۔ ’’صدی کامعاہدہ ‘‘اور امت کا ردعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے ایک یک طرفہ امن منصوبے کا اعلان کردیا ہے اور ازخود اسے صدی کا معاہدہ (ڈیل آف دی سنچری) کا نام بھی دے دیا ہے۔ منصوبے کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت ہوگا، غیر قانونی یہودی بستیوں کو قانونی قرار دے دیا جائے گا اور اس کے بدلے میں اسرائیل چار سال تک نئی بستیاں تعمیر نہیں کرے گا۔ غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینی مہاجرین کے لیے اپنی سرزمین پر واپسی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے گا۔ اسرائیل، پی ایل او اور حماس کے درمیان اس خودساختہ سہ فریقی معاہدے کے نتیجے میں ’’نیوفلسطین‘‘ کے نام سے ایک ریاست کے قیام کا بھی ذکر ہے۔ وائٹ ہائوس نے عظیم تر اسرائیل اور فلسطین کی دو نئی ریاستوں کے نقشے بھی جاری کردیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجوزہ فلسطینی ریاست مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ہوگی، تاہم یہاں آباد کی گئی یہودی بستیاں ’نیو فلسطین‘ کا حصہ نہیں ہوں گی، بیت المقدس سے متصل ابودیس نامی علاقہ اس ریاست کا دارالحکومت تجویز کیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے اس منصوبے سے متعلق اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کے لیے آخری موقع قرار دیا ہے۔ اس صدی کے معاہدے کو فلسطینیوں پر جبراً مسلط کرنے کے لیے امریکہ کس حد تک جا سکتا ہے، اس کا بھی واضح الفاظ میں اعلان کردیا گیا ہے کہ اگر فلسطینی عوام کی نمائندہ حماس یا فلسطینی اتھارٹی اس معاہدے کو ماننے سے انکار کریں گی تو امریکہ نہ صرف خود ان کی امداد روک دے گا بلکہ دیگر ملکوں کو بھی امداد روکنے پر مجبور کرے گا۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس معاہدے پر دستخط کردیں لیکن حماس اور اسلامی جہاد اسے تسلیم نہ کریں تو امریکہ خود اپنی سرپرستی میں غزہ پر مکمل جنگ مسلط کردے گا۔
معاہدے کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ فریقین اس کے نکات پر متفق ہوں، مگر یہ عجیب معاہدہ ہے کہ جس کے متن میں درج ہے کہ اسے خنجرکی نوک پر منوایا جائے گا۔ اصولی طور پر معاہدے کے اعلان کے وقت سبھی فریقین کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے کہ وہ معاہدے سے متعلق اپنا اپنا مؤقف بیان کرسکیں۔ مگر یہ عجیب معاہدہ تھا کہ جس کے اعلان کے وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو تو موجود تھے مگر دوسرے فریق، فلسطین نمائندوں کی موجودگی تو بعد کی بات ہے، کسی فلسطینی نمائندے کو مدعو تک نہیں کیا گیا۔ ہاں البتہ مسلمان ملت کی بدبختی، جرمِ ضعیفی کی سزا اور باہمی انتشار و افتراق کا ثمر، کہ امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم کی اس مشترکہ پریس کانفرنس میں متحدہ عرب امارات، عمان اور بحرین کے سفیر صدی کے اس معاہدے کی تائید و توثیق کے لیے موجود تھے۔ امت کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے شاہ نے اس معاہدے کا بھرپور دفاع اور خیر مقدم کیا ہے، تاہم مقامِ شکر ہے کہ امت کا مجموعی ردعمل حوصلہ افزا رہا ہے۔ منصوبے کے ظاہر ہوتے ہی غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے سڑکوں پر آکر شدید احتجاج کیا، امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی تصاویر کو آگ لگائی اور زبردست نعرے بازی کی۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس نام نہاد معاہدے کو صدی کا تھپڑ قرار دیتے ہوئے کلی طور پر مسترد کردیا ہے، اور کہا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے، ہمارے کوئی حقوق برائے فروخت دستیاب نہیں، ہم خرید و فروخت کا سامان نہیں، ہم اس سازش کو ناکام بنائیں گے۔ فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم حماس نے صدر محمود عباس سے اپنے شدید اختلافات کے باوجود اُن کے بیان کی تائید کی ہے اور معاہدے کے مسودے کو بکواس اور اسے فلسطینی مزاحمت کے خاتمے کی سازش قرار دے کر مسترد کردیا اور اس کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔ جب کہ فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے بھی اس معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے منافی اور فلسطینیوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔ یوں پوری فلسطینی قیادت نے بیک زبان صدر ٹرمپ کے اس ’’تاریخی‘‘ اعلان کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا ہے اور امریکہ و اسرائیل سے تعلقات منقطع اور 1994ء کے اوسلو معاہدے کو بھی ختم کرنے کے دلیرانہ اعلانات کیے ہیں۔
جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے، ایران، پاکستان اور ترکی سمیت تمام اہم ممالک نے اسے مسترد کردیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے سب سے جرأت مندانہ، مؤثر اور جان دار ردعمل میں امت کو متنبہ کیا ہے کہ قبلۂ اوّل بیت المقدس ہمارے ہاتھ سے چلا گیا تو پھر ہم مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کو بھی نہیں بچا پائیں گے۔ بیت المقدس کا مطلب استنبول، اسلام آباد، جکارتہ، قاہرہ، دمشق اور بغداد ہے، ہمارے نزدیک اسرائیل ایک بدمعاش ریاست ہے، مقبوضہ بیت المقدس کو اُس کے شکنجے میں دینا انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے، فلسطینی بھائیوں کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت ہر سطح پر جاری رکھیں گے اور نامساعد حالات کے باوجود ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے، اسرائیل سے آزادی فلسطین کا مقدر ہے اور اس مقدر کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی نے بھی امریکی دبائو اور اس کے اعلان کردہ منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ او آئی سی کا اجلاس اگرچہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوا تاہم اس میں شریک 57 مسلمان ممالک کے نمائندوں نے امریکی منصوبے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا اُس میں کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کا اعلان کردہ معاہدہ جانب دارانہ اور یک طرفہ ہے جو فلسطینی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتا، فلسطین میں امن اور سلامتی فلسطینیوں سمیت تمام طبقوں کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ او آئی سی فلسطینی عوام اور ان کی حکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، ان کی امداد اور آبرو مندانہ زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لیے کھڑی ہے۔ او آئی سی نے تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ امریکی منصوبے کے نفاذ کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی جانب سے، جسے اب مُردہ گھوڑا قرار دیا جانے لگا تھا، طویل عرصے کے بعد ایک اہم مسئلے پر ٹھوس اور جان دار مؤقف اختیار کیا گیا ہے جو یقیناً اطمینان کے بہت سے پہلو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اللہ کرے یہ طرزِعمل امت کے اتحاد کی جانب مؤثر پیش رفت کی نوید ثابت ہو، اور اس کے نتیجے میں کچھ عملی اقدامات بھی سامنے آ سکیں ؎

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

(حامد ریاض ڈوگر)