خط و کتابت اور پتہ

امریکہ سے خوش فکر شاعر غالب عرفان نے پچھوایا ہے کہ کیا ’’کمرۂ امتحان‘‘ کی ترکیب درست ہے؟ ہم چونکہ بار بار کمرۂ امتحان میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے ہمارے خیال میں تو یہ ترکیب صحیح ہے، یہ اور بات کہ کمرۂ امتحان میں کیسی گزری۔ اس استفسار سے توجہ ’’کمرہ‘‘ پر گئی کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے۔ کمرے ہر گھر میں ہوتے ہیں، ایک، دو یا زیادہ۔ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے۔ کسی کی کمر حد سے تجاوز کرجائے تو اسے مزاحاً کمرہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ دنیا بجائے خود کمرۂ امتحان ہے، لیکن کمرہ نہ تو عربی، فارسی کا ہے، نہ ہندی کا، بلکہ یہ پرتگالی زبان سے آیا ہے۔ پرتگالی بھی برعظیم کے کچھ ساحلی علاقوں پر قابض رہے ہیں اور اُن کو اپنا کمرہ بنالیا ہے۔ پرتگالی میں کمرہ بفتح اول و دوم ہے یعنی پہلے دونوں حروف پر زبر ہے۔ یہ کمرہ جب لاطینی زبان میں کھلا تو دوسرے حرف کو زیر کرلیا (بکسر دوم)۔ معنیٰ اس کے کوٹھڑی، حجرہ تھا۔ اردو میں بالفتح ہے بروزن شجرہ، ہمزہ۔ ’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے اسے اطالوی زبان کا قرار دیا ہے۔ بہرحال اردو میں کمرے کا مطلب سب کو معلوم ہے۔ اس میں رہنے سے غرض خواہ پرتگالی ہو، اطالوی ہو یا لاطینی۔ کمرہ کرائے پر لینا، کمرہ چکانا، خلوت خانہ وغیرہ عام استعمال ہے۔ عربی میں اسے غرفہ کہتے ہیں۔ سحرؔ کا ایک شعر سن لیجیے:۔

چکائیں یوسف بازار چوک کے کمرے
بتوں کے رہنے کو ہے خانۂ خدا موجود

مزے کی بات یہ ہے کہ ’میز‘ بھی پرتگالی زبان کا لفظ ہے اور ’کرسی‘ عربی کا۔ اب رہی بات کمرۂ امتحان کی، تو اس میں ’امتحان‘ عربی کا ہے۔ اردو میں ایسی کئی تراکیب عام ہیں جن میں اور زبانوں کے الفاظ یکجا کرلیے جاتے ہیں۔ کمرۂ خواب بھی تو کہا جاتا ہے جب کہ ’خواب‘ (تلفظ ’خاب‘) فارسی کا ہے، لیکن خواب کہیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ’کرسی نشین‘ کی ترکیب بھی عام ہے۔ عربی میں ’میدان‘ چوک، چوراہے کو کہتے ہیں، جب کہ اردو میں کسی کھلی جگہ کو کہتے ہیں۔ عرب ممالک میں چوراہوں کے نام رکھے جاتے ہیں جیسے میدان دراجہ، میدان فلک۔ کراچی میں مکّہ چوک ہے۔ ’میدان التحریر‘ یعنی آزادی چوک اور کراچی میں خلافت چوک۔ چوک، چوراہے اور بھی شہروں میں ہیں۔ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر چوک تو بڑا مشہور ہے۔ میدان پر ایک شعر سن لیں:۔

میدانِ امتحاں ہے کہتے ہیں جس کو دنیا
اللہ اپنے بندوں کو آزما رہا ہے

دوسرے مصرع میں شکست ِناروا ہے، یعنی مصرع غلط جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ اللہ اپنے بندوں۔ کو آزما رہا ہے۔ اصولاً کو، بندوں کے ساتھ آنا چاہیے۔ لیکن بندے، بندے میں بھی تو فرق ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال علامہ اقبالؒ کے مصرع میں بھی ملتی ہے ’’کہ ہزاروں سجدے تڑپ۔ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں‘‘۔
شاعری سے ہمارا کوئی علاقہ نہیں، تاہم جسارت کے ایک کالم نگار بابا الف نے دِلّی اور لکھنؤ میں ادبی تنازع کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ مصرع دِلّی والوں نے لکھنؤ والوں کو بھیجا کہ ’’رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں‘‘۔ اس پر لکھنؤ والوں نے گرہ لگائی ’’سنا ہے کہ دِلّی میں الّو کے پٹھے۔ رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں‘‘۔ اس واقعہ یا گرہ بندی کا کوئی تعلق دہلی اور لکھنؤ کی گروہ بندی سے نہیں ہے اور شعر بھی غلط ہے۔ اردو کے بڑے مشہور ہندو شاعر چکبست خفیفہ عدالت میں وکالت کرتے تھے۔ اب خفیفہ عدالت کی اصطلاح بھی متروک ہوگئی ہے۔ انگریزی میں اسے SMALL CAUSE COURT کہتے ہیں۔ اس عدالت میں خفیف یا چھوٹے معاملات پیش کیے جاتے تھے۔ عام طور پر زر نقد کے معاملات پیش ہوتے تھے۔ اب تو طرح طرح کی عدالتیں وجود میں آگئی ہیں جہاں سائلین خفیف ہوتے ہیں۔
بہرحال مذکورہ عدالت کے جج صاحب ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے اس مصرع پر گرہ لگانے کو کہا کہ ’’رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں‘‘۔ چکبست نے عدالت میں تو کچھ نہیں کہا کہ وکالت نامہ منسوخ نہ ہوجائے۔ باہر نکل کر انہوں نے گرہ لگا کر شعر مکمل کیا:۔

خفیفہ عدالت میں اُلّو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں

اس واقعہ کا کوئی تعلق دِلّی اور لکھنؤ سے نہیں۔ دِلّی کے حوالے سے یہ واقعہ پہلے بھی کسی نے لکھا ہے۔ چکبست کا نام برج نارائن تھا (1882-1926)۔ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔
یہ تو خیر ادبی مغالطہ تھا۔ ایک تاریخی مغالطہ دیکھیے۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے بیان کیا کہ جب دشمن کی فوج ہندوستان کی سرحد تک پہنچ گئی تھی تو خفیہ کے اہلکاروں نے مغل بادشاہ محمد شاہ کو رپورٹ دی۔ اس پر بادشاہ نے کہا ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ تاریخی مغالطے کے باوجود یہ تو ثابت ہوا کہ اینکر کو دِلّی دور است کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ضرور تھا۔ اس کی داد دینی چاہیے۔ لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے۔ مغل دور سے پہلے کا دور ’سلاطین کا دور‘ کہلاتا ہے۔ فیروز شاہ تغلق کے دور میں دہلی میں شیخ نظام الدین تاج الاولیاکی عوامی مقبولیت اس درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ سلطان کے ہوا خواہوں نے اسے ڈرا دیا کہ وہ آسانی سے دِلّی کے تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں، حالانکہ حضرت شیخ نے کسی دھرنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ بادشاہ اُس وقت کسی مہم پر جارہا تھا، چنانچہ شیخ نظام الدینؒ کو دھمکی دی کہ واپس آکر نمٹوں گا۔ جب وہ واپسی میں دہلی کے قریب پہنچا تو شیخ کے مریدوں نے مشورہ دیا کہ کسی اور شہر کی طرف نکل جائیں، بادشاہ دہلی کے قریب آگیا ہے۔ اس پر شیخ نظام الدین تاج الاولیا نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ یہ جملہ مغل بادشاہ محمد شاہ کا نہیں جو ’رنگیلا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ شیخ نظام الدین مغلوں کے دور سے پہلے کے ہیں۔ ان کے مرید امیر خسرو بھی کئی پہلوئوں سے مشہور ہیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دہلی سے باہر بادشاہ کے استقبال کے لیے اس کے ولی عہد محمد تغلق نے لکڑی کا ایک محل تعمیر کرایا تاکہ بادشاہ وہاں آرام کرکے دہلی میں داخل ہو۔ ہوا یوں کہ بادشاہ کے جرنیلوں نے یا خود محمد تغلق نے اپنے ہاتھی لکڑی کے محل کے ستونوں سے باندھ دیے۔ ہاتھیوں نے لکڑی کے محل کو تاش کے گھر کی طرح گرادیا اور بادشاہ اس میں دب کر ہلاک ہوگیا۔ دِلّی اس کے لیے دور ہی رہی۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس سانحہ میں محمد تغلق کا ہاتھ تھا جو بادشاہ بن گیا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کا معاملہ کچھ اور ہے، وہ پھر کبھی سہی۔
خیر یہ تو لاعلمی کے واقعات تھے۔ جسارت میں شائع ہونے والے مضامین میں بھی کالم نگار عوام کو مونث بنانے سے باز نہیں آتے۔ اسی طرح ’’خط و کتابت اورپتہ‘‘ کا معاملہ ہے۔ بہت پڑھے لکھے لوگ بھی خط و کتابت لکھنے سے گریز نہیں کرتے، جب کہ ان حروف کے بیچ میں ’و‘ نہیں آتا۔ کراچی سے شائع ہونے والا موقر رسالہ ’’العلم‘‘ ہے۔ نام کے حساب سے اس کا کام علم کا فروغ ہے۔ اس کے بانی بڑی علمی و ادبی شخصیت سید الطاف علی بریلوی تھے۔ اس کے پہلے ہی صفحہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے ’’خط و کتابت کا پتہ‘‘۔ چلیے، ’پتا‘ کو ’’پتہ‘‘ لکھنا تو قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن ستم یہ ہے کہ خط و کتابت کا پتہ پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی کے نام ہے جو خود بھی ایک بڑے عالم اور ماہر لسانیات ہیں۔ ’معرکہ آراء‘ کی جگہ ’’معرکتہ الآرا‘‘ کی ترکیب بھی غلط ہے مگر لوگ اسے غلط العام قرار دے کر نظرانداز کردیتے ہیں، حالانکہ یہ غلط العوام ہے۔ اسی طرح کراچی سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ ہے۔ یہ علمی، دینی رسالہ ہے جس کے نگران بہت بڑے علماء ہیں۔ مگر اس میں بھی ’’خط و کتابت کا پتہ‘‘ موجود ہے۔ ایسے رسائل سے تو ہم دینی معلومات ہی نہیں زبان و بیان کا علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ کیوں نہ لغت دیکھ لی جائے۔