برے حالات کو برداشت کرنا چاہیے، اپنی بدقسمتی کی شکایت نہیں کرنی چاہیے
پروفیسر اظہر صدیقی
ایک بہت عظیم الشان اور عالی مرتبت رئیس بزرگ ایک بڑے محل میں رہتے تھے۔ قریب ہی ایک بوسیدہ سی جھونپڑی میں ایک غریب آدمی رہتا تھا جو دوسروں کے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں اور کھانے پر زندہ تھا، لیکن وہ ہمیشہ خوش رہتا تھا اور اپنی بدقسمتی یا غربت کا کبھی شکوہ نہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اس غریب آدمی کے پاس کئی روز سے کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا، اس لیے وہ رئیس بزرگ کے پاس مدد کے لیے گیا۔ رئیس آدمی بہت مہربانی سے پیش آیا اور اس سے آنے کی وجہ پوچھی۔ غریب آدمی نے کہاکہ کئی روز سے فاقہ ہے، اگر کچھ کھانے کو مل جائے تو وہ بہت خوش ہوگا۔
’’بس صرف اتنا ہی!!‘‘ رئیس آدمی نے کہا۔
’’آئو بیٹھ جائو!‘‘ تب اس نے آواز دی ’’کوئی ہے! ایک بہت ہی اہم مہمان ہمارے ساتھ کھانا تناول کرنے آیا ہے۔ داروغہ مطبخ سے کہوکہ کھانا فوراً تیار کرے اور ہمارے ہاتھ دھونے کے لیے پانی لائو‘‘۔
غریب آدمی متعجب ہوا۔ اس نے سنا تھا کہ وہ عالی مرتبت رئیس زادہ بہت ہی مہربان اور فیاض شخص ہے، لیکن اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا استقبال ایسا ہوگا۔ وہ اپنے میزبان کی تعریف کرنے لگا۔ رئیس نے اس کو فوراً روکا اور کہا:
’’کچھ مت کہو میرے دوست۔ اب آئو ہم کھانا کھانے کے لیے بیٹھ جائیں‘‘۔
اور رئیس نے اپنے ہاتھ مَلنا شروع کیے، ایسے جیسے کوئی ان کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہو اور غریب آدمی سے پوچھا کہ اس نے اپنے ہاتھ کیوں نہیں دھوئے؟ غریب آدمی نے نہ کسی لڑکے کو دیکھا اور نہ ہی پانی نظر آیا، لیکن اس نے طے کیا کہ وہ وہی کرے گا جو اس سے کہا گیا ہے، اور اس نے اپنے ہاتھوں کو ایسے مَلا جیسے وہ ان کو دھو رہا ہو۔
’’اب آئو ہم لوگ کھانا کھانا شروع کریں‘‘، رئیس زادے نے کہا، اور عمدہ عمدہ کھانے کی اقسام لانے کے لیے حکم دیتا رہا۔ لیکن نہ کہیں کھانا نظر آرہا تھا، نہ ہی کوئی کھانا لانے والا بیرا۔ تب رئیس زادے نے غریب آدمی سے کہا:
’’ہمارے سامنے اتنے عمدہ کھانے رکھے ہوئے ہیں، میرے دوست خوب کھائو اور لطف اندوز ہو۔ تمہیں یہ سب کھانے ختم کرنے ہیں‘‘۔ اور رئیس زادے نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے سامنے پلیٹ رکھی ہے اور وہ کھانا کھا رہا ہے۔ غریب آدمی بھوک سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہورہا تھا لیکن اس نے ہوش نہ کھوئے۔ اس نے صبر کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، اور اس نے بھی ظاہر کیا جیسے وہ تصور میں خالی میز پر سے کھانا کھانے میں مشغول ہے۔ رئیس کبھی کبھی زور سے کہہ دیتا:
’’کتنا مزے دار سوپ ہے! شوربہ تو بہت ہی عمدہ ہے! ہے نا میرے دوست؟‘‘
غریب آدمی نے جواب دیا:’’یقیناً… یقیناً…‘‘
’’تب تم اور کیوں نہیں لیتے!‘‘ اور رئیس نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ اور شوربہ نکال رہے ہوں، اور ایسے ہی تصور میں غریب آدمی کی طرف کھانے کی قابیں اور ڈونگے بڑھائے اور اس سے پوچھا کہ کھانا اچھا اور مزے دار ہے نا؟
گوکہ غریب آدمی شدید بھوکا تھا، لیکن اس نے اپنے میزبان کا بے حد شکریہ ادا کیا اور کہاکہ اس نے اتنا عمدہ کھانا اور اس قدر شان دار دعوت اپنی زندگی میں کبھی نہیں کھائی تھی۔ اس نے ذرا بھی اپنا تاسف یا پشیمانی ظاہر نہیں ہونے دی۔ چہرے سے بشاشت اور خوش گواری کے جذبات جھلکتے رہے، ایسے جیسے ہر بات واقعی اور اصلی تھی۔
رئیس زادہ درحقیقت ایک بے حد فیاض انسان اور بہت ہی مخیر طبیعت کا مالک تھا۔ وہ دراصل اس غریب آدمی کا امتحان لے کر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ مایوسی میں صبر کو ہاتھ سے جانے دے گا! اُس نے اس غریب کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ بہت ہی صابر شخص ہے اور صبر کو کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ سوچتا تھا کہ ایسا صابر و شاکر اور شادماں انسان جیسا کہ وہ غریب آدمی تھا، بھوک اور غربت سے دوچار نہیں رہنا چاہیے۔ لیکن اسے کچھ شکوک تھے اس لیے وہ اُس کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ اب اسے معلوم ہوچکا تھا کہ اس غریب آدمی کے بارے میں جو کچھ بھی مشہور تھا وہ سب صحیح اور سچ تھا۔ رئیس اور شریف انسان نے اپنے ہاتھوں سے تالی بجائی اور خدام وہ سب دیدہ زیب، دل کش اور عمدہ کھانے جن کا ذکر وہ کرتا رہا تھا، لے کر آگئے۔ ایک بہت ہی شان دار عشائیہ میز پر سجا دیا گیا۔ اس دفعہ غریب آدمی کو خالی تصور میں کھانا نہیں کھانا پڑا۔ اب اس نے دل کھول کر اور پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
کھانا ختم کرنے کے بعد رئیس نے کہا: ’’دوست، تم ایک بے حد صابر انسان ہو، اور خوب جانتے ہو کہ کسی بھی بری حالت اور مصیبت کاسامناکیسے کیا جانا چاہیے۔ میں تمہارے جیسے ہی شخص کی تلاش میں تھا جو میری املاک اور فارم کا انتظام سنبھال سکے۔ تم کو آج سے میرے ساتھ رہنا چاہیے‘‘۔
اُس دن کے بعد سے اس غریب انسان کو غربت اور افلاس سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔
اس کہانی میں عام آدمی کے لیے بہت سے سبق ہیں۔ جب غریب آدمی رئیس آدمی کے پاس گیا تو اس نے کوئی خیرات نہیں مانگی کہ وہ کچھ دن تک بھیک مانگنے سے بچا رہتا، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ لالچی نہیں تھا۔ وہ حال میں رہتا تھا۔ اسے صرف کچھ کھانا چاہیے تھا اور اس نے صرف وہی مانگا۔ اب اگر وہ کچھ پیسہ مانگتا تو وہ اسے مل جاتا اور کچھ دن تک اس کا گزارہ ہوجاتا، لیکن جب وہ پیسہ ختم ہوجاتا تو وہ پھر سے اپنی غربت کی طرف لوٹ جاتا۔ اس نے اپنی فوری ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں مانگا اور وہی اس کی خوش قسمتی کا سبب بن گیا اور وہ رئیس آدمی کے فارم پر ملازمت پاگیا۔
جب وہ غریب آدمی جھوٹ موٹ کے کھانوں کی تصوراتی قابوں سے پریشان کیا گیا تو اس نے صبر کو ہاتھ سے نہیںجانے دیا باوجود بے حد بھوکا ہونے کے۔ اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو وہ وہاں سے بھگا دیا جاتا یا نکال دیا جاتا اور کھانا بھی نہ مل پاتا، اور وہ نوکری بھی نہ ملتی جو اسے ملنے والی تھی۔ اس نے نہ تو اپنی بدقسمتی کی، نہ ہی اپنی غربت کی شکایت کی، جو ایک عام بھکاری کسی رئیس آدمی کے سامنے کرتا۔ بس یہ اس کہانی کا سبق ہے کہ ہر حالت میں صبر ہی کرنا سب سے اچھی بات ہے۔ برے حالات کو برداشت کرنا چاہیے، اپنی بدقسمتی کی شکایت نہیں کرنی چاہیے، جو کچھ کوئی بوتا ہے وہی وہ کاٹتا ہے۔ اس لیے رونا پیٹنا بے کار ہے۔ کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اسی پر اپنی قسمت اور مستقبل کو بنانا چاہیے۔ صبر سب سے افضل ہے، بغیر صبر کے زندگی بالکل ناکامیاب رہتی یا ہوتی ہے۔ اس کہانی میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ جب کوئی کسی کے پاس کسی طرح کی مدد کے لیے جاتا ہے تو اسے تیار رہنا چاہیے مددگار کے رحم و کرم کا، جو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ لالچ اور کشادہ قلبی ساتھ نہیں رہ سکتے۔ جہاں لالچ ہوتا ہے وہاں خوش قسمتی حاصل ہونا مشکل ہوتا ہے۔ انسان کو ہر حال میں رہنا سیکھنا چاہیے اور اپنی ضرورت سے زیادہ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ صبر کے ساتھ خوش مزاجی، قناعت اور اچھی طبیعت انسان کو کیسے ہی حالات کا اچھی طرح مقابلہ کرنا سکھا دیتے ہیں۔
(انٹرنیٹ پر موصول ای میل کا انگریزی سے اردو ترجمہ)