سوشل میڈیا کی جکڑی بندی کا منصوبہ’’پیمرا‘‘ دستاویز کا اجرا

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اپنی ویب سائٹ پر ایک دستاویز اَپ لوڈ کی ہے جس کا نام ’’پروپوزل آن ریگولیٹنگ ویب ٹی وی اینڈ اوور دی ٹاپ ٹی وی (Over the top tv)‘‘ ہے۔ اس دستاویز میں ریگولیٹری ہدایات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا تعلق ویب ٹی وی کی لائسنسنگ، انسپکشن، ان پر شائع ہونے والے مواد اور چینلز کے خلاف شکایات درج کروانے کے طریقہ کار سے ہے۔ اس دستاویز میں ویب ٹی وی کسی بھی ایسی آن لائن سروس کو کہا گیا ہے جو ٹی وی چینلز کے متوازی مواد بناکر نشر کرتی ہو، یعنی ایسے سوشل میڈیا چینلز جو فلمیں، ڈرامے، ڈاکومنٹریز، گانے یا دیگر موضوعات پر ویڈیوز بناکر نشر کرتے ہوں۔ اوور دی ٹاپ ٹی وی (OTT) ان آن لائن سروسز کو کہا گیا ہے جہاں صارفین مخصوص فیس ادا کرکے ان کے مواد تک رسائی حاصل کرتے ہوں۔ اس کی آسان مثال نیٹ فلکس (Netflix) جیسی اسٹریمنگ سروسز ہوسکتی ہیں۔ پیمرا کی جانب سے جاری کردہ دستاویز کے مطابق ان دونوں طرح کی آن لائن سروسز کو حکومت سے لائسنس لینا ہوگا۔ لائسنس کن لوگوں کو دئیے جائیں گے، ان کی اہلیت کے لیے بھی شرائط کی ایک لمبی فہرست فراہم کی گئی ہے، لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لائسنسنگ فیس بھی مقرر کی گئی ہے۔ او ٹی ٹی سروس کے لیے لائسنسنگ فیس 50 لاکھ روپے، جبکہ حالاتِ حاضرہ پر ویڈیو بنانے کے لیے ویب ٹی وی فیس ایک کروڑ روپے ادا کرنا پڑے گی۔ اگر ویب ٹی وی پر حالاتِ حاضرہ زیر بحث نہ لائے جائیں تو 50 لاکھ روپے کی رعایت ہوگی اور 50لاکھ روپے فیس ادا کرنا پڑے گی۔ پیمرا دستاویز میں اس لائسنس فیس کی منطق یہ بتائی گئی ہے کہ انٹرنیٹ پر چلنے والے ویب ٹی وی روایتی چینلز سے مسابقتی مواد بناتے ہیں، روایتی ٹی وی چینلز پر کوڈ آف کنڈکٹ لاگو ہوتا ہے اور انہیں لائسنسنگ فیس بھی ادا کرنا پڑتی ہے، ویب ٹی وی چینلز اسی طرح اشتہارات سے پیسہ تو بناتے ہیں لیکن ان پر کوئی فیس لاگو ہے نہ کوڈ آف کنڈکٹ۔ پیمرا کی جانب سے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اس دستاویز پر 14 فروری تک اپنی تجاویز فراہم کردیں۔
اسی نوعیت کا ایک کیس ہائی کورٹ میں پہلے سے زیرسماعت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اینکرز کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہورہی ہے۔ یہ کیس دراصل عدلیہ میں زیرسماعت مقدمات کی میڈیا میں تشہیر سے متعلق ہے۔ اس کیس کا پس منظر یہ ہے کہ متعدد ٹی وی چینلز نے نوازشریف کی درخواست ضمانت پر میڈیا میں بحث کی تھی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا یوٹیوب چینل چلانے والوں پر بھی قانون کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ سنیچر کو اینکرز کے توہینِ عدالت مقدمے میں عدالتی معاون سینئر صحافی ضیاء الدین نے جاوید جبار کی جانب سے جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جتنے بھی قوانین دنیا میں بنے اُن کے لحاظ سے یہ بھی دیکھنا ہے کہ ملزمان کو فیئر ٹرائل ملنا چاہیے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا یوٹیوب پر اپنا چینل چلانے والوں پر قانون کا اطلاق ہوتا ہے؟ اینکر حامد میر نے جواب دیا کہ سائبر قوانین موجود ہیں، ان پر عمل درآمد ہوسکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرائم کو یوٹیوب تک کیسے لے جاسکتے ہیں۔ ایک پٹیشن میں مجھے بتایا گیا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا رپورٹرز کے لیے ریگولیٹر نہیں ہیں، اور صحافیوں پر ریگولیٹر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ رٹ میں بتایا گیا کہ وکیل بھی ریگولیٹر کے نیچے ہیں، لیکن صحافیوں کے لیے ایسا کچھ نہیں۔ عدالت کو ایک وکیل نے بتایا کہ زیر التوا مقدمات کی سماعت کی کس حد تک رپورٹنگ ہوسکتی ہے عدالت فیصلہ کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے آزادیِ اظہارِ رائے کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہے۔ ’’ہم بھی انسان ہیں، جو میڈیا کہتا ہے اس کا اثر ہم پر بھی ہوتا ہے۔ ایک جج کے لیے سخت کوڈ آف کنڈکٹ امام ابوحنیفہ کی جانب سے دیا گیا ہے۔‘‘چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ان کو سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا کہ کیس ہمارے پاس آنے سے پہلے لوگ ملزم کو مجرم بنادیتے ہیں۔ اینکر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا سوشل میڈیا کے حوالے سے ڈریکولین لاز سامنے لا رہا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کو سب سے زیادہ نقصان ڈریکولین لاز سے ہوتا ہے، کسی پر بہتان لگانے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر صحیح عمل نہیں ہورہا۔ عدالت نے معاون آئی اے رحمان کو بھی آئندہ سماعت تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی اور کہا کہ پی بی اے، پی ایف یو جے کو بھی کیس میں جواب جمع کرانا چاہیے۔ عدالت نے سی پی این ای اور اے پی این ایس کو بھی آئندہ سماعت پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی، اور پیمرا نے فروری کے دوسرے ہفتے تک تجاویز مانگی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پیمرا دستاویز سامنے آنے کے بعد صارفین کے حقوق سے متعلقہ تمام تنظیموں نے اسے یکسر رد کردیا ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن نے پانچ دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر مشترکہ پریس ریلیز جاری کی اور متفقہ طور پر ان تجاویز کو مسترد کیا۔ پیمرا کی جانب سے پیش کردہ دستاویز کو آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کی آڑ میں انٹرنیٹ کو اپنے قابو میں کرنے کی حکومتی کوشش قرار دیا گیا۔ اسی طرح یوٹیوب ویڈیوز بنانے والے متعدد صحافیوں نے بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر عوامی تنقید بڑھی تو عموماً حکومتی ترجمان کا کردار ادا کرنے والے چند بلاگرز میدان میں آگئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومتی ذمہ داران سے بات ہوئی ہے، ان کے مطابق یہ دستاویز سوشل میڈیا چینلز چلانے والے انفرادی بلاگرز کے لیے نہیں ہے بلکہ روایتی ٹی وی چینلز جن کا مواد انٹرنیٹ پر بھی فراہم کیا جاتا ہے، یہ انہیں ریگولیٹ کرنے کے لیے ہے۔ پیمرا کی جانب سے جاری کردہ دستاویز پر تبصرہ کرنے سے پہلے حکومتی ذمہ داران کو یہ یاددہانی کروانا ضروری ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں سوشل میڈیا کا کلیدی کردار ہے۔ عمران خان کی سیاسی جدوجہد 24 برس پر محیط ہے۔ ابتدا میں دس برس سے زائد عرصہ وہ بیشتر پاکستانیوں کو سیاسی میدان میں اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہے، لیکن پھر ملک میں انٹرنیٹ عام ہوا تو انہیں اور ان کے حامیوں کو اپنی بات پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم میسر آگیا۔ ان کی پُرامید اور غیر روایتی باتوں نے روایتی سیاست دانوں سے اُکتائے پاکستانی نوجوانوں کے دلوں پر اثر کیا، اور نئے پاکستان کا خواب پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ایک عرصے تک مخالفین اور روایتی صحافی تحریک انصاف کو سوشل میڈیا کی پارٹی کہہ کر طعنے دیتے رہے، لیکن پھر سوشل میڈیا کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ روایتی میڈیا کے لیے بھی اسے نظرانداز کرنا ناممکن ہوگیا۔ دوسری جانب انٹرنیٹ پر تحریک انصاف نے مزید طاقت پکڑلی، کوئی جماعت یا اس کے لیڈر کے خلاف بات کرتا تو اس کے ’’کارکن‘‘جتھوں کی صورت میں اس پر آن لائن حملے کرتے۔ یہ حملے اس قدر شدید تھے کہ بہت سے لوگ اپنے اور اپنے گھر والوں کی عزت کا خیال کرکے کھل کر اپنی بات کہنے سے گھبرانے لگے۔ اپنے کارکنوں کی انہی صلاحیتوں کی ویڈیو بلاگرز سے چند روز قبل ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے بھی تعریف کی، جو کہ بہت سے پاکستانیوں کے لیے حیران کن تھی۔ خیر، تحریک انصاف حکومت میں آگئی تو الٹی گنگا بہنے لگی۔ اس عرصے میں قریباً ہر پاکستانی انٹرنیٹ پر آگیا، دیگر جماعتوں نے بھی اس محاذ پر مقابلہ کرنے کے لیے زور لگایا، نتیجتاً تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر گرفت پہلے جیسی نہ رہی۔ دوسری جانب حکومت سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف کی معاشی میدان میں کارکردگی بھی کچھ زیادہ متاثر کن نہ رہی۔ جس سوشل میڈیا پر لوگ تحریک انصاف کے لیڈروں کی شان میں دن رات آسمان اور زمین ایک کرتے نہیں تھکتے تھے، اسی سوشل میڈیا پر لوگ ماضی میں کیے گئے وعدے یاد کروانے لگے، آئے دن وزیراعظم اور ان کے ہمنوائوں کے پرانے کلپس وائرل ہونے لگے۔ الیکٹرانک میڈیا میں بیٹھے اینکروں نے بھی توپوں کا رُخ حکومت کی جانب کرلیا۔ اس سب کے نتیجے میں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہی میڈیا جو اپوزیشن لیڈر عمران خان کی آنکھ کا تارہ تھا، اب وزیراعظم عمران خان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہے، یہاں تک کہ چند روز قبل وزیراعظم نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ عوام ٹی وی نہ دیکھیں، اخبار نہ پڑھیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ بات شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے کے مترادف ہے۔ میڈیا کی آواز دبانے سے بہتر ہے کہ حکومت اپنی توانائیاں کارکردگی بہتر بنانے میں صرف کرے تاکہ میڈیا کو باتیں بنانے کا موقع ہی نہ میسر آئے۔ پیمرا کی جانب سے جاری کردہ دستاویز پڑھ کر تاثر ملتا ہے کہ یہ بھی اس حکومتی غم و غصے کا ہی نتیجہ ہے۔ جس شخص نے بھی یہ دستاویز مرتب کی ہے یقیناً وہ انٹرنیٹ اور کاروبار کی الف، ب سے بھی واقف نہیں، اور جو تجاویز دی گئی ہیں پوری دنیا کے جمہوری ممالک میں ان کی ایک بھی عملی مثال موجود نہیں۔ اس دستاویز میں چار ممالک کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں آن لائن مواد سے متعلق کسی نہ کسی قسم کی ریگولیشن موجود ہے، دلچسپ بات ہے کہ ان چاروں ممالک میں ویب ٹی وی چینلز کے لیے کسی قسم کی فیس مقرر نہیں۔ انٹرنیٹ پر ہزاروں پاکستانی ویڈیوز بناکر یوٹیوب یا فیس بک جیسی ویب سائٹس پر اَپ لوڈ کرتے ہیں، ان کی اوسط آمدنی شاید دو سے تین لاکھ روپے مہینہ ہو، میڈیا انڈسٹری کے حالات خراب ہونے کے بعد بہت سے صحافی بھی ان صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ کیا حکومت ان لوگوں سے ایک ایک کروڑ روپے فیس اکٹھی کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے؟ موجودہ حکومت میں اب تک 20لاکھ سے زائد پاکستانی نوکریوں سے محروم ہوچکے ہیں، کئی ایسے ہیں جن کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوچکی ہے، اب جو لوگ کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سے روزی روٹی کما رہے ہیں اُن کا بھی نان نفقہ بند کرکے انہیں سڑک پر لانے کی خواہش ہے تو شوق سے اس دستاویز کو قانون کی شکل دے دیجیے۔
تحریک انصاف کے ہمدرد بلاگرز کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون ویڈیو بلاگرز پر لاگو نہیں ہوگا، تاہم پیمرا کی دستاویز میں اس کے برعکس بات کی گئی ہے۔ اس کے مطابق ’نان کمرشل‘ مواد بنانے والوں کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل ہوگا، جبکہ باقی تمام لوگوں پر یہ لاگو ہوگا۔ اگر پیمرا کی جانب سے تجویز کردہ قانون کا مقصد پاکستانیوں کی جیب کترنا نہیں ہے تو اس بے سروپا قانون کا مقصد مخالفین کی آواز خاموش کروانا ہی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں عرض ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، اس کا آئین ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق دیتا ہے، حکومت اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر یہ حق سلب نہیں کرسکتی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم انٹرنیٹ پر کسی کو کھلی چھوٹ دینے کے حق میں نہیں، لیکن ریگولیشن کی آڑ میں مخالفین کا گلا گھونٹنا بھی کسی صورت قبول نہیں۔ انٹرنیٹ پر فرضی خبریں (فیک نیوز) بہرحال ایک حقیقی مسئلہ ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ حکومت کو جو خبر پسند نہیں آتی اُسے فیک نیوز قرار دے دیا جاتا ہے۔ فواد چودھری جب وزیراطلاعات بنے تو فیک نیوز کی نشاندہی کے لیے ایک ٹوئٹر اکائونٹ بنایا گیا تھا۔ اس اکائونٹ سے اوپر تلے حکومت مخالف ایسی خبروں کو فیک نیوز قرار دیا گیا جو درست ثابت ہوگئیں۔ اسد عمر کی وزارتِ خزانہ سے جبری فراغت کی خبر اس کی مثال ہے۔ چند روز قبل صدرِ مملکت سے آٹا بحران کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو وہ لاعلم نکلے۔ یہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تو صدر عارف علوی نے اخبارات میں ایک مضمون تحریر کردیا جس میں اپنے اس کلپ کو بھی فیک نیوز کا شاخسانہ قرار دے دیا، اس میں انہوں نے اپنے بیان پر میڈیا کے ردعمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا بیان تو بہرحال ویڈیو کی شکل میں موجود ہے۔ غرض یہ کہ یہاں سچ وہ ہے جو آپ کو پسند اور، جو ناپسند ہے وہ فیک۔