اس وقت ریاست پاکستان کی پالیسی بھارت نوازی سے لچکی ہوئی شاخ کی مانند ہے، اور بھارت کے بجائے حکومتِ پاکستان کو للکارنے اور جگانے کی زیادہ ضرورت ہے
۔1970ء اور 1980ء کی دہائیاں کشمیر میں امید اور مایوسی سے عبارت ہیں۔ ان دونوں دہائیوں میں گرد وپیش میں اور خود کشمیر کے اندر پیش آنے والے کچھ سیاسی واقعات نے کشمیریوں کو پہلے مایوسی کی گہرائیوں میں دھکیلا، پھر یکایک وہ امید کی کہکشائوں میں سفر کرنے لگے۔ ستّر کی دہائی میں سقوطِ ڈھاکہ نے کشمیریوں کے اعصاب شل کرنے اور انہیں گرد وپیش اور مستقبل سے مایوس کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس مایوسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں کے سب سے مقبول اور سربرآوردہ لیڈر شیخ عبداللہ اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد ترک کرکے نئی دہلی کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے حقِ خود ارادیت کا مؤقف ترک کرکے کشمیر پر بھارت کے کنٹرول کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ کشمیریوں کی مایوسی کا ایک اہم مقام تھا جب انہیں یہ یقین ہوگیا کہ اب پاکستان ان کی مدد کی پوزیشن میں نہیں رہا، اس لیے انہیں دہلی کے ساتھ کشمکش کے ماحول کے بجائے تسلیم ورضا کے ساتھ دن گزارنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس ماحول میں بھی گو کہ امید پرست طبقہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھا مگر وہ کشمیری سماج کا مرکزی دھارا نہیں تھا۔ اس سماج کا مرکزی دھارا شیخ عبداللہ کی ذات اور جماعت تھی جو اب بھارت کے ساتھ صلح کرچکی تھی۔
اسّی کی دہائی میں اس مایوسی نے ایک نئے زاویے میں سفر کرنا شروع کیا۔ انقلابِ ایران اور جہادِ افغانستان وقت کی دو اہم سپر طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین کے خلاف برپا ہوئے۔ دونوں تحریکوں نے کشمیریوں کی مایوسی کو نئی امید میں بدل دیا۔ اس سے پہلے کشمیر پر فلسطین کی جدوجہد کے اثرات تھے۔ محمد مقبول بٹ اور اُن کے ساتھی کشمیری نیشنل ازم کی بنیاد پر یاسر عرفات، بن بیلا وغیرہ کو آئیڈیلائز کررہے تھے۔ ایران اور افغانستان کی تحریکوں کے بعد کشمیر میں اسلامی سوچ کی بنا پر جدوجہد کا نیا ڈھنگ اختیار کرنے کی سوچ اُبھرتی چلی گئی۔ اسّی کی دہائی کے وسط میں کشمیر کی ایک اہم طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ ایرانی انقلاب کے اثرات کی زد میں آچکی تھی۔ شیخ تجمل الاسلام (حال ڈائریکٹر کشمیر میڈیا سروس اسلام آباد) کی قیادت میں اس طلبہ تنظیم نے کشمیر میں ایرانی طرز کا انقلاب برپا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک عالمی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ اُس وقت ایران میں بھی انقلاب کو برآمد کرنے کی سوچ تقویت پکڑ رہی تھی جو ایران سے باہر اپنے اثرات ظاہر کرنے لگی تھی۔ بھارت نے اس کانفرنس کو بزور طاقت روک دیا، اور یوں شیخ تجمل اور اُن کے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے،کچھ جلاوطن اور کچھ زیر زمین چلے گئے۔ اسی دوران ایک سرگرم سیاسی کارکن عبدالمجید ڈار نے 1982ء میں ہی افغان جہادی گروپ حزبِ اسلامی کی پیروی کرتے ہوئے حزبِ اسلامی کشمیر کے نام سے ایک زیر زمین گروپ تشکیل دے کر اخبارات کو بیان جاری کرنا شروع کیے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ کشمیریوں کا ایک طبقہ آہستہ روی کے ساتھ افغان جہاد کے اثرات کو قبول کرتا جارہا ہے۔ یہ مجید ڈار وہی تھے جو بعد ازاں حزب المجاہدین کے چیف کمانڈر بنے اور 2000ء میں انہوں نے بھارت کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ اُدھر محمد مقبول بٹ اور اُن کے ساتھی مائو، چی گویرا، بن بیلا، یاسر عرفات، عمر مختار، لیلیٰ خالد سمیت اُس دور کی مقبول تحریکوں کو آئیڈیلائز کرتے اور انہی کے اثرات کے تحت اپنے راستے پر گامزن تھے۔
یہ سارے حالات و واقعات کشمیر میں ذہنوں اور دلوں پر اپنے اثرات مرتب کررہے تھے۔جس طرح ستّر کی دہائی میں سقوطِ ڈھاکہ اور اندرا عبداللہ ایکارڈ نے کشمیریوں کی مایوسی کو انتہا پر پہنچا دیا تھا، اسی طرح اسّی کی دہائی میں مقبول بٹ کی پھانسی اور مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے دو اہم واقعات نے کشمیریوں کو امید کے نئے راستوں پر ڈال دیا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ وہ وقت اور حالات کا دھارا بدل سکتے ہیں کیونکہ بھارت سوویت یونین اور امریکہ سے بڑی طاقت نہیں۔ جس طرح اندرا عبداللہ ایکارڈ سقوطِ ڈھاکہ کا نتیجہ تھا، بالکل اسی طرح مسلم متحدہ محاذ کا قیام مقبول بٹ کی شہادت کا غیر محسوس نتیجہ تھا۔ وہ سارا غصہ، سارا انتقام اور ساری مایوسی جو مقبول بٹ کی شہادت سے کشمیریوں کی روح کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی، مسلم متحدہ محاذ کی صورت میں انڈیل دی گئی، اور اس کے بعد سوچوں کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوگیا۔
جنرل ضیاء الحق خطے میں اپنے ایجنڈے پر کاربند تھے۔ وہ افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد ذہن میں اپنا نقشہ سجائے بیٹھے تھے، جبکہ امریکیوں کا ایجنڈا اور نقشہ اس سے یکسر جدا تھا۔ بھارت سیاچن پر قبضے کے بعد وولر بیراج سمیت پاکستان کے پانیوں پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ اسلام آباد میں بھارت کو سوئی چبھونے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی، مگر کشمیر کے سیاسی ماحول کو عسکری میں بدلنا خاصا مشکل تھا۔ مسلم متحدہ محاذ کی انتخابات میں شکست نے یہ مشکل آسان کردی۔ یوں کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ کوئی منظم جماعت اس جدوجہد کی حمایت نہیں کررہی تھی، البتہ نوجوانوں کے غیر منظم اور غیر معروف گروہوں نے جنہیں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی چھتری حاصل ہوگئی، اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔
اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوگیا۔ بھارت نے مسلح جدوجہد کا ابتدائی تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا۔ درجنوں نوجوان گرفتار ہوگئے۔ چند ایک کنٹرول لائن عبور کرکے آزادکشمیر آگئے۔ ان میں سے کئی ایک کو آزاد کشمیر پولیس نے نظربند کردیا۔ پاکستان کے کارپردازان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ جنرل ضیاء اور اختر عبدالرحمان کے بوئے گئے اس بیج سے جو کونپل پھوٹی ہے اس کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے؟ ایک سوچ یہ تھی کہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، اور دوسری سوچ یہ کہ اس کی آبیاری کی جائے۔ صدر غلام اسحاق خان کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو، جنرل مرزا اسلم بیگ، اور صدر آزادکشمیر سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے جہاں اس کونپل کی آبیاری اور جنرل ضیاء کی سرپرستی کو تسلسل دینے کا حتمی فیصلہ ہوا۔ یوں کشمیر میں مسلح جدوجہد نے ایک نئی کروٹ لی۔ نوجوانوں کے کئی نئے گروہ عسکری تربیت کے لیے آزاد کشمیر کا رخ کرنے لگے۔ نہ صرف یہ کہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی سرگرمیوں میں شدت آگئی بلکہ کئی نئے عسکری گروپ بھی قائم ہونے لگے۔ اس دوران اسٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ نے اُس دور کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی ڈاکٹر ربیعہ سعید کو سری نگر کے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے اغوا کرکے سوپور کے ایک گھر میں چھپا دیا۔ سرد موسم تھا اور کشمیر کے پہاڑ برف سے ڈھک چکے تھے۔ مرکزی وزیر داخلہ کی بیٹی کا اغوا بھارت کے قومی وجود اور اَنا کے لیے ایک چیلنج تھا۔ بھارت نے ڈاکٹر ربیعہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جس میں سب سے اہم طریقہ لوگوں کو گھروں سے نکال کر خانہ تلاشی کا عمل تھا۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو برفانی راتوں اور برفانی راستوں میں کھڑا کرکے ان کی اَنا کو زخمی کیا جاتا۔ کشمیریوں کی اس زخمی اَنا نے جب ردعمل کا روپ دھارا تو وہ ان دریائی جلوسوں میں ڈھل گیا جن میں دس دس لاکھ سے زیادہ افراد بھی شریک ہونے لگے۔ یوں کشمیریوں کی مجروح اَنا نے ایک باقاعدہ مزاحمت، بغاوت اور سول نافرمانی کی تحریک کا روپ دھارا۔ ہر نوجوان انتقام میں بندوق کا متلاشی ہوگیا۔ اِدھر آزاد کشمیر ریڈیو ’’سرحد پار جائیں گے،کلاشنکوف لائیں گے‘‘ جیسے انقلاب آفرین ترانوں سے ردعمل کے شعلوں کو فلک بوس بنا رہا تھا۔ اس ماحول میں ہزاروں نوجوانوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر، غصے اور انتقام میں کنٹرول لائن عبور کرکے آزادکشمیر پہنچنا شروع کردیا۔ ریاستی اداروں کی احتیاطی تدابیر دھری کی دھری رہ گئیں۔کشمیری نوجوانوں کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ سیکڑوں افراد کے قافلے کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کے ساتھ مڈبھیڑ کے نتیجے میں لٹ پٹ کر مظفر آباد پہنچتے، اور ان میں اگر کوئی قافلہ بہ حفاظت بھی پہنچتا تو اسے خوراک اور لباس کی ضرورت ہوتی۔ آزادکشمیر حکومت اس صورتِ حال سے قطعی لاتعلق تھی۔ جن ریاستی اداروں نے یہ کام اپنے ذمے لے رکھا تھا ان کی تیاریاں بھی محدود تھیں۔ وہ کشمیر کے برف زاروں میں چھپے آتش فشاں کی شدت اور سنگینی سے بے خبر تھے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ کشمیری اس قدر قوت سے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس لیے ان کا ’’حسن ِانتظام‘‘ بھی اس نئی صورتِ حال میں جواب دے رہا تھا۔ ایسے میں قاضی حسین احمد مرحوم نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں افراد بھارتی مظالم سے تنگ آکر آزاد کشمیر پہنچ رہے ہیں، حکومتیں ان کی مدد نہیں کررہیں، قوم آگے بڑھ کر ان کی مدد کرے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے عام ہڑتال کی اپیل کی۔ اس ہڑتال پر کشمیر سے پہلا ردعمل ایک معروف کمانڈر محمد احسن ڈار کی طرف سے آیا جنہوں نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے کیونکہ ہمیں سرحد پار سے اخلاقی مدد ملنا شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نوازشریف اور بعد ازاں وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس طرح پانچ فروری کشمیریوں کی جدید تحریک سے یک جہتی کے لیے ایک رسم و ریت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ لیکن دنیا میں آنے والی ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں اور ترقی نے عوام کے شعور کی سطح خاصی بلند کی ہے۔کشمیری یوں بھی مزاجاً جذباتی سہی، مگر شعور اور آگہی میں دنیا کی کسی بھی ذہین قوم کے ہم پلہ ہیں۔ نابغۂ روزگار حضرت علامہ اقبال نے یوں بے سبب اس قوم کو ’’قومِ نجیب و چرب ودست و تر دماغ ‘‘ نہیں کہا تھا۔ یہ اس قوم کو علامہ کا خراج تحسین اور اس کی ذہانت کے آگے سرِتسلیم خم کرنے کے مترادف تھا۔ اس لیے ایسی قوم کو طفل تسلیوں سے زیادہ عرصے تک بہلایا نہیں جا سکتا۔ اس وقت ریاست پاکستان کی پالیسی بھارت نوازی سے لچکی ہوئی شاخ کی مانند ہے، اور بھارت کے بجائے حکومتِ پاکستان کو للکارنے اور جگانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ کشمیریوں کا بھارت سے گلے شکووں کا کوئی رشتہ وتعلق ہی قائم نہیں۔ وادیِ کشمیر کا عام مسلمان بھارت کو غاصب سمجھتا تھا اور سمجھتا رہے گا۔ وہ اپنے اس ’’فہمِ بھارت‘‘کی قیمت عشروں سے چکا رہا ہے۔ بھارت اسے لاکھ اپنا کہے، اٹوٹ انگ سمجھے، اس کی جیب میں گاندھی جی کی تصویروں والے نوٹ اور ہاتھ میں ری پبلک آف انڈیا نام کا سیاہ پاسپورٹ زبردستی تھما دے، مگر کشمیریوں کا دل ہندوستانی نہیں بن سکتا۔ یہ بات بھارت کو پوری طرح معلوم ہے۔ اس لیے کشمیر کا عام آدمی بھارت کے ساتھ ایک جبری ناتے میں بندھا ہوا ہے، مگر کشمیریوں کو پاکستان سے ہر دور میں بے شمار توقعات رہی ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلے کا فریق رہا ہے۔گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارت کی سخت گیر ہندو حکومت نے بھارتی آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی شناخت کو ختم کردیا۔ اس طرح بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت اور امتیازی حیثیت کی ان تمام ضمانتوں کو گنگا کی موجوں کی نذر کردیا جو اب برائے نام ہی باقی رہ گئی تھیں۔ کشمیر کا آئین جو بھارتی حکومت کے اقدامات کی راہ میں ایک کمزور ہی سہی، مگر اسپیڈ بریکر کا کام دیتا تھا، کیونکہ بھارتی پارلیمنٹ کا کوئی بھی قانون اُس وقت تک کشمیر پر لاگو نہیں ہوسکتا تھا جب تک کشمیر اسمبلی اس کی منظوری یا توسیع کا فیصلہ نہ کرتی تھی۔ مودی حکومت نے یہ اسپیڈ بریکر بھی اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اس نئی صورتِ حال کے بعد یہ پہلا یوم یکجہتی تھا جو پاکستان سے نہایت منظم اور مربوط کشمیر پالیسی کی تشکیل کا متقاضی ہے۔ پانچ اگست سے پہلے کشمیر مگرمچھ کے جبڑوں میں تھا، اس فیصلے کے بعد گلے تک پہنچ گیا ہے۔ مگر اسے گلے کی ہڈی بنانے سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو اسے اُگلنے پر مجبور کردیا جائے۔