صوبہ کے حقوق، قبائلی اضلاع کے مسائل، کمر توڑ مہنگائی

جماعت اسلامی خیبر پختون خواہ کی کثیر الجماعتی کانفرنس

پاکستان تحریک انصاف کے خیبرپختون خوا میں دوبارہ برسراقتدار آنے، نیز مرکز سمیت پنجاب اور بلوچستان میں مشترکہ حکومتیں بنانے کے بعد یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ خیبر پختون خوا کے عوام کی ریاست کے لیے قربانیوں کا ادراک کرکے معاشی بحالی اور ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی، لیکن اس کے برعکس وفاقی حکومت صوبے کے آئینی حقوق دینے میں مسلسل غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے، جب کہ دوسری جانب صوبائی حکومت بھی این ایف سی، بجلی کے خالص منافع، تیل اور گیس کی رائلٹی پر صوبے کے عوام کی ترجمانی کرنے اور مؤثر آواز اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ مزید برآں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ساتھ صوبے میں انضمام کے وقت کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے جارہے ہیں، اور ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے قبائلی عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے مزید اضافہ کیا ہے۔
صوبے کی اس دگرگوں سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال کا بروقت ادراک کرتے ہوئے گزشتہ دنوں جماعت اسلامی نے صوبائی ہیڈ کوارٹر مرکزِ اسلامی جی ٹی روڈ سردار گڑھی پشاور میں خیبر پختون خوا کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں کی کثیرالجماعتی پارٹی کانفرنس کی، جس میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک، پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات سید ایوب شاہ، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی، جمعیت(ف) کے صوبائی امیر مولانا عطاء الرحمٰن، قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر خان شیرپائو، پختون خوا اولسی تحریک کے صدر ڈاکٹر سید عالم محسود، جماعت اسلامی کے نائب امیر و پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان، صاحب زادہ ہارون الرشید، رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی، رکن صوبائی اسمبلی سراج الدین خان، اور صحافتی، وکلا و تجارتی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں صوبے کے حقوق، ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مسائل، آٹے کے بحران، بجلی،گیس، پیٹرولیم مصنوعات، ادویہ اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافے اور کمر توڑ مہنگائی سے پیدا شدہ صورتِ حال پر غور وخوض کیا گیا۔
واضح رہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا گزشتہ دو عشروں سے جنگ، تباہی اور بدامنی کا شکار رہا ہے۔ اس طویل بدامنی نے جہاں پورے صوبے اور اس سے ملحقہ قبائلی اضلاع کے انفرا اسٹرکچرکو تباہ کیا ہے، وہیں ضم شدہ اضلاع سمیت پورے صوبے کی معیشت بھی ہلاکر رکھ دی ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز تباہ اور کاروبار مفلوج ہوچکے ہیں۔
کانفرنس کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ملک کی معیشت آئی سی یو میں ہے جس کی وجہ سے عوام اور تاجر شدید تکلیف کا شکار ہیں۔ نت نئے ٹیکسوں نے عوام کی معاشی کمر توڑ دی ہے۔ طویل بدامنی نے جہاں پورے صوبے اور اُس سے ملحقہ قبائلی اضلاع کے انفرا اسٹرکچرکو تباہ کیا ہے وہیں ضم شدہ اضلاع سمیت پورے صوبے کی معیشت ہلاکر رکھ دی ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز تباہ اور کاروبار مفلوج ہوچکے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ پنجاب میں آٹا سستا اور خیبر پختون خوا میں مہنگا ہے۔گیس اور بجلی خیبر پختون خوا میں پیدا ہورہی ہے لیکن ہمیں ضرورت کے مطابق بھی نہیں دی جارہی۔ صوبے کو بجلی کے خالص منافع سمیت جائز حقوق نہیں دیے جارہے۔ صوبے کو بجلی کا خالص منافع دیا جائے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ دے کر صوبے کے مالیاتی حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ پختونوں کے بلاک شناختی کارڈز کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ ضم شدہ اضلاع کی معدنیات پر قبضے کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔ ضم شدہ اضلاع میں تعلیم سمیت دیگر مسائل کو حل کیا جائے۔ این ایف سی اور تعلیمی کوٹے سمیت دیگر کوٹا ضم شدہ اضلاع کو نہیں دیا گیا۔ لاپتا افراد کو بازیاب کرایا جائے، بارودی سرنگوں کو ہٹایا جائے۔ بارودی سرنگوں کی صفائی ریاست کی ذمے داری ہے۔ پختون رہنمائوں اور پارلیمنٹیرین کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ملک کی طرح صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی معاشی بدحالی، ناقص طرزِ حکمرانی، اقربا پروری اور بحرانی کیفیت طاری ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہیں اور عوام کے سلگتے مسائل کو زبان دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر عوام کی مؤثر ترجمانی نہیں کرتیں تو پھر ریاستیں ناکام ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے خالص منافع کی مد میں اے جی این قاضی فارمولے کے تحت وفاق کے ذمے اس سال کے واجب الادا 450 ارب روپے صوبے کو فی الفور ادا کیے جائیں، اور 450 ارب روپے کے بقایا جات سینیٹ آف پاکستان کی منظور کردہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی آبی وسائل کی رپورٹ کے مطابق فی الفور، ٹوٹل اور ڈالر ریٹ کے حساب سے دیے جائیں۔ نیز اسی شرح سے حساب کتاب کرکے پچھلے کئی برسوں سے وفاق کے ذمے بقایاجات بھی صوبے کو جلد از جلد ریلیز کیے جائیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ پولیس کا دائرۂ کار قبائلی اضلاع تک بڑھا دیا ہے۔ مکمل نظام کا دائرۂ کار قبائلی اضلاع تک بڑھا رہے ہیں۔ مشکلات ضرور ہیں مگر انہیں حل کرنا بھی ناگزیر ہے۔ 83 ارب روپے قبائلی اضلاع میں خرچ ہوںگے۔ سردار حسین بابک نے کہا کہ پختونوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ ہمیں آئینی حقوق بھی نہیں دیے جارہے ہیں۔ مولانا عطا الرحمٰن نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد وہاں شدید انتظامی بحران کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور مایوسی ہے۔ سکندر حیات شیرپاؤ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے بجلی کی رائلٹی کی ادائیگی بجلی مہنگی کرنے سے مشروط کردی ہے، جو صوبے کے عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ اختیار ولی خان نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت مسائل کے حل میں ناکام نظر آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی نائب صدر سید ایوب شاہ نے کہا کہ ملک کے تمام مسائل کا حل جمہوریت کی بالادستی اور استحکام میں پوشیدہ ہے۔
کانفرنس میں متذکرہ پارٹی راہنمائوں کے خطابات اور اظہارِ خیال کے بعد اتفاقِ رائے سے ایک مشترکہ اعلامیے کی منظوری دی گئی جس میں کہا گیا کہ خیبر پختون خوا کی سیاسی جماعتوں کی یہ کثیرالجماعتی پارٹی کانفرنس اس ناگفتہ بہ صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیتی ہے کہ ملک کی طرح صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی معاشی بدحالی، ناقص طرزِ حکمرانی، اقرباء پروری اور بحرانی کیفیت طاری ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہیں اور عوام کے سلگتے مسائل کو زبان دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر عوام کی مؤثر ترجمانی نہیں کرتیں تو پھر ریاستیں ناکام ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کانفرنس طویل غور وخوض کے بعد درج ذیل نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کرتی ہے:
1۔ بجلی کا خالص منافع آئینِ پاکستان کی دفعہ 161 کے تحت صوبوں کا حق ہے۔ یہ اُن چند دفعات میں سے ایک ہے جن میں توضیحی شق کے ذریعے بجلی کے خالص منافع کی تعریف کی گئی ہے اور یوں کسی بھی ابہام کو ختم کیا گیا ہے۔ مزید برآں1987ء میں غلام آفتاب نبی قاضی کی سربراہی میں قائم کمیشن نے بجلی کے خالص منافع کی تقسیم کا فارمولا طے کیا ہے جس کو کونسل آف کامن انٹرسٹ(CCI) نے متعدد بار منظور کیا ہے، لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ ماضی میں صوبے اور مرکز میں مخالف سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کی وجہ سے اس فارمولے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، جبکہ اِس وقت چونکہ مرکز اور صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لہٰذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ بجلی کے خالص منافع کی مد میں اے جی این قاضی فارمولے کے تحت وفاق کے ذمہ اس سال کے واجب الادا 140 ارب روپے صوبے کو فی الفور ادا کیے جائیں، نیز اسی شرح سے حساب کتاب کرکے پچھلے کئی برسوں سے وفاق کے ذمے بقایاجات بھی صوبے کو جلد از جلد فراہم کیے جائیں۔ نیز خیبر پختون خوا 6000 میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ اس کی اپنی ضرورت 1500میگا واٹ کے قریب ہے، یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ صوبے میں لوڈ شیڈنگ کا فی الفور خاتمہ کرکے صوبے کی ضرورت کے مطابق بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے۔
2۔ نیشنل فنانس کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جس کی تشکیلِ نو ہر پانچ سال بعد ایک آئینی تقاضا ہے، اور وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اس کی بنیادی ذمہ داری ہے، جس کا ہر پانچ سال بعد ایک ایوارڈ کی شکل میں اجراء ہوتا ہے۔1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد سے اب تک سات ایوارڈ کا اجراء ہوا ہے، آخری ایوارڈ2010ء میں ہوا تھا۔ آئینِ پاکستان کے تحت عمودی تقسیم میں صوبوں کا حصہ پچھلی تقسیم سے کم نہیں ہوگا۔ اس شق کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں ناکام رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، اس لیے یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ وفاقیت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فی الفور این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیا جائے۔
3۔ 1991ء میں واٹر اکارڈ (Water Accord)کے نام سے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں دریائے سندھ کے پانی پر چاروں صوبوں کے حصے مختص کیے گئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے حصے کا پانی سندھ اور پنجاب استعمال کررہے ہیں کیونکہ خیبر پختون خوا اپنے حصے کے پورے پانی کے استعمال کے لیے وسائل نہیں رکھتا۔ معاہدے کے مطابق خیبر پختون خوا کے حصے کے پانی کے استعمال پر صوبے کو معاوضہ دیا جائے گا۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ نہ صرف خیبر پختون خوا کے اضافی پانی کے استعمال کا معاوضہ فی الفور صوبے کو ادا کیا جائے، بلکہ صوبے کو اپنے حصے کا پانی استعمال کرنے کے لیے وسائل بھی مہیا کیے جائیں۔
4۔ وفاق کے ترقیاتی بجٹ 2019-20ء میں خیبر پختون خوا کو اپنے جائز حصے سے کم دیاگیا ہے۔ نیز جو حصہ دیاگیا ہے دوسرے صوبوں کی بہ نسبت اس میں فنڈز بھی کم جاری کیے گئے ہیں۔ کثیرالجماعتی پارٹی کانفرنس یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اس زیادتی کا ازالہ کیا جائے اور این ایف سی فارمولے کے حساب سے خیبر پختون خوا کو PSDP میں حصہ دیا جائے۔ نیز مہمند ڈیم اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں اور لیفٹ کینال کی تعمیر کے لیے بھی معاہدے کے تحت فنڈ جاری کرکے کام کا آغاز کیا جائے۔
5۔ سی پیک میں صوبہ خیبرپختون خوا کو اپنے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی کے شعبوں میں زیادہ تر سرمایہ کاری پنجاب میں ہورہی ہے۔ پشاور کراچی ریلوے، پشاور تا ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے اور انڈسٹریل پارکس کے منصوبوں کو نہ صرف سی پیک میں شامل کیا جائے بلکہ ان پر ترجیحی بنیادوں پر کام کا آغاز بھی کیا جائے۔
6۔ آئینِ پاکستان کے تحت گیس پرسب سے پہلے اُس صوبے کا حق ہوتا ہے جہاں یہ پیدا ہوتی ہے، خیبرپختون خوا اپنی ضرورت سے زیادہ گیس پیدا کرتا ہے، اس کے بادجود خیبر پختون خوا کے بیشتر علاقے نہ صرف گیس کی سہولت سے محروم ہیں بلکہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں گیس کی شدید لوڈشیڈنگ نے شدید سردی میں عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے، جبکہ صوبے کی پیدا کردہ گیس ملک کے دیگر حصوںکو دی جارہی ہے، لہٰذا قبائلی اضلاع سمیت صوبے کے گیس سے محروم تمام علاقوں کو گیس کی سہولت ترجیحی طور پر فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ گیس کی لوڈشیڈنگ کا بھی فی الفور خاتمہ کیا جائے۔
7۔ اس وقت صوبہ خیبر پختون خوا میں آٹے کا شدید بحران ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ خیبر پختون خوا، پنجاب اور مرکز میں ایک ہی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت کے باوجود پنجاب حکومت نے خیبر پختون خوا کے داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کرکے آٹا،گندم اور اس سے بنی مصنوعات کی فراہمی روک رکھی ہے۔ ایک ہی ملک کے دو صوبوں میںآٹے کی قیمتوں میں واضح فرق ہے، پنجاب میں آٹے کا 20کلو کا تھیلا 790روپے، جبکہ خیبر پختون خوا میں 1280سے1400روپے تک پہنچ چکا ہے، جو کہ تحریک انصاف کے دو نہیں ایک پاکستان والے نعرے کی عملاً نفی اور اس کی نااہلی کی انتہاہے۔
8۔ مہنگائی اور خاص طور پر روزمرہ استعمال کی اشیائے خورونوش کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہر مہینے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح نہ صرف بجلی اور گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں، بلکہ مختلف قسم کے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کی صورت میں بھی سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ کثیر الجماعتی کانفرنس حکومت سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کنٹرول کرکے عائد شدہ تمام غیر ضروری ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
9۔ گزشتہ دوعشروں کے دوران طویل فوجی آپریشنز کے نتیجے میں قبائل اضلاع کا انفرااسٹرکچر تباہ ہواہے، تعلیمی ادارے اور مراکزِ صحت عملاً ختم ہیں، قبائلی علاقوں میں بے روزگاری، ناخواندگی اور غربت کا دوردورہ ہے۔ چونکہ وفاقی حکومت نے انضمام کے وقت قبائلی اضلاع کو 10سال میں 1000ارب روپے کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا جس میں 100 ارب روپے ہر سال جاری کرنے تھے، اور جس کے لیے اس سال2019-20ء کے لیے صوبائی بجٹ میں 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں، لیکن تاحال یہ رقم جاری نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ اس رقم کو قبائل کی ترقی پر خرچ کرنے کے لیے فوری طور پر مؤثر اور شفاف میکنزم وضع کرے، اور اس کا اجراء کرکے عملاً قبائلی اضلاع کے اندر ترقی کا سفر شروع کیا جائے، نیز انضمام کے وقت قبائلی اضلاع کو این ایف سی کا تین فیصد حصہ دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اُس پر بھی فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے۔
10۔ قبائلی اضلاع میں طویل محرومیوں کی وجہ سے بے روزگاری زیادہ ہے۔20ہزار نئے لیویز اہلکاروں کی بھرتیوں کا جو وعدہ کیا گیا تھا اُس پر فی الفور عمل کیا جائے، جبکہ دیگر محکموں میں ہزاروں خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے بھی عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے ان اسامیوں پر قبائلی نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے۔
11۔ صوبائی اسمبلی نے چند مہینے قبل منرل ایکٹ پاس کیا ہے جس میں قبائل کو حقِ ملکیت سے محروم کیا گیا ہے۔ اس ظالمانہ قانون کو واپس لیا جائے اور معدنیات کی آمدن کو قبائل کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جائے، نیزمقامی لوگوں کے مالکانہ حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
12۔ قبائلی اضلاع میں یونیورسٹیوں اور میڈیکل و انجینئرنگ کالجوں کی تعمیر کے جو وعدے کیے گئے تھے ان کے ایفا کی جانب تاحال کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، یہ کانفرنس حکومت سے ان وعدوں کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ نیز قبائلی اضلاع میں صحت کی سہولیات ناپید ہونے کی وجہ سے مقامی افراد کو دوردراز کے علاقوں میں علاج معالجے کے لیے جانا پڑتا ہے، لہٰذا ہر ضلع میں کم از کم ایک کیٹگری اے اسپتال قائم کرکے وہاں تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔
13۔ قبائلی اضلاع میں خواتین کی تعلیمی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، نیز خواتین کو روزگار کے کوئی مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا قبائلی اضلاع میں بچیوں کی تعلیم اور خواتین کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
14۔ نوجوان کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں، موجودہ حکومت نے نوجوانوں کو سبز باغ تو بہت دکھائے ہیں لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود نوجوانوں کی فلاح وبہبود اور ان کو باعزت روزگار دلانے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، لہٰذا یہ کثیرالجماعتی پارٹی کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ صوبے اور بالخصوص قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کے لیے اندرون ملک سمیت خلیج اور مشرقِ بعیدکے ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے کھیل کود اور دیگر ثقافتی اور مثبت سرگرمیوں کا بندوبست کیا جائے۔
15۔ موجودہ حکومت نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی راہنمائوں کے خلاف جو لب ولہجہ اختیار کررکھا ہے، اور اس کی جانب سے سیاست دانوں کا میڈیا ٹرائل کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی راہنمائوں کی پکڑ دھکڑ کا جوسلسلہ شروع جاری ہے یہ کثیر الجماعتی کانفرنس اس ساری صورت حال کو نہ صرف تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ اس غیر جمہوری رویّے کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے گرفتار راہنمائوں اور کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔
کانفرنس کے آخر میں کہا گیا کہ یہ ملٹی پارٹی کانفرنس اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ سیاسی جماعتیں صوبے کے حقوق کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرتی رہیں گی اور صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیںگی کہ وہ صوبے کے آئینی حقوق غصب کریں۔ ہم عوام کو بھی یہ بات با ور کراتے ہیں کہ ہم عوام کے سلگتے مسائل کے حل، ان کے دکھوں کا مدوا کرنے اور حقوق کی ترجمانی کے لیے سیاسی تفریق سے بالاتر ہوکر جدوجہد کریں گے۔ صوبے کے حقوق کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنے اور مؤثرآواز اٹھانے کے لیے تمام آئینی اور قانونی راستے اختیار کرنے پر اس کانفرنس میں شریک تمام جماعتیں متحد اور متفق ہیں۔

تحفظ مدارس کانفرنس

دریں اثناء صوبے میں بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں گزشتہ اتوار کے روز جمعیت(ف) کے زیر اہتمام ایک ’تحفظِ مدارس کانفرنس‘ بھی منعقد کی گئی جس سے مولانا فضل الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ مدارس کو ختم کریں، جبکہ ہم نے آزادی مارچ میں دنیا کو بتادیا کہ ہم منظم اور پُرامن لوگ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے، حکومت نے صرف ایک سال میں قرض لینے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی ناقص حکمرانی پر نہ صرف ان کو لانے والے پشیمان اور پریشان ہیں بلکہ ان کو ووٹ دینے والے بھی اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ گندم، چاول اور کپاس کسی کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا، جبکہ روپے کی قدر گرا کر بھی برآمدات کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی زدہ الیکشن کو ہم نے تسلیم نہیں کیا اور اس حکومت کی مخالفت جہاد ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کشمیر بیچنے والے اب کس منہ سے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے ریلیاں نکال رہے ہیں! کشمیر پر امریکی ثالثی کی حمایت کرنے والے کو کیا خبر کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں آپریشنز کی حمایت کرنے والے آج وہاں لاشوں پر واویلا کررہے ہیں۔ جن پارٹیوں نے فاٹا انضمام کے حق میں ووٹ دیا تھا وہ قوم سے معافی مانگیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ یہاں سب کا حال پشاور بی آر ٹی جیسا ہے، جس شہر میں بی آر ٹی جیسا منصوبہ ہو، وہاں ایک ووٹ نہیں ملتا، لیکن یہاں سے سب جیت گئے، پھر بھی حکومت کہتی ہے دھاندلی نہیں ہوئی، جس پر سوائے ماتم اور افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے!