۔’’لمحاتِ نُور‘‘ مرحومہ نورجہاں بیگم نورؔ کا شعری مجموعہ ان کی وفات 2000ء کے 19 سال بعد اُن کے لائق اور سعادت مند بیٹے محمد مرتضیٰ مجید نے نہایت اہتمام سے معروف صحافی جلیس سلاسل کے اشاعتی ادارے ’’الجلیس انٹرنیشنل‘‘ کے تحت کراچی سے شائع کیا ہے۔
پروفیسر منظرؔ ایوبی پیش لفظ میں رقم طراز ہیں: ’’سچی بات یہ ہے کہ ’’لمحاتِ نور‘‘ موضوعاتی اعتبار سے ایک ایسا شعری گلدستہ ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول اپنی بہاریں دکھا رہے ہیں۔ موضوعات کی رنگا رنگی، ہمہ گیری اور بوقلمونی کی ایسی مثالیں بہت کم شاعرات کے مجموعوں میں میری نظر سے گزری ہیں۔ ’’لمحاتِ نور‘‘ قدیم رنگِ تغزل اور جید متہزلانہ آہنگ کے امتزاج کی ایک ایسی شعری دستاویز ہے جس کی طباعت اور اشاعت پر نہ صرف ان کے متعلقین اور قریبی اعزہ فخر کرسکیں گے بلکہ دنیائے ادب کے شائقینِ سخن، ادبی اداروں اور علمی حلقوں میں بھی پسندیدگی اور پذیرائی کی زندہ مثال ثابت ہوگی‘‘۔
اگرچہ اور بھی ہیں نورؔ یاں رنگین بیاں شاعر
مگرتُو تو شاعرِ شیریں بیاں معلوم ہوتی ہے
پروفیسر خیال آفاقی اپنے ’’مقدمے‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’انہوں نے شاعری کو محض روایتی اور فن برائے فن کے طور پر نہیں برتا بلکہ شاعری کے ذریعے اپنے اندر کی روشنی کو روشنائی بناکر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے جس کے لفظ لفظ سے وہ نورانی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں جو روح کو جِلا بخشتی اور سماعت و بصارت کو ایک نوری کیفیت سے آشنا کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ شاعرہ نورجہاں نورؔ کو اُن کے خالق نے شاعری کا جو وصف عطا فرمایا تھا اس کو انہوں نے اپنے ذوقِ صالحہ کے طور پر استعمال کیا۔ دراصل انسان کا قول اُس کے عمل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ان کی شاعری ان کے اندر کی پاکیزہ فضا کی عکاس ہے۔ ایک طرف وہ اپنے رب کی حمد و ثنا میں رطب اللسان ہیں، دوسری طرف عشقِِ رسولؐ نے ان کے اشعار کو قابلِ احترام بنادیا ہے۔ حمد و نعت کے ساتھ ساتھ منقبت بھی ان کی شاعری کا حصہ ہے‘‘۔
قائداعظم رائٹرز گلڈ اور المرتضیٰ پراپرٹیز بلڈرز کے زیر اہتمام ’’لمحاتِ نور‘‘ کی تقریبِ رونمائی بڑے اہتمام سے مقامی ہوٹل میں کی گئی، جس میں فخرِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بطور مہمانِ خصوصی اسلام آباد سے تشریف لائے۔ آپ نے کہا کہ ’’سب سے پہلے یہ بتادوں کہ میں جلیس سلاسل کی دعوت پر اس تقریب میں آیا ہوں، جلیس بھائی نے مجھے کبھی دعوت دی یا کچھ کہا تو میں انکار نہیں کرسکا۔ جلیس سلاسل نے 35 سال قبل میرا انٹرویو کیا تھا جو پاکستان اور بیرونِ ملک کئی اخبارات و جرائد میں لفٹ ہوکر شائع ہوا تھا جس سے قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی میرا تعارف ہوا تھا۔ نور جہاں بیگم نورؔ (مرحومہ) کے شعری مجموعہ ’’لمحاتِ نور‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر میں کہوں گا کہ اس کتاب کو سب شاعروں تک پہنچایا جائے، اور قارئین ان کی کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ مرحومہ کے لیے مغفرت کی دعائیں بھی کریں۔ ان کے بیٹے مرتضیٰ مجید نے ان کی کتاب شائع کرکے اور بڑے اہتمام سے تقریبِ رونمائی منعقد کرکے بیٹا ہونے کا حق ادا کیا ہے، ان کی مرحومہ والدہ جنت میں بیٹھی خوش ہورہی ہوں گی اور اپنے بیٹے کے لیے دعا کررہی ہوں گی۔‘‘
صدرِ محفل پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ بیگم نور جہاں نورؔ کی شاعری سادہ، سہل اور آسان لفظوں کی فطری شاعری ہے جسے سچی شاعری کہنا چاہیے۔ نور صاحبہ نے غزل، نظم، قطعات، حمد، نعت، سلام کے ساتھ کئی نظموں کو نوحے کے اسلوب میں لکھا ہے، لیکن وہ رب العالمین، رحمت للعالمینؐ اور اہلِ بیت کی عقیدت مندیوں کو بھی فراموش نہیں کرسکیں، ان کی شاعری میں ایسا تقدس ہے جو پڑھنے والے کو شفاف جذبے سنا دیتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نزہت عباسی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کی شاعری میں ذہنی پاکیزگی، والدین سے عقیدت، رشتوں سے محبت شامل ہے۔ قدرت نے اُن کو شاعرانہ صلاحیتوں سے خوب نوازا تھا، بزرگانِ دین پر لکھی گئی نظمیں عقیدت و محبت سے لبریز ہیں، قلب و دہن کی پاکیزگی نے ان کے کلام کو معطر کردیا ہے، ان کے باطنی احساسات سے فضا پُرنور ہوجاتی ہے۔‘‘ گلڈ کے بانی سینئر صحافی جلیس سلاسل نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ میری دعوت پر یہاں تشریف لائے، اس سے قبل بھی آپ دو مرتبہ گلڈ کی تقاریب میں بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کرچکے ہیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور شفقت ہے۔ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ روزانہ ایک بار درودِ ابراہیمی پڑھ کر رب العالمین سے دعا کیا کریں کہ وہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کو صحت کے ساتھ لمبی عمر دے اور دشمنوں کی سازش سے محفوظ رکھے۔ اس طرح ہم وہ قرض اُتار سکیں جو آپ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بناکر کیا ہے۔‘‘ معروف شاعر خلیل احمد خلیل نے ’’فخرِ مشرق‘‘ کے عنوان سے خوبصورت نظم میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ المرتضیٰ پراپرٹیز بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے چیف ایگزیکٹو مرتضیٰ مجید نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور تحفتاً تمام حاضرین کو شعری مجموعہ ’’لمحاتِ نور‘‘ پیش کیا۔ اس موقع پر پروفیسر اظہار حیدری مرحوم کی صاحب زادی صدف بنتِ اظہار نے قائداعظم رائٹرز گلڈ کی جانب سے ’’نشانِ سپاس‘‘ مہمانِ خصوصی کو پیش کیا۔ یسریٰ طارق نے معزز مہمانوں کو بیج لگائے۔ تقریب کی ابتدا قاری شبیر مرتضیٰ نے کلام پاک سے فرمائی۔ کمسن حذیفہ حماد نے حمد، اور زوہیب اشرفی نے نعتِ مبارکہ پیش فرمائی۔ تقریب کی خوبصورت نظامت پروفیسر شازیہ ناز عروج نے کی، جبکہ بڑی تعداد میں اربابِ علم و دانش کے ساتھ سینیٹر عبدالحسیب خان، حاجی حنیف طیب، سعود ساحر، علامہ کوکب نورانی، پروفیسر ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، پروفیسر خیال آفاقی، محترم نسیم انجم، ڈاکٹر شیما ربانی، آسیہ سحر، سلطان مسعود شیخ، پروفیسر شاہین حبیب، حنا جمیل ایڈووکیٹ، پروفیسر فائزہ احسان صدیقی، محمد حلیم انصاری، ذکا العزیز، صائمہ نفیس، حنا یوسف، ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ، کرن کاشف، اسماء جلیس، فضل الرحمٰن، نسیم احمد شاہ، مرتضیٰ مجید کی بہن اور ان کے اہلِ خانہ نے بھی شرکت کی۔