پروفیسر ٹامس واکر آرنلڈ

ابوسعدی
پروفیسر ٹامس واکر آرنلڈ (9اپریل 1864ء۔ 9 جون 1930ء) ایک مشہور مستشرق ہیں، جو اپنی علمی اور اسلامی خدمات کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئے۔ 1888ء میں سرسید احمد خاں کے زمانے میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں پروفیسر مقرر ہوئے اور 9 سال تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ قیامِ علی گڑھ ہی میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب Preaching of Islam لکھی، جس میں دلائل سے ثابت کیا گیا کہ اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ”دعوتِ اسلام“ کے نام سے ملتا ہے۔ قیام علی گڑھ ہی میں انہوں نے علامہ شبلی نعمانی سے عربی اور فارسی پڑھی اور اُنہیں فرانسیسی سکھائی۔ 1898ء میں، جب علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے، آرنلڈ فلسفہ کے پروفیسر کی حیثیت سے یہاں منتقل ہوئے۔ اقبال نے اُن کی یاد میں نظم بھی لکھی ہے۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل ہوئے تو اُس زمانے میں قاضی ظفر الدین احمد کی مدد سے عربی زبان کی ایک لغت سواء السبیل الی معرفۃ المعرب والدخیل کے نام سے مرتب کی، جس کا حوالہ علامہ اقبال نے اپنے مضمون میں دیا ہے۔ پروفیسر آرنلڈ 1904ء میں انگلستان چلے گئے۔ کچھ دیر انڈیا آفس لائبریری میں کام کیا، پھر لندن میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں عربی کے پروفیسر ہوگئے۔ 1908ء سے وہ ”انسائیکلوپیڈیا آف اسلام“ کے انگریزی ایڈیشن کے ایڈیٹر بھی رہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

حکایت: دشمن کو حقیر نہ سمجھو

ایک کچھوے کو سفر درپیش تھا۔ اس کو جستجو ہوئی کہ کوئی ساتھی ملے تو سفر کروں۔ اتفاق سے ایک خرگوش بھی اسی طرف کو جانے والا تھا۔ کچھوے نے کہا کہ: ’’میاں خرگوش آئو ہم تم ساتھ چلیں‘‘۔
خرگوش بے اختیار ہنسا اور کہا: ’’ابے احمق! کہاں تُو بھدا پھپس، رینگ رینگ کر پہروں میں ایک بالشت زمین چلتا ہے اور کہاں میں بجلی کی مانند لپکتا ہوں اور ہوا کی طرح اڑتا ہوں، بھلا میرا اور تیرا کیا ساتھ!‘‘
کچھوے نے کہا: ’’یہ صحیح ہے، مگر منزل پر خدا نے چاہا آپ سے آگے ہی پہنچوں گا۔ یقین نہ ہو تو شرط باندھ لیجیے‘‘۔
چنانچہ یہ شرط ہوئی کہ جو ہارے اُس کے کان کاٹے جائیں۔ کچھوا آہستہ آہستہ لگا اپنی چال چلنے، اور خرگوش تو دو چھلانگوں میں نظر سے غائب ہوگیا۔ تھوڑی دور آگے جاکر خوگوش نے سوچا کہ: ’’جتنا میں چل چکا ہوں شام تک تو کچھوے کا یہاں آنا مشکل ہے۔ جلدی کیوں کروں۔ لائو سو رہوں‘‘۔
خرگوش آرام سے سو رہا۔ کچھوا بڑی دیر کے بعد گھسٹتا گھسٹتا آیا۔ دیکھا تو حریف پڑا سوتا ہے۔ چپکے سے چل دیا۔ بڑی رات گئے خرگوش جاگا تو کچھوا نظر نہ آیا۔ آپ ہی آپ کہنے لگا: ’’اللہ رے سست قدم میاں کچھوے، اب تک تشریف نہیں لائے۔ خیر چلیں سرائے میں رات کو رہیں۔ کل تو میاں کچھوے آہی جائیں گے‘‘۔
جوں ہی سرائے میں قدم رکھا، دیکھا تو کچھوا موجود۔ خرگوش کو دیکھتے ہی کچھوا لپکاکہ: ’’لایئے حضرت کان‘‘۔
خرگوش دُم دبا کر ایسا بھاگا کہ آج تک کانوں کے ڈر کے مارے بھاگا بھاگا پھرتا ہے۔
حاصل: کیسا ہی آسان کام ہو، جب اُس کا اہتمام نہیں کیا جاتا تو مشکل ہوجاتا ہے۔ کند ذہن محنتی لڑکے، ذہین کھلنڈروں کو ہرا دیتے ہیں۔ دشمن کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ غرور کمال حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ گھمنڈ کی بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔
(منتخب الحکایات،نذیراحمد دہلوی)

شاہی کھانا

ایک مرتبہ بادشاہ نے ایک مست درویش کو پُرتکلف کھانا بھیجا، اس نے کہا: ’’کتوں کے آگے ڈال دو‘‘۔ ایک ملازم کہنے لگا: ’’بادشاہ کی یہ توہین؟ اگر یہ کھانا کسی اور کو بھیجا جاتا تو فخر سے اس کی گردن بالشت بھر اونچی ہوجاتی‘‘۔ مست کہنے لگا: ’’آہستہ بولو! اگر کتوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ یہ کھانا بادشاہ کے مطبخ سے آیا ہے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار، دسمبر 2019ء)

زبان زد اشعار

اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
(عزیز لکھنوی)

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
(اکبر الٰہ آبادی)

کوچۂ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
(وزیر علی صبا)