قرضوں کے بوجھ سے نجات کیسے؟۔

حکومت اور ماہرین معیشت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 6 ارب ڈالر کے قرضے کی اگلی قسط کے معاملے پر بات چیت کا آغاز 3 فروری سے ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 45 کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کے لیے معاشی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچی ہے، جس نے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے ملاقات کی ہے۔ اس ٹیم کو چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے بھی ملاقات کرنی تھی تاہم وہ طویل رخصت پر چلے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف وفد حکومتی معاشی ٹیم کے علاوہ توانائی اور ٹیکس اصلاحات کے لیے کام کرنے والی ٹیم سے ملاقات کا متمنی تھا۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے دو اقساط میں 1.44ارب ڈالر مل چکے ہیں۔ وفد نے مذاکرات میں پاکستانی معیشت کے سہ ماہی حالات اور محاصل کا جائزہ لیا ہے۔ اس ملاقات میں حکومت نے محاصل کے لیے نیا نظرثانی شدہ پلان بھی بات چیت کے ایجنڈے کا حصہ بنایا ہے۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین ان مذاکرات کے نتائج اور اثرات کیا ہوں گے، اس بات کا جائزہ لینے سے قبل حکومت کے گزشتہ سال پیش کیے گئے بجٹ کا ایک جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ حکومت کے دعوے کیا تھے اور نتائج کیا ہیں؟ حکومت نے مالی سال2019-20ء کے لیے جو بجٹ دیا تھا اس کی میعاد اب مکمل ہونے میں آخری سہ ماہی باقی ہے، لیکن حکومت اہداف مکمل نہیں کرسکی۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ کا حجم سات ہزار بائیس ارب روپے تھا جس میں وسائل کی فراہمی کا تخمینہ سات ہزار آٹھ سو ننانوے ارب دس کروڑ روپے، اور مجموعی محصولات کی وصولی کا تخمینہ چھ ہزار سات سو سترہ ارب روپے لگایا تھا۔ یوں ایک ارب روپے حکومت کی آمدنی خیال کی گئی تھی۔ اب سال کے آخر میں یہ بات تقریباً ثابت ہوچکی ہے کہ حکومت نے غیر حقیقی بنیادوں پر بجٹ پیش کیا تھا جس میں ایف بی آر کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پانچ ہزار پانچ سو پچاس ارب روپے رکھا گیا تھا جو مجموعی قومی پیداوار کا 12 فیصد تھا، لیکن اب اس میں ترمیم کی جارہی ہے۔ گزشتہ بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے کہ دفاعی اخراجات کسی اضافے کے بغیر ساڑھے گیارہ سو ارب روپے پر برقرار رکھے گئے، گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے تمام عملے کی تنحواہوں میں دس فیصد ایڈہاک اضافہ، اورگریڈ سترہ سے بیس تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافہ کیا گیا، جبکہ گریڈ اکیس اور بائیس کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیاگیا تھا۔ تمام پنشنرز کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ کم سے کم اُجرت بھی بڑھا کر ساڑھے سترہ ہزار روپے کی گئی تھی۔ خصوصی افراد کے لیے کنونس الائونس ایک ہزار روپے سے بڑھاکر دو ہزار روپے کیا گیا تھا، جبکہ وزارتوں اور پارلیمانی سیکرٹریز سے منسلک پرائیویٹ سیکرٹریز کا خصوصی الائونس بڑھا کر پچیس فیصد کیا گیا۔ کابینہ کے ارکان نے اپنی تنخواہوں میں رضا کارانہ طور پر دس فیصد کمی پراتفاق کیا تھا۔ اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ بجٹ میں گردشی قرضے میں 12 ارب روپے فی ماہ کی شرح سے کمی کی گئی اور اس کو 38 ارب روپے کی سطح سے کم کرکے 26 ارب ماہانہ تک لانے کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوا۔ جب اہداف طے کیے جارہے تھے تو حکومت کو علم تھا کہ بجٹ بنانے کے لیے اس وقت چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے ملنے والی مالی امداد نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، اس کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے ایک پروگرام پر دستخط کیے تھے، گویا سارا بجٹ قرض کی بنیاد پر تھا۔ اس کے علاوہ رعایتی نرخوں پر دو سے تین ارب ڈالر کا قرضہ ملا تھا اور سعودی عرب سے مؤخر ادائیگی کی سہولت پر ملنے والے تیل سے حکومت پر دبائو کم ہوا تھا۔ غیر حقیقی بنیادوں پر بجٹ تیار کرکے اب حکومت اس میں مزید ترمیم چاہتی ہے۔ دعویٰ تھا کہ نئے پاکستان میں ٹیکس چوری کے کلچر پر قابو پالیا جائے گا اور سول اور وفاقی اداروں نے اپنے بجٹ میں رضا کارانہ کمی پراتفاق کیا تھا جس کے بعد ان کا بجٹ 460 ارب سے کم کرکے 437 ارب روپے کیاگیا۔ اعلان کیا گیا کہ تین سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے 75 فیصد صارفین کو 216 ارب روپے کی اعانت دی جائے گی۔ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے نئی وزارت تشکیل دی، غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی کی غرض سے دس لاکھ افراد کے لیے راشن کارڈ اسکیم کا اعلان کیا گیا۔ کہا گیا کہ 80 ہزار افراد کو ہرماہ بلاسود قرضے فراہم کیے جائیںگے، پانچ سو کفالت مراکز قائم کیے جائیںگے جہاں معذور افراد کو امداد دی جائے گی، معمرافراد کے لیے احساس ہومز تعمیر کیے جائیںگے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سہ ماہی کی بنیاد پر وظیفے کی رقم پانچ ہزار سے بڑھا کر ساڑھے پانچ ہزار کی جارہی ہے۔ اب آخری سہ ماہی پر اگر جائزہ لیا جائے تو حقائق سامنے ہیں کہ حکومت ان منصوبوں میں کتنی کامیاب ہوئی ہے۔ یہ بھی اعلان ہوا تھا کہ پچاس اضلاع میں لڑکیوں کے لیے وظائف کی رقم ساڑھے سات سو روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کی گئی ہے۔ اس منصوبے کا دائرہ ایک سو اضلاع تک پھیلایا جانا تھا۔ تعلیم، صحت، غذائیت اور پینے کے صاف پانی کے لیے 93 ارب روپے مختص کیے گئے۔ فخر سے بتایا گیا تھا کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضے نہیں لے گی۔ ریل اور سڑکوں کے لیے200 ارب روپے رکھے گئے۔ 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لیے تھے۔ توانائی کے لیے 80 ارب روپے تجویز کیے گئے۔ 55 ارب روپے داسو پن بجلی منصوبے کے لیے تھے۔ بلوچستان کی ترقی کی مد میں کوئٹہ کے ترقیاتی پیکیج کے دوسرے مرحلے کے لیے 10 ارب 40 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ کراچی میں نو ترقیاتی منصوبوں پر ساڑھے پینتالیس ارب روپے خرچ کیے جانے تھے۔ لیکن یہ سب خواب ثابت ہورہا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ پانچ سال میں پچاس لاکھ مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ بتایا گیا کہ اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد میں اراضی حاصل کرلی گئی ہے۔ حکومت نے پیسے اکٹھے کرلیے ہیں اور ان میں سے گیارہ کروڑ روپے اشتہارات پر خرچ بھی ہوچکے ہیں، لیکن منصوبہ وہیں کا وہیں ہے۔ بجٹ میں کامیاب جوان پروگرام دیا گیا جس پر اب عمل کیا جارہا ہے۔ سو ارب روپے کے قرضے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت نے توانائی کے شعبے اور برآمدات کے لیے الگ الگ 40 ارب روپے کا پیکیج دیا۔ زرعی شعبے کے لیے 280 ارب روپے کا پانچ سالہ پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا، مگر حال ہی میں آٹے کا بحران کھڑا ہوگیا اور چینی کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے 44 ارب 80کروڑ روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ زرعی ٹیوب ویلوں پر کسانوں کو چھے روپے پچاسی پیسے فی یونٹ اعانت دی جائیگی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر خصوصی توجہ دی جائیگی اور اس مقصد کے لیے تقریبا دو سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے ایک سو چھپن ارب روپے شاہراہوں کے قومی ادارے کے ذریعے خرچ کی جائیگی حویلیاں تھاکوٹ موٹروے کے لیے 24ارب روپے، برھان ہکلہ موٹروے کے لیے تیرہ ارب روپے اور سکھر ملتان موٹروے کے لیے 19ارب روپے مختص کیے گئے نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت داری سے سوات ایکسپریس وے کو چکدرہ سے باغ ڈھیری تک توسیع دی جائیگی سمبرایال کھاریاں موٹروے تعمیر کی جائیگی اور میانوالی مظفرگڑھ روڈ کو دو رویہ کیا جائیگا مالی سال2019-20 کے دوران ہمارا مقصد ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا ہے سول اخراجات کو چار سو ساٹھ ارب سے کم کرکے 437 ارب روپے کرنے سے ان میں پانچ فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے اگر یہاں حکومت کے حاصل کیے گئے اہداف دیکھے جائیں تو حقائق یہ ہیں کہ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی والی صورت حال ہے یہ وہ وہ پس منظر جس کے ساتھ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام پر جائزہ لے رہی ہے یہ صورت حال باالکل واضح ہے کہ حکومت کے پاس اگلا بجٹ پیش کرنے کے لیے مناسب وسائل دستیاب نہیں ہیں‘ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے آئی ایم ایف وفد جب حکومتی ٹیم سے ملاقات کر رہا تھا عین اسی وقت آٹے کے بعد چینی کے بحران نے سر اٹھا لیا ہے اوپن مارکیٹ میں چینی 90 روپے کلو تک جا پہنچی ہے حکومت نے چینی کا سرکاری ریٹ 70 روپے مقرر کیا ہے اس قیمت پر تو تھوک میں بھی چینی نہیں مل رہی اس وقت مایوسی اور ڈپریشن کی وجہ سے عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ رہا ہے اسی لیے ہر سطح پر بدگمانیاں اور طرح طرح کی افواہیں جنم لے رہی ہیں، یہ وزیراعظم کا فرض ہے کہ وہ گھبرانا نہیں، میں نہیں چھوڑوں گا، کی بجائے اعتماد بحال کریںملک کی حقیقی ترقی تو اگرچہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قومی معیشت مجموعی طور پر بہتر ہو، روزگار کے نئے مواقع مہیا کرنے کے لیے نئی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، زراعت کے جدید طریقے استعمال کرکے زرعی پیداوار بڑھائی جائے، برآمدات میں اضافے کے ذریعے تجارت کا توازن درست کیا جائے اور یوں حقیقی قومی آمدنی بڑھائی جائے تاہم حکومت کے ابتدائی ڈیڑھ برس میں ایسا نہیں ہو سکا حکومت نے ملکی کرنسی کی قدر میں کمی جیسے اقدامات کیے‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھا کر اور نئے ٹیکس لگا کر حکومت کی آمدنی اور خرچ کے فرق کو کم کرنے کے بھی اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے حکومت مسلسل نئے قرضے لے رہی ہے قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ 15ماہ کے عرصے میں پاکستان کے سرکاری قرض و واجبات میں 40فیصد اضافہ ہو گیا ہے جو بڑے پیمانے پر قرضوں کے حصول کی حد سے تجاوز اور فسکل ریسپانسبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ (ایف آر ڈی ایل ایکٹ) کی خلاف ورزی ہے رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018ء کے اختتام پر مجموعی قرض اور واجبات 290کھرب 87ارب 90کروڑ روپے تھے جو ستمبر 2019ء تک 410کھرب 48ارب 90کروڑ روپے سے تجاوز کر گئے یعنی اس میں 39فیصد یا 110کھرب 60ارب روپے کا اضافہ ہوا مالی سال 2019ء کے اختتام تک مجموعی قرض اور واجبات میں 35فیصد یا 100کھرب 34ارب 40کروڑ روپے کا اضافہ ہوا اور یہ 402کھرب 23ارب 30کروڑ روپے تک پہنچ گیا حالات کا اس حد تک پہنچنا ناگزیر تھا یا بہتر معاشی حکمتِ عملی اپنا کر اس سے بچا جاسکتا تھا؟ حکومتی ٹیم کی جانب سے اس سوال پر ملک کے ممتاز ماہرین معیشت سے مشاورت کی جانی چاہیے اور پارلیمنٹ بھی معاملات کا جائزہ لے کر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافے سے ملک کو بچانے کی تدابیر تلاش کرنی چاہئیں۔ تاہم ان حالات کے سبب بیروزگاری اور مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس نے کم آمدنی والے ہی نہیں بالائی متوسط طبقات تک کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ دشوار بنا دیا ہے وزیراعظم عمران خان نے احساس پروگرام کے تحت 2کھرب روپے کی لاگت سے ملک کے سب سے بڑے فلاحی پروگرام کا آغاز کرکے بلاشبہ ایک قدم اٹھایا ہے لیکن قوم تو نتائج مانگ رہی ہے اس پروگرام کے تحت ملک کی 70لاکھ مستحق خواتین کو کفالت کارڈ کے ذریعے ماہانہ 2ہزار روپے ملیں گے یہ رقم بینظیر انکم سپورٹ کے مقابلے میں دگنی ہے مستحق خواتین کو معاشی سرگرمی کا حصہ بنانے کے لیے گائے بھینسیں بھی فراہم کی جائیں گی اور کفالت کارڈ پر یوٹیلٹی اسٹوروں سے راشن بھی دیا جائے گا اصلاحات کے حکومتی دعوے اپنی جگہ‘ مثبت نتائج ہی معتبر قرار پائیں گے۔