مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکی اور عالمی برادری

کشمیریوں کی پُرامن سیاسی جدوجہد نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے

یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ کشمیریوں کی پُرامن سیاسی جدوجہد نے اس مقدمے کو عالمی حیثیت دے کر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ جو لوگ اسے محض ایک مخصوص گروہ کی مسلح جدوجہد کے طور پر دیکھ رہے تھے اب وہ بھی اس جدوجہد کو ایک منظم اور طویل سیاسی جدوجہد ہی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ کریڈٹ پچھلے چند برسوں میں کشمیری نوجوان نسل کو دینا ہوگا جن کی مزاحمت نے دنیا میں رائے عامہ بنانے والے اہم اداروں اور پالیسی سازوںکو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ پچھلے ایک برس میں جس شدت اور تواتر کے ساتھ عالمی میڈیا نے کشمیری عوام کی سیاسی جدوجہد اور بھارت بالخصوص مودی حکومت کی مقبوضہ کشمیر میں فسطائیت اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کو بے نقاب کیا ہے اس نے عملی طور پر کشمیری عوام کی جدوجہد کو ایک نئی اور طاقت ور جہت دی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا سیاسی اورانسانی حقوق کا مقدمہ پہلے ہی بہت کمزور تھا، لیکن نریندر مودی اور آر ایس ایس کے باہمی گٹھ جوڑ اور ہندوتوا کی سیاست کو داد دینا ہوگی کہ ان کی سخت گیر پالیسی نے دنیا میں بھارت کو سیاسی طور پر تنہا کردیا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آئین کی شق 370 اور35-Aکے خاتمے، طویل مدت سے جاری کرفیو اور انسانی حقوق کی پامالی نے خود بھارت کی داخلی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ مذہب اور فرقوں سے بالاتر ہوکر بھارت کے معروف لوگوں نے جس شدت سے مودی کی کشمیر پالیسی کو چیلنج کیا ہے وہ خود ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے حامی تھے وہ بھی اس وقت مودی سرکار کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے جیل میں ہیں یا ان کو بھی دیوار سے لگادیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کئی گئی تقریر اور مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر دنیا کے سامنے ایک مؤثر سیاسی بیانیے نے یقینی طور پر کشمیریوں کو ایک نئی امید اور حوصلہ دیا ہے کہ پاکستان سیاسی اورسفارتی محاذ پر ان کی پشت پر کھڑا ہے۔ اس وقت دنیا میں کوئی بھی ایسا فورم نہیں جو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اوربھارت کی جانب سے سفاکی کو چیلنج نہ کررہا ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ، گلوبل پیس نیٹ ورک، یورپی یونین، او آئی سی، اقوام متحدہ، امریکہ کی انسانی حقوق سے منسلک کمیٹی سمیت سبھی عالمی ادارے مودی کی کشمیر پالیسی کو چیلنج کررہے ہیں، جو خود پاکستان کی ایک بڑی سیاسی اور سفارتی کامیابی ہے۔کیونکہ جب ہم اصولی طور پر یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ہر صورت میں مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر لڑنا ہے تو اس کی کلید بھارت، مودی اورآر ایس ایس کا باہمی ایجنڈا دنیا میں بے نقاب کرنا ہے۔
ہمیں اصولی طور پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری ڈپلومیسی کو داد دینی ہوگی کہ اس نے باہمی اتفاق سے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ایک مؤثر جنگ لڑی ہے۔ اس کا اعتراف مقبوضہ کشمیر کی ہر سطح کی قیادت کی جانب سے بھی کیا جارہا ہے جن میں محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ سمیت بھارت میں موجود اہلِ دانش بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول مودی کی نفرت پر مبنی سیاست نے کشمیری مقدمے کو کشمیریوں کے حق اور بھارت کی مخالفت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ عالمی طاقتیں عملی طور پر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکیں، لیکن امریکہ کی جانب سے بار بار ثالث کے طور پر سامنے آنا خود ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ عملی طور پر اس وقت بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بڑھتے ہوئے دبائو کو کم کیا جائے اور رائے عامہ کی سوچ اور فکر کو کشمیر کی صورت حال سے ہٹایا جائے۔
پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ اس وقت سفارت کاری کی سطح پر ہم نے اپنا ایک سافٹ امیج دنیا میں پیش کیا ہے اور اس کا اعتراف بھی دنیا میں کیا جارہا ہے۔ ہمیں اپنی سیاسی اور سفارتی سطح پر جاری پالیسی میں کسی بڑی شدت پسندی کے بجائے مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں خود بھارت کی داخلی پالیسی میں موجود تضادات کو اجاگر کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم جتنی زیادہ فعالیت کشمیر پالیسی پر دکھائیں گے اتنا ہی بھارت کو دبائو میں لایا جاسکتا ہے۔ بھارت میں کشمیر کی صورت حال پر مودی پر جو تنقید یا مزاحمت ہورہی ہے اسے بھی اپنے حق میں استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر بھارت کو عالمی برادری میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان کو بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے تناظر میں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنے سیاسی بیانیے کو طاقت دینی ہے، اور یہ کام علمی اور فکری بنیادوں پر کرنا ہوگا۔ اس میں ہماری سرکاری اور غیر سرکاری جامعات کے محققین کا بڑا کردار بنتا ہے کہ وہ اپنی دانش سے ایسا فکری مواد سامنے لائیں جو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو شواہد اور دلیل کی بنیاد پر سب کے سامنے پیش کرکے کشمیری عوام کی جدوجہد کو کامیاب بنائے۔ کیونکہ کشمیر کا مسئلہ محض کشمیر کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے تانے بانے پاک بھارت تعلقات سمیت خطے کی سلامتی اور استحکام کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں سفارتی محاذ پر دنیا کی بڑی طاقتوں کو باور کرانا ہوگا کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی سیاسی اور انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں۔ ہمیں اس فکر سے بھی گریز کرنا ہوگا کہ ریاست پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر کوئی سودے بازی کرلی ہے۔ کیونکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کشمیر کے مسئلے سے جڑی ہوئی ہے اور ہم اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اس لیے مایوسی پھیلانے یا ریاست پر عدم اعتماد کرنے کے بجائے ہمیں مؤثر انداز میں مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا حصہ بھی ڈالنا ہوگا۔