عالمی معیشت کو بڑا خطرہ
چین میں پھوٹنے والی سانس کی مہلک بیماری تادم تحریر قابو میں آتی نظر نہیں آرہی۔ ملکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے چینی حکومت نے 3 فروری سے متاثرہ ووہّان (’ہ‘ پر تشدید) اور اس سے متصل دوسرے شہروں میں کاروبارِِ زندگی کو معمول پر لانے کا اعلان کیا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ہنوز دِلّی دور است، یعنی اس وبا پر قابو میں ابھی وقت لگے گا۔ 3 فروری کو صرف ایک دن میں 56 افراد ہلاک ہوئے، جس کے ساتھ اب تک مرنے والوں کی تعداد 305 ہوگئی ہے جن میں فلپائن میں مرنے والا ایک چینی شہری بھی شامل ہے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ 44 سالہ چینی سیاح ووہّان سے یہ مرض لے کر فلپائن آیا تھا۔
یہ بیماری کیا ہے اور یہ کس طرح اچانک پھوٹ پڑی، اس کے پس نظر پر چند سطور:
گزشتہ سال کے اختتام پر وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکایت ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے نزلہ زکام سمجھ کر نظرانداز کردیا۔ 31 دسمبر کو عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے شہر کے 41 افراد کے اس زکام کو ایک خاص طریقے کا نمونیا قرار دے کر علاج شروع کیا، لیکن ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘۔ طبیعت میں بہتری تو دور کی بات، بہت سے مریض بسترِ مرگ پر پہنچ گئے۔ متاثرین کے لعابِ دہن، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزیے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسے2019- nCoV یا نویل کرونا وائرس کہتے ہیں۔ لفظِ کرونا کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزیے کے دوران اس جرثومے کے جزئیات تاج (کرائون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس مرض کے علاج کے لیے فی الحال کوئی دوا موجود نہیں۔ اگرچہ کہ آسٹریلیا اور تھائی لینڈ کے کچھ ماہرین نے کرونا وائرس شکن جرثومے یا ویکسین دریافت کرنے کا دعویٰ کیا، لیکن WHOنے اس دعوے کو قبل ازوقت قرار دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جرثومہ فروری کے وسط تک اپنے طبعی جوبن پر پہنچے گا جس کے بعد ہی کسی مؤثر ویکسین کی تیاری ممکن ہوگی۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کرونا وائرس نزلہ، زکام، کھانسی اور سانس کی بیماریوں کا موجب بننے والے جرثوموں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جس میں سوائن فلو اور سارس جیسے جرثومے بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ جرثومہ اس سے پہلے انسانوں میں نہیں پایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ نویل یا نیا کا سابقہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک امریکی ڈاکٹر نے آسان الفاظ میں اس بیماری کو بے قابو و لاعلاج نمونیا قرار دیا جو موت کا سب بن سکتا ہے۔ سرکاری طور پر نویل کرونا وائرس کی تشخیص 7 جنوری کو ہوئی ہے، یعنی دشمنِ جان و ایمان جرثومے کی عمر اب ایک ماہ ہوچلی ہے جبکہ اس کی ’بلوغت‘ 15 فروری تک متوقع ہے۔
سوال یہ ہے کہ جانوروں خاص طور سے بلی، چمگادڑ اور چوہوں کے خون میں پائے جانے والے یہ جرثومے حضرتِ انسان کے جسم میں کیسے پہنچے؟ اس کے لیے ووہّان شہر کا ایک مختصر تعارف:
سوا کروڑ آبادی والا ووہّان چاول و مچھلی کی سرزمین کہلاتا ہے۔ اس کا بڑا حصہ دیہی نوعیت کا ہے جہاں کپاس، چاول اور چائے کی کاشت ہوتی ہے۔ ووہّان میں نمک (راک سالٹ)، فاسفورس اور دوسری قیمتی معدنیات کی کانیں بھی ہیں، جبکہ کوئلے کی سالانہ پیداوار 55 کروڑ ٹن کے قریب ہے۔ ووہّان کی شناخت عظیم الشان سہ گھاٹی ڈیم (Three Gorges Dam)ہے جس سے پھوٹنے والی نہروں نے سارے صوبے کو گل و گلزار بنا رکھا ہے۔ دنیا کے اس سب سے بڑے ڈیم سے 87 ارب کلوواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ووہّان سارے ملک کو جانے والی ریل گاڑیوں کا جنکشن ہے۔ اسی بنا پر اسے چین کا شکاگو کہا جاتا ہے کہ شکاگو امریکہ کے وسط مغرب کا مواصلاتی مرکز ہے۔ زراعت و معدنیات کے علاوہ ووہّان صنعت اور ٹیکنالوجی کا مرکز بھی ہے۔ دنیا کی دو سو سے زیادہ بڑی کمپینیوں نے یہاں اپنے کارخانے اور دفاتر قائم کررکھے ہیں جن میں ایپل، ایمزون، آئی بی ایم، جی ای اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔ شہر کی مقامی معیشت کا حجم 224 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
ووہّان کے جیانگٹن ضلع میں واقع ہونان مچھلی مارکیٹ سارے چین میں مشہور ہے۔ 50ہزار مربع میٹر پر مشتمل اس بازار میں مچھلیوں کے علاوہ دنیا کے ہر جانور کا گوشت فروخت ہوتا ہے جن میں عام چڑیا، چمگادڑ، کبوتر، مور، شتر مرغ، فیل مرغ، عقاب، گدھ سمیت دنیا بھر کے پرندے، افریقہ کا مشک بلائو (Civet)، بجو، نیولا، اودبلائو، بلی، کتے، مگرمچھ، بندر، گدھے، زیبرا، لومڑی، جنگلی سور، خرگوش، چوہے، شیر اور بھیڑیے کے چھوٹے بچے، ہرن اور سانپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں زندہ چوہے، بچھو، لال بیگ، چھپکلیوں سمیت دوسرے حشرات الارض بھی فروخت ہوتے ہیں۔
مارکیٹ میں کچھ ریستوران بھی ہیں جہاں زندہ جانوروں کو صارفین کے سامنے تکہ بوٹی کرکے ہانڈی پر چڑھایا جاتا ہے۔ ہم نے جان کر تکہ بوٹی کہا کہ یہاں ذبح کرنے کا تصور نہیں۔ مثلاً سرکو ہتھوڑوں سے توڑ کر گدھے کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ کھولتے پانی میں غوطہ دے کر بلی کی کھال اتارنے کے بعد سیخ چڑھاکر اسے بھونا جاتا ہے۔کتوں کو بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضرب سے ہلاک اور بندر کا سر توڑ کر براہِ راست کاسہِ سر سے اس کے دماغ کا سوپ پیا جاتا ہے، جبکہ زنجیر سے بندھے زندہ بھیڑیے کو ویلڈنگ ٹارچ سے جلاکر اسے باربی کیو کیا جاتا ہے۔ اس انسانیت سوز طباخی کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ خوف و دہشت کی وجہ سے جانور کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ خون رگوں میں اتر آنے کی وجہ سے گوشت نرم اور لذیذ ہوجاتا ہے۔
اس بازار کے بارے میں دنیا بھر کے ماہرینِ صحت ایک عرصے سے تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ یہاں قسائیوں کے تھڑے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ زندہ و مُردہ جانور ساتھ ساتھ ہیں، بلکہ زندہ جانور ذبح کیے جانے والے جانوروں کا خون چاٹتے بھی نظر آتے ہیں۔ مُردہ جانوروں کی آلائشیں بکھری ہونے کی بنا پر مارکیٹ سے اٹھنے والا تعفن میلوں دور سے محسوس ہوتا ہے۔
چینی باورچی پاکستانیوں کی طرح ہانڈیوں کو بہت زیادہ پکانے کے قائل نہیں، بلکہ گرم توے پر بوٹیوں کو الٹ پلٹ کر اتارلیا جاتا ہے۔ چمگادڑ کے سوپ کے ساتھ لوگ چھوٹے چھوٹے چوہے کانٹے گھونپ کر زندہ منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اس ظالمانہ شوقِِ کام و دہن میں چمگادڑ کے سوپ، اُبلی بلی یا زندہ چوہوں سے کرونا وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا جس نے اسے باقی لوگوں تک پہنچا دیا۔ چینی وزارتِ صحت نے اس مفروضے کو یکسر مسترد کردیا ہے، لیکن گزشتہ ہفتے اس بازار کو مقفل کرکے وہاں موجود تمام جانور اور حیاتیاتی مواد تلف کرنے کے بعد جراثیم کُش دوائوں کا چھڑکائو کیا گیا۔ آٹھ برس پہلے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کرونا وائرس کی ایک قسم نے وبائی شکل اختیار کرلی تھی، جس سے 858 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں اونٹ سے یہ جرثومہ انسان میں منتقل ہوا تھا۔
چینی حکومت نے وائرس سے متاثرین کے علاج معالجے کے لیے انتہائی مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ 1000 بستروں کے دو اسپتال صرف 10 دن میں تعمیر کرلیے گئے جہاں چینی فوج کے میڈیکل کور کو تعینات کیا گیا ہے۔ دوسری طرف مرض کا پھیلائو روکنے کے لیے ووہّان شہر بالکل بند ہے۔ نہ تو دوسرے شہر سے کسی شخص کو ووہّان آنے کی اجازت ہے اور نہ یہاں سے کوئی فرد باہر جاسکتا ہے۔ ووہّان میں پھنسے غیر ملکی بھی وزارتِ صحت کے خصوصی حکم نامے پر ہی باہر جاسکتے ہیں۔ یہاں 500 کے قریب پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق 4 پاکستانی نوجوان مبینہ طور پر اس مرض میں مبتلا ہیں۔
صدائے امریکہ (VOA)کے مطابق ووہّان ایک آسیب زدہ شہر بنا ہوا ہے جہاں کاروباری مراکز، دفاتر، ریل، بس، ٹیکسی سروس اور نجی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں، اور فوجیوں کے سوا بہت کم لوگ باہر نظر آتے ہیں۔ لوگ صرف میڈیکل اسٹور جانے یا اشیائے خورونوش خریدنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ ساری تگ و دونزلہ، زکام، کھانسی کی دوا، چہرے کے ماسک اور جراثیم کُش ادویہ کی تلاش میں ہے، جن کی شہر میں شدید قلت ہوگئی ہے۔ لوگوں نے گوشت کے ساتھ کچی سبزیوں سے بھی مکمل پرہیز کرلیا ہے اور اب گزارہ چاول و نوڈلز پر ہورہا ہے۔
اس بحران سے چین کی معیشت متاثر ہوگی جس کے اثرات بازارِ ِحصص میں مندی سے ظاہر ہورہے ہیں۔ چینی بازارِ حصص میں 3 فروری تک سرمایہ کاروں کے 390 ارب ڈالر ڈوب چکے ہیں۔ اتفاق سے یہ چین میں نئے قمری سال کا آغاز بھی ہے جب تقریبات میں شرکت کے لیے ساری دنیا سے سیاح چین آتے ہیں۔ لیکن اِس بار سیاحوں کی آمد 29 فیصد کم رہی۔ معاملہ صرف غیر ملکی سیاحوں تک محدود نہیں، بلکہ چینیوں نے خود بھی اپنی نقل و حرکت ضروری کاموں تک محدود کردی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ریل کے سفر میں 42 فیصد اور سڑک پر ٹریفک 25 فیصد کم ہوگیا ہے۔
لوگ ماسک اور جراثیم کُش ادویہ خرید رہے ہیں۔ بے تحاشا خریداری کی بنا پر چین میں دوائوں اور طبی سامان کی قلت ہوتی نظر آرہی ہے۔ ضروری طبی سامان کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے زرِتلافی (subsidy)کی مد میں اب تک ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں، اور خیال ہے کہ اس باب میں سرکار کا خرچہ 4 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا۔ امریکہ سے تجارتی جنگ کی وجہ سے چینی معیشت پہلے ہی شدید دبائو میں تھی اور اس ناگہانی آفت نے معاملے کو مزید سنگین کردیا ہے۔ اقتصادیات کے علما کا خیال تھا کہ 2020ء میں چینی معیشت کی شرح نمو 5.9 فیصد رہے گی، لیکن اب سیانوں کا خیال ہے کہ اقتصادی حجم میں بڑھوتری 5.8 فیصدیا اس سے کم ہوگی۔
چین کے زیرانتظام خودمختار ریاست مکائو (Macau) بھی ویران ہے۔ مکائو کی وجہِ شہرت اُس کے میکدے، عریاں رقص گاہیں اور جوا خانے ہیں۔کمیونسٹ ریاست میں جوا اور قحبہ گری سنگین جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ چنانچہ چین میں ان افعالِ قبیح کی سختی سے ممانعت ہے، لیکن بیجنگ کے حکمرانوں نے ریاست کی اضافی آمدنی اور شوقین چینیوں کی تفریح کے لیے مکائو میں ان قباحتوں کا اہتمام کردیا ہے، یعنی ’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘۔ یہاں آنے والے 90 فیصد سے زیادہ سیاح چینی ہیں۔ کرونا وائرس کی آفت نازل ہونے کے بعد مکائو آنے والے سیاحوں کی تعداد 69 فیصد رہ گئی ہے۔
اس نامراد وائرس سے چینیوں پر جو قیامت گزر رہی ہے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کے ساری دنیا خاص طور سے پاکستان اور ایشیائی ممالک پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کارخانوں کی بندش اور نقل و حمل محدود ہونے کی بنا پر چین میں تیل کی درآمد 5 لاکھ بیرل یومیہ کم ہوگئی ہے، جس سے سعودی عرب بری طرح متاثر ہے کہ چین سعودی تیل کا سب بڑا خریدار ہے۔ قیمتوں میں استحکام کے لیے خلیجی ممالک نے پیداوار میں 8 لاکھ بیرل روزانہ کٹوتی کا اعلان کیا ہے، لیکن قیمتوں کا زوال جاری رہا اور 3 فروری کو تیل 50 ڈالر بیرل سے بھی سستا ہوگیا۔
ایپل (Apple) نے چین میں اپنی تمام دکانیں بند کردی ہیں۔ چین میں انتہائی مقبول اسٹاربکس کافی، میکڈونلڈ، برگر کنگ اور پیزاہٹ کے ریستورانوں پر بھی تالے پڑے ہیں۔ امریکہ و یورپ کے فیشن ایبل ڈپارٹمنٹل اسٹور ہوں یا کراچی و لاہور کے اتوار و جمعہ بازار… ہر جگہ چینی مصنوعات کی مانگ ہے جن کی ترسیل پر چینی حکومت نے پابندی لگادی ہے۔ اگر یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا تو یہ سارے بازار بھی ویران ہوجائیں گے۔ بدقسمتی سے چین سے آنے والے ارزاں جوتوں، کپڑوں، کھلونوں اور عام استعمال کی اشیا کا کوئی متبادل نہیں۔ جائے نماز، ٹوپی، تسبیح، ثوب و عرب چغے بھی چین سے ہی آتے ہیں۔ گویا چینی معیشت غیر مستحکم ہونے سے کراچی کی زیب النسا اسٹریٹ سے وال اسٹریٹ (نیویارک کا بازارِ حصص) تک ہر منڈی متاثر ہوگی۔
ماہرین اس مہلک وائرس کے پھوٹ پڑنے کی جو وجہ بیان کرتے ہیں اس کی تفصیل اوپر موجود ہے لیکن نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ آفت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے۔ یعنی فش مارکیٹ میں پھیلے خون، گندگی اور مضر صحت ماحول کی وجہ سے بیماری کے جراثیم پہلے سے موجود تھے جسے غیر مرئی حیاتیاتی ہتھکنڈوں سے انسانوں تک سرایت کرنا آسان کردیا گیا۔ یہ شرارت ناممکن تو نہیں، لیکن بلاثبوت و شواہد کچھ کہنا اخلاقی اعتبار سے انتہائی غلط اور صحافتی معیار سے قبل از وقت ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ تفصیل کے لیے www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔