم باسیوں میں سے ہیں۔ خصوصاً ہندوئوں کا یہاں کی تجارت و معیشت میں اہم کردار رہا ہے۔ گویا یہ تعلق اور وابستگی صدیوں پر مشتمل ہے۔ صوبے اور شہر کوئٹہ کے اندر اب بھی کئی اہم شاہراہیں مثلاً گوردت سنگھ روڈ، زونکی رام روڈ، چوہڑ مل روڈ، رام باغ اسٹریٹ، موتی رام روڈ، نتھا سنگھ اسٹریٹ، پٹیل روڈ، پٹیل باغ، دیال باغ وغیرہ ان کے ناموں سے موسوم ہیں۔ پاک افغان سرحدی شہر چمن کا نام بھی چمن داس نامی ہندو کے نام سے پڑا ہے۔ اس تاجر ہی نے چمن شہر کی بنا رکھی۔ اسی طرح ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ کا نام پہلے ہندو باغ تھا۔ موضوع کی تفصیل بہت طویل ہے۔ پرانے گوردوارے اور مندر صوبے کے مختلف اضلاع اور علاقوں میں اب بھی قائم ہیں۔ تقسیم برصغیر کے وقت جہاں بڑی تعداد میں بھارت سے پاکستان مسلمانوں کی ہجرت ہوئی، وہیں بڑی تعداد میں ہندو اور سکھوں کی بھارت منتقلی ہوئی۔ اس دوران بلوچستان اور کوئٹہ سے بھی بڑی تعداد میں ہندوئوں اور سکھوں نے بھارت نقل مکانی کی، جس کی تفصیل ہندوئوں نے اپنی تحریروں میں درج کی ہے۔ اس پس منظر میں ناول بھی لکھے گئے ہیں۔ بلاشبہ اس دوران اِکا دُکا ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے تھے، تاہم یہاں کے مسلمان باسیوں کے لیے یہ امر فخر سے سر بلند کرنے کا ہے کہ انہوں نے ان خاندانوں کے جان و مال کی حفاظت کی، ان کی بھارت ہجرت میں ہر ممکن ساتھ دیا۔ سکھوں کی آبادی بلوچستان یا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے اندر نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ ہندو بڑی تعداد میں اب بھی آباد ہیں جو مختلف پیشوں اور ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ تجارت اور کاروبار ان کی پہچان ہے۔ سیاست کے اندر فعال ہیں۔ گویا معاشرے سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ یقیناً صوبے کے اندر مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، ادب و احترام کا رشتہ قائم ہے۔ 6 فروری2020ء کو بلوچستان کے شمال میں واقع ضلع ژوب کے بابو محلہ کا سو سال پرانا مندر ایک پُروقار تقریب کے ذریعے ہندو برادری کے حوالے کیا گیا۔ تاہم وہاں کے ہندو شہری یہ کہتے ہیں کہ مندر دو سو سال قدیم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب ہندو خاندان بھارت چلے گئے، تو اس مندر کی جگہ بعد ازاں اسکول قائم کیا گیا۔ چناں چہ عدالتِ عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس، جسٹس جمال خان مندوخیل اپنے حالیہ دورۂ ژوب کے دوران اس مندر بھی گئے تھے، اور مندر ہندو برادری کے حوالے کرنے کی ہدایت بھی کی تھی، اور حکم دیا تھا کہ اسکول کہیں اور منتقل کیا جائے۔ یوں اس روز اس پر عمل درآمد یقینی بنایا گیا۔ ژوب کے اندر اِس وقت بھی پچاس کے قریب ہندو گھرانے سکونت رکھتے ہیں۔ ژوب کی اقلیتی برادری کی کمیٹی کے بقول ژوب شہر میں 1928ء کی سرکاری دستاویزات کے مطابق چھے سے زائد مندر موجود تھے، جہاں بیک وقت ہندو عبادت کرتے تھے، تقسیمِ ہند کے ساتھ ہونے والی نقل مکانی کے بعد بیشتر مندروں پر قبضہ ہوگیا، ژوب کے قندھاری بازار سے متصل ایک مندر میں مدرسہ بن گیا، پولیس لائن کے مندر کی جگہ پر تھانہ تعمیر ہوچکا ہے، تھانہ روڈ کے مندر کی جگہ سرکاری بینک کی عمارت کھڑی کی گئی ہے، آریہ سماج مندر پر بھی کوئی قبضہ کرچکا ہے۔ حوالے کیے جانے والے مندر کی عمارت میں تیس سال قبل سرکاری پرائمری اسکول قائم کیا گیا تھا، جہاں اِس وقت چھے سو کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں۔ شمشان گھاٹ کی جگہ ہائی اسکول تعمیر ہوا۔ ژوب کی ہندو برادری شمشان گھاٹ کی جگہ اسکول قائم رکھنے کی حامی ہے، تاہم چاہتی ہے کہ کسی اور جگہ شمشان گھاٹ کے لیے زمین فراہم کی جائے۔
جہاں تک قبضے کی بات ہے، اگر ہندو آبادی موجود ہوتی تو کسی کو مندر کی عمارتیں ہتھیانے کی جرأت نہ ہوتی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں مذہبی تعصب یا نفرت کی بنیاد پر ان عمارتوں پر قبضہ نہیں کیا گیا۔ یہاں تو المیہ یہ ہے کہ لوگوں نے قبرستانوں پر بھی قبضہ جما رکھا ہے، سرکاری زمینوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، شہر کوئٹہ کے اندر تیس کے قریب سرکاری لیٹرینیں قبضہ ہوچکی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مندروں کی عمارتیں لاوارث جان کر قبضہ کی گئی ہیں، یا سرکار نے اپنے استعمال کے لیے ہتھیائی ہیں۔ اگر ہندو افراد مجاز حکام سے رابطہ کریں گے، اور اگر فی الواقع انہیں ضرورت ہے تو یقیناً وہ تمام مندر جن پر مختلف عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں، واگزار کرا کے حوالے کردی جائیں گی۔
ژوب میں سکھوں کے چند گھرانے بھی سکونت پذیر ہیں۔ اس وقت سکھوں کے گوردوارے پر بھی اسکول قائم ہے۔ شنید ہے کہ گوردوارہ بھی سکھوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ بلوچستان کے اندر کئی قدیم مندر موجود ہیں۔ کولپور جہاں ایک ہندو خاندان رہائش پذیر ہے، باقی سب مختلف علاقوں کو چلے گئے ہیں، لیکن کولپور کا مندر اپنی جگہ نہ صرف قائم ہے بلکہ مختلف جگہوں سے ہندو آکر وہاں مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ ضلع لسبیلہ کے ہنگول نیشنل پارک میں ہنگلاج ماتا کا قدیم مندر موجود ہے۔ یہ مندر برصغیر پاک و ہند کے بڑے آستانوں میں سے ایک ہے۔ ہر سال اپریل میں ہزاروں ہندو یاتری مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ہنگلاج مندر جاتے ہیں، یہاں تک کہ بھارت سے بھی یاتری پہنچ جاتے ہیں۔ 2006ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ بھی ہنگول گئے۔
غرض حکومتِ بلوچستان نے ژوب کا یہ مندر ہندو شہریوں کے تصرف میں دے کر مثالی اور درخشندہ قدم اُٹھایا ہے۔ مندر حوالگی کی تقریب میں ڈپٹی کمشنر ژوب طحہٰ سلیم اور مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا اللہ داد کاکڑ نے شرکت کی جو جمعیت علمائے اسلام کے رہنما بھی ہیں۔ مولانا اللہ داد نے ہندو شہریوں کے معتبرین کو مندر کی چابیاں حوالے کیں۔ ڈپٹی کمشنر نے تقریب میں ہندو شہریوں سے مندر حوالگی میں تاخیر پر معذرت بھی کی۔