تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ……۔
دو چھوٹی چھوٹی خبروں نے اہلِ دانش کو پریشان کردیا ہے۔ اگرچہ عام آدمی بھی ان خبروں سے تشویش اور پریشانی کا شکار ہے، لیکن حساس اہلِ دانش تو دل مسوس کر رہ گئے ہیں۔ ایک خبر وزیراعظم کی تنخواہ یا معاوضے میں 6 لاکھ روپے ماہانہ کے اضافے کی ہے، اور دوسری یہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں میں بعض سیاست دان، سیاسی کارکن اور گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران شامل ہیں، جنہوں نے اپنی بیگمات کے ناموں پر خیرات کی یہ رقم بھی اپنے گھر لے جانے میں کوئی تعرض نہیں برتا۔ دوسری خبر میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ماضی میں خیرات کی اس گنگا سے مستفید ہونے والوں کے خلاف انکوائری اور کارروائی کی جارہی ہے۔ اگرچہ اس کی امید کم ہے اور ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسی انکوائریاں آخر میں’’ مٹی پائو‘‘ پالیسی کے تحت دبا دی جاتی ہیں، تاہم پہلی خبر کے سلسلے میں کسی کو انکوائری یا کارروائی کی اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ مستقبل کی حکومتیں اس بارے میں مؤثر بہ ماضی کوئی کارروائی یا انکوائری کرسکیں گی یا نہیں۔ ویسے لگتا یہی ہے کہ مستقبل کے حکمران بھی نہ صرف اس گنگا میں نہانے پر اکتفا کرلیں گے بلکہ اس میں مزید اضافے کی کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ ملک میں جمہوری نظام مضبوط تر ہوسکے۔
یہ خبریں پڑھتے ہوئے مجھے محمد بن عروہ بہت یاد آرہے ہیں جو خلیفہ پنجم حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ساتھی اور اس سنہری دور کا ایک زندۂ جاوید کردار تھے۔ محمد بن عروہ کو خلیفہ المسلمین نے یمن کا گورنر بناکر بھیجا جو اُس وقت سیاسی و معاشی ابتری کا شکار تھا۔ محمد بن عروہ یمن کے گورنر کے طور پر اس خرابیدہ حال صوبے کے دارالحکومت پہنچے تو سارا شہر استقبال کے لیے آیا ہوا تھا، اور توقع کررہا تھا کہ نئے گورنر مقامی لوگوں سے خطاب کریں گے، انہیں اپنے مقاصد، منصوبوں اور حکمتِ عملی سے آگاہ کریں گے، اور اس راہ میں حائل ہونے والوں کے لیے اپنی پالیسی واضح کریں گے۔ خیال تھا کہ وہ استقبال کے لیے آنے والوں سے تفصیلی خطاب کریں گے۔ لوگ ان خیالات میں گم تھے کہ اونٹ پر سوار محمد بن عروہ مجمع کے سامنے پہنچ گئے۔ نعروں سے استقبال بھی ہوا، مگر لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی کہ انہوں نے گھنٹوں سے منتظر استقبالی لوگوں سے صرف ایک جملے کا خطاب کیا۔ انہوں نے کہا ’’لوگو! میں جس سواری پر تمہارے پاس آیا ہوں یہ میری ملکیت ہے، اگر یہاں اس سے زیادہ کچھ لے کر میں واپس پلٹا تو مجھے خائن اور چور سمجھنا‘‘۔ یہ واحد جملہ مکمل کرکے محمد بن عروہ آگے بڑھ گئے اور اپنا کام شروع کردیا۔ یمن میں اُن کا دورِ حکومت مثالی دور سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے یمن کو خوشحالی و ترقی کا مرکز بنادیا۔ مثالی امن اور نظم و نسق قائم کیا۔ شہریوں کو امن، تحفظ اور انصاف ملنا اتنا آسان ہوگیا کہ دوسرے علاقوں کے لوگ مثالیں دینے لگے۔ جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورے کرکے لوٹ رہے تھے، لوگ اُن کے فراق میں آنسو بہا رہے تھے۔ لوگوں کا جم غفیر انہیں رخصت کرنے کے لیے موجود تھا۔ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اظہارِ تشکر کے علاوہ اپنی کارکردگی بتائیں گے اور داد سمیٹیں گے۔ لیکن انہوں نے اِس بار بھی ایک جملے پر مبنی تقریر کی اور آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے کہا: ’’لوگو! میں اپنی ملکیتی سواری پر یہاں آیا تھا، اسی پر واپس جارہا ہوں، میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
محمد بن عروہ کے یہ جملے مسلم تاریخ ہی نہیں انسانی تاریخ کی پیشانی پر تاقیامت سنہرے حروف سے لکھے رہیں گے۔
اسی محمد بن عروہ کے وارثوں کا حال آج پوری دنیا کے سامنے ہے کہ جس وزیراعظم کا اقتدار میں آنے کے بعد ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے خرچ نہیں ہوتا اُس نے اپنی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے کا اضافہ کرلیا اور اب بھی دعویٰ ریاست مدینہ کا ہے۔ وفاقی کابینہ اپنے اجلاسوں میں سابق حکمرانوں پر اٹھنے والے اخراجات کو میڈیا میں اچھال رہی ہے۔ کابینہ کی ترجمان یہ رقم سابقہ حکمرانوں سے واپس لینے کا اعلان کررہی ہے مگر کسی کو توفیق نہیں ہورہی کہ اپنے وزیراعظم کو تنخواہ میں اضافہ کرنے سے روکے۔ دوسری جانب ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے اپنی سیکورٹی پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔ اپنی بڑی بڑی رہائش گاہوں کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر وہاں سرکاری خزانے سے بے پناہ اخراجات کرائے۔ سرکاری گاڑیوں کے لمبے چوڑے بیڑے اپنے ذاتی اور خاندانی استعمال میں لائے، اور اپنے اپنے اقتدار کے دنوں میں اپنے کاروبار اور دولت میں کئی کئی سو گنا اضافہ کرلیا۔
ہمارے حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ نام تو ریاست مدینہ کا لیتے ہیں، اپنے لیے قابلِ تقلید ہستی نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیتے ہیں، یا طرزِ حکمرانی کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کی مثال دیتے ہیں، لیکن خود وہ سب کام کرتے ہیں جو سابقہ حکمران کرتے رہے ہیں۔ نئے حکمران اپنے سابقین کو الزام دیتے ہیں کہ اُن کی وجہ سے حالات خراب ہیں، اور خود نہ تو ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں اور نہ ہی سابقہ حکمرانوں کی روش کو ترک کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس ہیں کہ پنجاب حکومت اپنا کام خود کیوں نہیں کرتی۔ سابقہ حکومت کی بنائی ہوئی 56 کمپنیاں بند کیوں نہیں کی جارہیں؟ یاد رہے کہ موجودہ حکمران ان 56 کمپنیوں کے سخت ناقد تھے، مگر آج یہ کمپنیاں اسی حکومت کی نگرانی میں چل رہی ہیں۔ شاید یہ حکمران بھی گھر جائیں تو ان کی دولت میں اضافے کی داستانیں عام ہوں۔ کاش حکمران محمد بن عروہ کے طرزِ حکمرانی کو سامنے رکھیں۔