سندھی تحریر: ذوالفقار گرامانی/ترجمہ: اسامہ تنولی
معروف صحافی، کالم نگار اور اینکرپرسن ذوالفقار گرامانی کا زیرنظر کالم جمعہ 24 جنوری 2020ء کو قدرے نئے مگر معروف سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا ہے، جس میں وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی منظرنامے کے حوالے سے خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ روزنامہ پنھنجی اخبار سابق مدیر روزنامہ کاوش حیدرآباد محمد علی قاضی، المعروف علی قاضی کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے اور اس نے تھوڑے ہی عرصے میں سندھی اخبارات میں نمایاں حیثیت اختیار کرلی ہے۔ روزنامہ کاوش کے بیشر مشہور کالم نگاروں نے بھی اب روزنامہ پنھنجی اخبار کے لیے اپنی تحاریر لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
…………
’’ایک وقت تھا جب عمران خان جذباتی انداز میں اعلان کیا کرتے تھے کہ آج ایک اہم وکٹ گرنے والی ہے۔ تب ہم اُس وقت پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے اندر تلاش میں لگ جایا کرتے تھے کہ وہ آخر کون سی وکٹ ہے اور کب گرنے والی ہے؟ کبھی کبھی تو عمران خان ایک بال پر دو وکٹیں گرا کر سمجھاتے تھے کہ جب ایک بال پر آخری کھلاڑی آئوٹ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں گیارہواں کھلاڑی بھی آئوٹ تصور کیا جاتا ہے۔ اب حالیہ منظر یہ ہے کہ جب کسی اہم وکٹ کی ناراضی کی خبر آتی ہے تب ہم مخالف پارٹیوں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود خان صاحب کی پارٹی کے اندر جھانک کر ناراض وکٹ کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ چند روز قبل کی بات ہے جب بجٹ اجلاس میں حال ہی میں پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ارباب عالمگیر قومی اسمبلی میں اپنی ہی حکومت کے خلاف خطاب کرکے باہر نکلے تو میڈیا نے ان سے براہِ راست سوال کیا کہ ’’آپ دوبارہ پی پی میں کب واپس جارہے ہیں؟‘‘ لیکن اب ایسے سوال کی اہمیت بھی مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کی طرح بڑھ گئی ہے۔ حکومت مخالف پارٹیوں کے بعد حکومت کے اتحادیوں کی طرف سے حکومت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے بعد اب تازہ ترین صورتِ حال حکومت کے اپنے ارکان کے ناراض گروپ، پریشر گروپ اور فارورڈ بلاک اختیار کرنے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ پہلے پنجاب اور اب خیبر پختون خوا کے وزرائے اعلیٰ کسی بھی گروپ بندی کو افواہ قرار دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں سب سے اہم سوال یہ زیر بحث ہے کہ مارچ تک کیا ہوگا؟ ویسے تو ’’مارچ میں مارچ ہوگا‘‘ سے لے کر ’’گھبرانا نہیں‘‘ تک کے سارے نعرے استعمال کرکے عوام اب آٹے کے حصول کے لیے لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ ملک کے صدر عارف علوی کو یہ خبر ہی نہیں ہے کہ آٹے کا بحران ملک میں کیوں اور کس وجہ سے ہے؟ ویسے میں ڈاکٹر عارف علوی جیسے پی ٹی آئی کے پرانے کارکنان سے یہ شعر اسی ایوانِ صدر کے سامنے اُس وقت سنا کرتا تھا جب آصف زرداری صدرِ پاکستان ہوا کرتے تھے:۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
ہوسکتا ہے کہ اسی انقلابی عمل کی وجہ سے ہمارے ہاں گندم نایاب ہوگئی ہو۔ بجلی کے بحران اور شدید لوڈشیڈنگ ہونے پر بھی یہی انقلابی رہنما بتایا کرتے تھے کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
عمران خان تو اپنے ہر خطاب میں ملک کو علامہ اقبال کے خواب کے مطابق چلانے کا اعلان کیا کرتے تھے، اب اگر ملک میں آٹے، گیس کا بحران اور مہنگائی بھی زوروں پر ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یہ بحران فقط عوام ہی کے لیے ہے۔ یہ ایوانِ اقتدار یا ایوانِ صدر کے اندر کا بحران تو ہے نہیں کہ ہم ان انقلابی رہنمائوں سے اس کے متعلق کوئی سوال کرسکیں۔ یوں بھی شیخ رشیدکی ایک بات صد فیصد درست ثابت ہورہی ہے، جب موصوف وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے تب وہ ہر بار یہ بات بتایا کرتے تھے کہ باہر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے ہاں تفریحی چینل زیادہ اور نیوز چینل کم چلتے ہیں، آپ کے ہاں معاملہ اس کے الٹ کیوں ہے؟ جس پر شیخ رشید انہیں کہا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں نیوز چینلز میں ہی تفریح زیادہ ہے۔ اب صحافی سمیع ابراہیم کے بعد جس طرح سے مبشر لقمان کو وفاقی وزیر نے پرائی شادی میں طمانچہ رسید کیا ہے، ایسی تفریح تو آپ کو گبر سنگھ کی فلمیں بھی فراہم نہیںکرسکتیں۔ جس انداز میں ایک وفاقی وزیر نے جوتا لاکر ٹاک شو کی میز پر رکھا ایسے مناظر اگر آپ کو تفریحی فلموں میں بھی کبھی نظر آئے ہوں تو بتایئے گا۔ حال ہی میں آپ نے ایک وفاقی وزیر کی خون عطیہ کرنے کی فلم تو ملاحظہ کی ہی ہوگی جس میں اُن کا ’’کہیں اصل خون تو نہیں نکال رہے؟‘‘ جیسا جملہ بھی سننے کو ملتا ہے۔ اس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کہ ملک کے وزیراعظم نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی تنخواہ میں ان کا گزارہ نہیں ہوپاتا۔ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد میں نے اپنے ایک صحافی دوست سے کہا کہ آپ کے اس سوال کی اب کیا حیثیت رہی جو ہر ایم پی اے اور ایم این اے سے کیا کرتے تھے کہ 15 ہزار میں گھر کا بجٹ بناکر تو دکھایئے؟ یہاں تو وزیراعظم صاحب کا گھر ہی نہیں چل پاتا۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ہمارے ہاں تماشا اتنے زوروں پر ہو تو اسے پھر کیا نام دیا جائے! جب تین سو روپے کلو میں بکنے والے ٹماٹروں کی قیمت ہمارے وزرائے کرام کو صرف 17 روپے کلو ہی دکھائی دے تو ایسی صورت میں سرمد کھوسٹ کو ’’زندگی تماشا‘‘ بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ انہی وفاقی وزرا کے حوالے سے جب حکومت قائم ہونے سے پیشتر عمران خان سے سوالات ہوا کرتے تھے تب عمران خان سمجھایا کرتے تھے کہ جب کسی قافلے میں سارے شیر ہوں لیکن ان کا رہنما گیدڑ ہو تو ایسا قافلہ فاتحانہ انداز میں اپنی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ سکتا، لیکن قافلہ سارے کا سارا اگر گیدڑوں پر مشتمل ہو لیکن اُن کا رہنما اگر شیر ہو تو ایسا قافلہ ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ ہم نے عمران خان سے کبھی یہ کائونٹر سوال نہیں کیا کہ آپ خود کو شیر اور اپنے اہلِ قافلہ کو گیدڑ کیوں تصور کرتے ہیں؟ لیکن ان دنوں میں مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ اصل حکومت پی پی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی والوں کی کہاں ہوا کرتی ہے؟ انہی ’’شیروں‘‘ کی ہوا کرتی ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو، نوازشریف، پرویزمشرف سے لے عمران خان تک کی حکومت میں اسی طرح سے وفاقی وزیر بنے ہوئے ہیں۔ آپ نے حال ہی میں وفاقی وزیر کی صورت میں دیکھ لیا کہ اصلی خون دینے والے مجنوں کا دور تو کب کا ختم ہوچلا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیکس کی اس رپورٹ… جس میں پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے بجائے اضافے کی مثال قائم ہوچکی ہے… کا اثر اس لیے بھی نہیں پڑتا کہ گزشتہ دنوں ہی عمران خان نے ملائشیا کے مہاتیر محمدکی مثال دیتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ اس لیے ایسی کسی رپورٹ کا
اثر یا ردعمل عمران سرکار کو گرا نہیں سکتا۔ ویسے تو عمران خان یہ بات سمجھایا کرتے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد کاروبار بنیادی طور پر مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے، لیکن آٹے کے حالیہ بحران کے بعد امیر ترین افراد کی فیکٹریاں منافع بخش کاروبارکررہی ہیں۔ تبدیلی والی سرکار قائم کرنے والے عمران خان جو حزبِ مخالف کے دور میں کہا کرتے تھے کہ یورپ کے ممالک میں صرف کار غلط پارک کرنے پر وزیراعظم چلے گئے، ٹرین حادثے پر وزیر استعفیٰ دے کر اپنے گھر چلے گئے، یہاں تک کہ جس دور میں کرپشن ہو اُس کا ذمہ دار اُس عہد کا وزیراعظم ہوتا ہے، کا بیان بھی تو عمران خان صاحب ہی نے دیا تھا۔ اگر ان سارے دلائل پر یوٹرن نہ لیا جاتا تو آج کون حکومت میں رہ پاتا؟ یوں تو فواد چودھری جیسے وفاقی وزیر کو بھی عثمان بزدار بادشاہ نظر آنے لگے ہیں۔ انہوں نے یہ بات خان صاحب تک بھی پہنچادی ہے، لیکن ایسے وسیم اکرم پلس کے لیے پنجاب کے اپنے فارورڈ بلاک والے کہتے ہیں کہ عثمان بزدار کے ہاتھوں میں تو کچھ ہے ہی نہیں اور سارا پنجاب بنی گالا والے چلا رہے ہیں۔ اس لیے جنوبی پنجاب کے وعدے پر آئے ہوئے صوبائی اراکین اب خود سے ہی یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر اب عوام میں ہم واپس جائیں تو کیسے جائیں؟ ادھر اسی لاہور میں دوبارہ مولانا فضل الرحمٰن نے آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد پی پی، نواز لیگ اور اے ین پی سے ناراض ہوکر دوسری حزبِ مخالف جماعتوں کو اکٹھا کرکے سارے معاملات کو مارچ میں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے۔ کیا مارچ تک پی پی اور نواز لیگ آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد والے صدمے سے باہر نکل آئیں گے؟ مولانا کی ناراضی ختم کردیں گے؟ یا عمران خان اپنی پارٹی، فارورڈ بلاک اور اتحادیوں کو راضی کرکے اپنی حکومت کا ماہِ مارچ نکال لیں گے؟ (گزار لیں گے، مترجم) یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔