کراچی کرانچی

کراچی، اس کے مضافات اور سندھ کے بہت سے مقامات کا تذکرہ

امروہہ (بھارت) کی تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار حیات النبی رضوی میرے شفیق بزرگوں میں سے ہیں۔ بقول مسلم شمیم ایڈووکیٹ ’’وہ خود اپنا ایک حوالہ اور پہچان بن چکے ہیں مگر ان کا بڑا حوالہ ان کی جنم بھومی امروہہ ہے، جسے میں قدیم یونان کی مشہور جمہوریہ (City State) ایتھنز یعنی برصغیر ہندوستان کا ایتھنز کہتا ہوں۔ ان کی خوش بختی کہیے کہ ان کے حصے میں امروہہ کا ثقافتی ورثہ ایک گنجِ گراں مایہ کی طرح آیا ہے۔ اس کے وہ لائق و فائق امین ہیں، اور اس ورثے کے فروغ کے لیے مختلف جہتوں میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘
’’کراچی، کرانچی‘‘ اُن کے تاریخی، معلوماتی مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً ایک روزنامے کے ہفت روزہ کالم ’’کولاچی کراچی‘‘ اور فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کراچی کی قدیم تاریخ کے بارے میںکئی تحقیقی کام ہوئے ہیں جن میںمحمد عثمان دموہی کی ضخیم کتاب ’’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘‘، اور خواجہ دلبر شاہ وارثی کی ’’جمالِ قطبِ عالم‘‘ جس میں 80 رنگین صفحات پر کراچی کی کہانی تصویروں کی زبانی شامل ہے، ان تصاویر میں قدیم کراچی کی متعدد نادر تصاویر شامل ہیں۔
پروفیسر عقیل دانش کتاب کے فلیپ پر رقم طراز ہیں: ’’پاکستان کے مایہ ناز عمارت کار اور اپنی وضع کے منفرد اور خوبصورت مجلے ’’عمارت کار‘‘ کے مدیر حیات النبی رضوی نے کراچی سے متعلق اپنی فکری کاوشوں میں کراچی کے تمام زاویوں کا احاطہ اس طرح کیا ہے کہ ہر زاویہ مجسم ہوکر قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ حالات سے باخبر بھی ہیں، حالات کی ستم ظریفی پر نوحہ کناں بھی ہیں اور مسائل کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے پر قادر بھی ہیں۔ انہوں نے انسانی زندگی اور نفسیات کے متعلق جو محسوس کیا ہے اُسے الفاظ کا روپ دے دیا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی ذات کا ایک اور معتبر زاویہ ہے جو ہر ہر قدم پر پڑھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔‘‘
کراچی کا مختصر تعارف کراتے ہوئے فاضل مصنف لکھتے ہیں ’’کراچی کوئی زیادہ پرانا شہر نہیں ہے، کہتے ہیں کہ اندازاً دو ڈھائی سو برس پہلے ایک بلوچی خاتون جس کا نام ’’مائی کلاچی‘‘ تھا، اس مقام پر آئی اور اپنے کنبے کے ساتھ یہیں رہ پڑی، اس طرح آہستہ آہستہ اسی عورت کے نام سے یہ بستی بسنی شروع ہوگئی۔
’’کراچی، کرانچی‘‘ پر 8، اور مختلف عنوانات کے تحت 22 مضامین کتاب کی زینت ہیں جس میں ’’کراچی کے محلے‘‘، ’’باقیؔ لائبریری‘‘، ’’پیتل والی گلی‘‘، ’’قبرستان‘‘، ’’مسجدیں‘‘، ’’گھریلو صنعتیں‘‘، ’’لالو کھیت سے لیاقت آباد تک‘‘، ’’کراچی کی تعمیرات 1947ء کے بعد‘‘، ’’چوکنڈی اور مکلی‘‘، ’’رانی کوٹ‘‘، ’’سندھ اور اس کی عمارات‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
’’کراچی کی باقیؔ لائبریری‘‘ جانے کے لیے جوبلی سینما سے بوہرہ پیر جاتے ہوئے ایک کم چوڑی مگر مصروف سڑک سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک بازار کے نکڑ پر ختم ہوتی ہے۔ بازار کے نکڑ پر بوہرہ پیر بزرگ کا مزار بائیں جانب پڑتا ہے، یہیں سے اگر آپ بائیں طرف اسلم روڈ پر مڑ جائیں تو فوراً بائیں ہاتھ پر لکڑی کا ایک بہت بڑا دروازہ ہوا کرتا تھا جس پر نمایاں اردو الفاظ میں ’’باقی لائبریری‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہی وہ جگہ ہے جو کراچی کی ادبی سرگرمیوں کی اوّلین درسگاہ ہے۔ یہ پچاس کی دہائی کا قصہ ہے۔ اُس وقت کراچی بڑا پُرسکون شہر ہوا کرتا تھا اور راتوں کو پیدل چل کر لوگ باگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے میں کوئی ڈر، خوف محسوس نہیں کرتے تھے۔ ’’باقی لائبریری‘‘ عبدالباقی صاحب کی تھی۔ ہر ماہ کے پہلے سنیچر کو بعد نمازِ عشا بغیر کسی تعطل کے پوری پابندی کے ساتھ مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ باقی لائبریری کے مشاعروں میں صدر یا ناظم کے لیے کوئی خاص شخصیت طے شدہ نہ تھی، جیسا موقع ہوتا ویسے کیا جاتا۔ یہاں آنے والے شعرائے کرام میں حضرت ارم لکھنوی، ادیب سہارنپوری، عندلیب شادانی، لیث قریشی، عنبرؔ چغتائی اور ماہر القادری وغیرہم کا شمار اُس وقت بھی اساتذہ میں ہوتا تھا۔ سرشار صدیقی، کرارؔ نوری، رسا چغتائی، نذر جعفری، یاور عباس، اکبرؔ درانی، عابد حشری، شاہد الوری اور رضی اختر شوقؔ اُس وقت جوان تھے۔ عارفؔ سنبھلی، جونؔ ایلیا، عقیل دانش، انور مقبول انصاری (سحرؔ انصاری) اور انور افسر شعور (انور شعور) نوجوان شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ شاعروں کا ذکر چلا ہے تو ایک زمانہ کراچی پر ایسا بھی گزرا ہے کہ تمام کالجوں کے ہفتۂ طلبہ میں ایک دن مشاعرے کا بھی رکھا جاتا تھا۔ یہ ہفتہ ہر سال منایا جاتا تھا اور ہر کالج میں اسٹوڈنٹس یونین کا فنڈ اس ہفتے کے لیے مخصوص کیا جاتا تھا جس میں ایک سالانہ مجلہ شائع کرنا بھی یونین کے فرائض میں داخل تھا۔ اب نہ کالج کی اسٹوڈنٹس یونینیں ہیں، نہ ان کے ہفتۂ طلبہ ہیں، نہ مشاعرے اور مجلے ہیں، ہر چیز پر جھاڑو پھر گئی۔‘‘
’’قلعہ رانی کوٹ سندھ‘‘ کا احوال یوں سناتے ہیں: ’’اگر آپ کو دیوارِ چین دیکھنی ہو تو دور دراز ملک چین جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ کراچی سے صرف ڈھائی سو کلومیٹر دور ضلع جامشورو جائیں اور کیرتھر کی پہاڑیوں کے نزدیک قلعہ رانی کوٹ کی دیوارِ سندھ دیکھ آئیں، صبح جائیں اور شام تک لوٹ آئیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ دیوارِ چین کے مقابلے میں دنیا کی دوسری بڑی دیوار ہے اور قلعہ رانی کوٹ دنیا کے سب سے بڑے قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ دیوار 38 کلومیٹر لمبی ہے اور قلعہ ’’رنی کوٹ‘‘ تقریباً 26 کلومیٹر یا 16 میل کے دائرے میں پھیلا ہوا ایک وسیع و عریض قلعہ ہے، اس کا شمار 1993ء سے عالمی ورثے میں ہے۔ اس قلعے میں یا اس کے گرد و نواح میں پانی کے ذخائر، ندیاں، تالاب، آبشار، جھرنے، خوبصورت پتھر، باغات، زرعی زمینیں، فوج اور کارندوں کے کوارٹر، حکمرانوں کی رہائش گاہیں، محل سرائے، اسلحہ خانے، مطبخ، سامان کے مخزن اور خوبصورت تعمیرات لیے ہوئے صدر دروازے جن پر نقش و نگار اور تراشے ہوئے پتھروں کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
کتاب اہلِ کراچی کے لیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ کتاب ثانوی درجے کے نصاب میں شامل ہو اور طلبہ کو ہفتے میں ایک دن کراچی کی سیر کرائے۔ وگرنہ اسکول کی لائبریری میں تو اس کی اشد ضرورت ہے۔
1960ء میں ایوب خان دارالحکومت کراچی سے اٹھا کر اسلام آباد لے گئے، مگر کراچی کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہ پڑسکا، کیونکہ اُس وقت تک یہ ایک میگاسٹی بن چکا تھا۔ وہ شہر جس کی آبادی انیسویں صدی میں ایک لاکھ پانچ ہزار تھی، اب ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے اور عالمی طور پر ایک بڑا شہر شمار کیا جاتا ہے۔ خدا اسے شاد و آباد رکھے۔
عمدہ آفسٹ پیپر پر رنگین تصاویر کے ساتھ خوبصورت گردپوش، مجلّد یہ کتاب 700/= روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ پبلشر سے عرض ہے کہ اس کا سستا اور عوامی ایڈیشن بھی شائع کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوسکیں۔

کراچی جس نے سلجھائے مسائل
وہ اب شہرِ مسائل ہو گیا ہے