پیر 3 فروری 2020ء کو معروف کالم نگار رشید میمن نے کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے کالم میں جو چشم کشا خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
سندھی تحریر: رشید میمن /ترجمہ: اسامہ تنولی
’’آئی جی سندھ پولیس ڈاکٹر کلیم امام کو ہٹانے کا معاملہ اس قدر گمبھیر ہوچکا ہے کہ اب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بہ نفسِ نفیس اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے اسلام آباد کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مراد علی شاہ پر بھی آئی جی کے معاملے پر کس قدر دبائو ہے۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ نے اسلام آباد کا دورہ کرکے بعض وفاقی وزراء سے بات چیت کی ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات کی کوشش کی، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوپائے، اور نہ ہی کلیم امام ابھی تک اپنے عہدے سے ہٹائے جاسکے ہیں۔ سرکاری حلقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ’’خاص ہدایات‘‘ کے بعد مراد علی شاہ سے آئی جی پولیس کو تبدیل کرنے کا وعدہ ایفا نہیں کیا، اور یہی طے کیا گیا ہے کہ فی الحال کچھ دنوں تک آئی جی سندھ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ حکومتِ سندھ کو اس طرح سے دراصل تنگ کرنا مقصود ہے، اور عوام میں بھی یہ تاثر قائم کرنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بنا پر آئی جی سندھ کو ہٹانا چاہتی ہے اور اچھے افسران کا سندھ میں تقرر دیکھنا اسے پسند نہیں ہے۔ بہرحال یہ تو سیاسی کھیل ہی دکھائی پڑتا ہے، کہ اس حوالے سے حکومتِ سندھ کی بات کو پذیرائی حاصل نہیں ہورہی ہے، باقی اس طرح سے بھی نہیں ہے کہ کلیم امام ایسے آئی جی پولیس ہیں جنہوں نے جرائم پیشہ لوگوں، ڈاکوئوں، بھتہ خوروں اور گلی محلّوں میں جرائم کی وارداتیں کرنے والوں کو ختم کر ڈالا ہے اور اب صوبے میں ہر طرف چین کی بانسری بج رہی ہے اور امن ہی امن ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کلیم امام کے جانے سے سندھ پولیس کا نظام تباہ ہوجائے گا، صوبے میں بدامنی بڑھ جائے گی اور سندھ کے آئی جی پولیس کے منصب کے لیے کوئی لائق آفیسر ہی دستیاب نہیں ہوسکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کلیم امام ہوں یا پھر اے ڈی خواجہ… سندھ پولیس کا نظام اسی طرح سے چلتا رہتا ہے جس طرح سے سیاسی وڈیرے اور ادارے چاہتے ہیں۔ پولیس افسران کی تقرریاں بھی سیاسی بھوتاروں کی پرچیوں کے تحت ہی ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سندھ میں جو پولیس افسران سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کے دور میں ایس ایس پیز، ڈی آئی جیز، ایڈیشنل آئی جیز کے عہدوں پر مقرر تھے، آج بھی وہی افسران انہی عہدوں پر براجمان ہیں۔ ہاں البتہ فرق ان کے ریجن اور پوسٹوں کا ہے۔ کلیم امام وہ پولیس افسر ہیں جنہیں سندھ کا آئی جی پولیس مقرر کرانے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے اے ڈی خواجہ کے دور میں بہت زیادہ کوششیں کی تھیں، اور بالآخر وہ سندھ کے آئی جی بھی ہوگئے۔ وہ ایک طویل عرصے تک سندھ کے پولیس افسران ’’سفارش‘‘ کے تحت ہی مقرر کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سندھ میں بیشتر پولیس افسران وہی مقرر شدہ ہیں جو سالہا سال سے سندھ میں مقرر رہے ہیں۔ مثلاً ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل، ڈی آئی جی عرفان بلوچ، مظہر نواز شیخ، نعیم شیخ، شرجیل کھرل، خادم رند، ایس ایس پی مسعود بنگش، پیر محمد شاہ، ڈاکٹر فاروق، بشیر بروہی، عرفان سموں، عطاء اللہ چانڈیو، امجد شیخ، تنویر تنیو، وغیرہ۔ یہ وہ افسران ہیں جو گزشتہ ایک عرصے سے سندھ میں اہم عہدوں پر مقرر ہیں اور آج بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ کلیم امام کے جانے سے کسی نوع سے پولیس کا انتظامی نظام خراب ہوجائے گا اور امن کے بجائے بدامنی قائم ہوجائے گی۔ اگر ہم اِس وقت بھی سندھ میں امن وامان کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 24 افراد ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں، اور ہر دوسرے روز مختلف مقامات سے ڈاکو لوگوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں، یہ مغوی بھنگ (تاوان) ادا کرتے ہیں تب آزاد ہوپاتے ہیں، بصورتِ دیگر ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل کردیے جاتے ہیں، لیکن پولیس کی ہر کوشش اور آپریشن ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ آئی جی پولیس کلیم امام زیادہ تر کراچی میں ہی فروکش رہتے ہیں اور سندھ کے دیگر اضلاع میں بہت کم جاتے ہیں۔ نہ ہی وہ پولیس افسران کے کوئی خاص اجلاس منعقد کراتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت بھی سندھ میں اغوا برائے تاوان کے واقعات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں لیکن اس معاملے پر تاحال کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا ہے، اور تحریری طور پر بھی کوئی ہدایات جاری نہیں ہوئی ہیں، اور نہ ہی مغویوں کی بازیابی کے لیے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لیے حکومتِ سندھ کو کوئی خاص بریفنگ دی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے گویا آئی جی پولیس کو بھی محض کراچی میں امن کی بحالی کی فکر لاحق ہے اور باقی سندھ اُن کی ترجیحات میں ایک طرح سے شامل ہی نہیں ہے۔
اوپر لکھ چکا ہوں کہ کلیم امام کچھ عرصہ قبل سندھ کے سیاسی افراد کے پسندیدہ افسر بنے ہوئے تھے اور ان کے کہنے کے مطابق ہی کام بھی کیا کرتے تھے، لیکن معاملات اُس وقت سے خراب ہوئے جب سے کلیم امام نے پوسٹنگ کے معاملے پر ’’نہ‘‘ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ حکومتِ سندھ کے حلقوں سے معلوم ہوا ہے کہ شکارپور کے ایس ایس پی کے لیے صوبائی وزیر امتیاز شیخ کی جانب سے جو نام دیا گیا تھا، آئی جی پولیس نے اس افسر کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی، اور اس کے بجائے ڈاکٹر رضوان کو مقرر کیا تھا۔ ڈاکٹر رضوان کی تقرری میں کلیم امام کے ساتھ شکارپور کے ایک ایسے شخص کا بھی ہاتھ تھا جو پیپلز پارٹی کی قیادت اور اہم اداروں کے بھی قریب ہے۔ اسی طرح مختلف اضلاع کے ایس ایس پیز کی تقرری کے لیے بھی جو نام سیاسی افراد نے دیے اُن کی تقرری بھی نہیں ہوسکی اور کلیم امام نے اپنی مرضی کے افسران مقرر کیے، اور وزیراعلیٰ سندھ کو زیادہ تر ناموں پر ’’نہ‘‘ کی۔ اس وقت آئی جی پولیس کی تبدیلی کا معاملہ سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان تکرار (تنازع) کا اہم سبب بنا ہوا ہے، کیوں کہ سندھ کابینہ کلیم امام کو ہٹانے کا فیصلہ دے چکی ہے، لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت انہیں ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہائوس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے دورانِ ملاقات یہ وعدہ کیا تھا کہ سندھ کا نیا آئی جی جلد مقرر کیا جائے گا اور وہی افسر مقرر کیا جائے گا جس کے لیے حکومتِ سندھ کہے گی، لیکن جونہی وزیراعظم واپس اسلام آباد گئے، اُن کا یہ ارادہ ہی تبدیل ہوگیا۔ انہوں نے کلیم امام کو ہٹانے کے بجائے اپنے ہاں بلاکر ’’شاباش‘‘ دی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وزیراعظم نے بھی وزیراعلیٰ سندھ کے بجائے کلیم امام کے مؤقف کو درست قرار دیا اور اُن کی پیٹھ پر تھپکی دے کر انہیں واپس بھیجا کہ وہ واپس جاکر حکومتِ سندھ کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دیں۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے وزیراعظم کے اس عمل کو صوبائی حکومت کی توہین قرار دیا جارہا ہے، کیوں کہ یہ صوبے کا ہی اختیار ہے کہ وہ چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور دیگر افسران کو تبدیل کرے، کیوں کہ صوبے کے معاملات وزیراعلیٰ ہی کو چلانے پڑتے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح سے ہوتا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کی مرضی کے تحت اعلیٰ افسران کی صوبے میں تقرری ہوپاتی ہے، لیکن لگتا یہ ہے کہ شاید موجودہ وفاقی حکومت مکمل طور پر ٹکرائو کے موڈ میں ہے، اس لیے سندھ حکومت کی بات نہیں سنی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کے بااختیار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی سرکار نے فی الحال کلیم امام کو نہ ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے امکان ہے کہ وفاق اور حکومتِ سندھ کے مابین معاملات ابھی مزید خراب ہوں گے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اس معاملے پر تیسرا خط وزیراعظم کو لکھ کر تین مرتبہ یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ آئی جی پولیس کا تبادلہ کیا جائے، لیکن وزیراعلیٰ کو تاحال اس حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا ہے۔ اس وقت کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ آئی جی سندھ اور وزیراعلیٰ کے درمیان روابط مکمل طور پر منقطع ہوچکے ہیں، دونوں ایک دوسرے سے فون پر بات کرتے ہیں اور نہ ہی باہم خط کتابت ہی کرتے ہیں، نتیجے میں سالانہ پولیس پلان کی منظوری سمیت مختلف معاملات التوااور خرابی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اب تو وزیراعلیٰ کوئی واقعہ ہونے کی صورت میں آئی جی سے اس کی رپورٹ بھی طلب نہیں کرتے۔ اور اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پولیس حکومتِ سندھ کی ہدایات کے سوا ازخود ہی کام کررہی ہے۔ کسی بھی معاملے پر اس وقت آئی جی پولیس وزیراعلیٰ سندھ کو اعتماد میں نہیں لیتے، نہ ہی صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کا کوئی اجلاس منعقد ہوسکا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ سندھ کی پولیس اِس وقت اپنی مرضی کے تحت چل رہی ہے۔ احکامات صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے بجائے کلیم امام کے چلتے ہیں، اور یہ صورتِ حال صوبے کے امن کے لیے حد درجہ خطرناک قرار دی جارہی ہے۔
اگرچہ صوبے کے افسران تبدیل کرنا صوبائی حکومت کا اختیار ہونے کی بات غلط نہیں ہے۔ صوبے کو مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی صوبائی اربابِ اختیار کو بھی چاہیے کہ وہ کسی حد تک میرٹ لاگو کریں اور اچھے افسران کی مدد کریں۔ لیکن سندھ کی صورت حال کو اچھے افسران کے لیے خطرناک قرار دیا جارہا ہے، کیوں کہ یہاں پر بالواسطہ طور پر یہ نظام رائج کردیا گیا ہے کہ سرکاری معاملات میرٹ کے بجائے وزراء، مشیروں اور سیاسی شخصیات کے کہنے پر چلائے جائیں گے، وہی سرکاری افسران اپنی پوسٹوں پر رہیں گے جو ’’یس مین‘‘ ہوں گے، پھر چاہے احکامات کسی نوع کے ہوں۔ وفاقی حکومت بھی دیگر اعلیٰ افسران کے ٹرانسفر پر کوئی اعتراض کرتی دکھائی نہیں دیتی، اور وہ محض آئی جی سندھ کے معاملے پر ہی بضد نظر آتی ہے۔ افسران کو مقرر کرنے یا انہیں ہٹانے کے بارے میں ایک یکساں پالیسی ہونی چاہیے۔ اگر آئی جی پولیس کے تبادلے کے لیے صوبائی حکومت سے اسے ہٹانے کے لیے اسباب مانگے اور طلب کیے جاتے ہیں تو پھر سیکرٹریوں کو سندھ بدر کرتے وقت بھی صوبائی حکومت سے ان افسران کو ہٹانے کی وجوہات پوچھنی چاہئیں، اور اگر وفاقی حکومت صوبے کے کسی اعلیٰ افسر کو واپس اپنے ہاں طلب کرتی ہے تو وفاقی سرکار بھی اس کی وجوہات پیش کرے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے سیاسی ملاکھڑے کے باعث سب سے زیادہ پریشان وفاقی سروس کے وہ افسران ہیں جو اس وقت سندھ میں اہم پوسٹوں پر مقرر کردہ ہیں۔ انہیں دونوں حکومتیں (صوبائی اور وفاقی) الگ الگ احکامات صادر کرتی ہیں اور پھر دونوں حکومتیں دبائو ڈالتی ہیں کہ ان کے احکامات پر عمل درآمد کیا جائے۔ لیکن یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں حکومتوں کے احکامات کو مانا جائے اور انہیں پورا کیا جاسکے، کیوں کہ دونوں کے احکامات ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں۔