پروفیسر شریف المجاہد بھی اپنے اس ابدی سفر پر روانہ ہوئے جس پر ہم سب ہی کو جلد یا بدیر جانا ہے۔ رب کریم اپنی کریمی سے اُن کی تین نسلوںکی علمی و تحقیقی شعبے میں تربیت اور ملّی وقومی خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں سے درگزر کا معاملہ فرما کر ان کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے اور روزِ حشر شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے آبِِ کوثر سے سرفراز کردے۔ (آمین)۔
پروفیسر شریف المجاہد کی ذات برصغیر کی جدید تاریخ میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کا معتبر حوالہ ہی نہیں ہے، بلکہ قائداعظم کی قیادت میں حصولِ پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں شامل آخری چشم دید گواہ کی بھی ہے۔ پروفیسر شریف المجاہد ایک ایسے ماہرِ تعلیم، محقق، مصنف اور مستند تاریخ دان تھے جنہوں نے شعوری زندگی کا ایک ایک لمحہ تعلیم و تدریس، تحقیق و تصنیف میں صرف کیا۔ ان کے شاگردوں اور اکتساب ِفیض حاصل کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میںہے، جو ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے۔ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ جس نے دلجمعی سے ان سے اکتساب ِفیض کیا وہ ان کے دبستان سے کندن بن کر نکلا۔ پروفیسر شریف المجاہد کو بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ ترین علمی و تحقیقی درس گاہوں کی شہرت رکھنے والے اداروں میں برصغیر میں آزادی کی چلنے والی تحریکوں پر مستند محقق تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی رحلت سے پاکستان ایک بلند قامت علمی و تحقیقی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ اُن جیسے علمی قدوقامت کا کوئی دوسرا شخص دور دور تک نظر نہیں آتا۔ وہ 94 برس کی عمر میں کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے سبب معذوری اور شدید علالت کے باوجود لکھنے پڑھنے کی مصروفیات سے جڑے رہے، جس سے ان کے علمی انہماک اور تحقیقی ذوق وشوق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر شریف المجاہد کو جنہوں نے تعلیم و تربیت اور تحقیق و تصنیف کا کام کرتے دیکھا ہے، وہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ فنا فی العلم اور فنا فی التحقیق تھے۔ وہ یکم جولائی 1926ء کو مدراس (اب چنائے) کے ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو ملّی اور قومی تحریکوں کی سرگرمیوںمیں متحرک اور فعال تھا۔ ان کی والدہ کے ماموں تحریکِ خلافت کی مدراس شاخ کے رضا کاروں کے کمانڈر تھے۔ خود شریف المجاہد کا بیان ہے کہ انہوں نے 13 سال کی عمر میں اخبارات کے مطالعے سے آزادی کے لیے چلنے والی تحریکوں میں دل چسپی لینا شروع کر دی تھی۔ پھر انہوں نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1941ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مدراس میں ہوا تھا، اُس وقت پروفیسر شریف المجاہد مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن مدراس کے جوائنٹ سیکرٹری تھے اور اسی حیثیت میں انہوں نے 1941ء کے اجلاس میں شرکت کی تھی اور یہ ان کی قائداعظم سے پہلی ملاقات تھی۔ شریف المجاہد قائد اعظم کی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست سے حد درجہ متاثر تھے۔ ان کے نزدیک یہ قائداعظم کی بصیرت ہی تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ اجلاس جس میں برصغیر کے مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں پر مشتمل الگ وطن کا مطالبہ کیا جانے والا تھا، وہ 1940ء میں مسلم اکثریتی صوبے کے صدر مقام لاہور میں کیا۔ اور ایک سال بعد 1941ء میں اس کی رائے عامہ سے تائید کے لیے مسلمانوں کے اقلیتی صوبے مدراس کا انتخاب کیا جہاں پاکستان نہیں بننا تھا۔ قائداعظم کی اس بصیرت نے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کو برصغیر کے تمام مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کے محور و مرکز میں تبدیل کردیا۔ ابتدا میں اس تحریک کا زیادہ زور اُن علاقوں میں ہوا جو مسلم اکثریتی علاقے نہیں تھے۔
پروفیسر شریف المجاہد نے 1945ء میں اپنے زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان اور مسلمانوں کی سیاسی بیداری کے موضوعات پر مضامین لکھنا شروع کردیے تھے۔ قبل ازیں ان کے بڑے بھائی اخبارات و جرائد میں تحریکِ پاکستان کے حق میں مضامین لکھ رہے تھے۔ ان کا پورا گھرانا حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں شامل تھا۔ حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں عملی طور پر فعال اور متحرک ہونے کے باوجود شریف المجاہد نے تعلیم کے تمام مدارج امتیاز کے ساتھ مکمل کیے۔ ان کے علمی و فنی کمالات و محاسن کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کالم میں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ اور ایک دبستان تھے۔ وہ ایسی علمی و تحقیقی شخصیت تھے کہ جن پر بلامبالغہ یہ بات صادق آتی ہے کہ کسی تعلیمی و تحقیقی ادارے کا سربراہ ہونا اُن کے لیے اعزاز نہیں تھا بلکہ اُس ادارے کے لیے اعزاز تھا جس کے سربراہ وہ رہے۔ انہوں نے 1949ء میں مدراس یونیورسٹی سے (جو برصغیر کی اعلیٰ ترین جامعات میں شمار ہوتی تھی) بی اے آنرز کیا، اور 1950ء میں تاریخ میں ایم اے کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آگئے۔ پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ اخبارات و جرائد کے لیے لکھتے رہے۔ پاکستان آنے کے بعد سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ساتھ بطور نمائندۂ خصوصی وابستہ رہے۔ ایک سال بعد فل برائٹ اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے، جہاں سے 1952ء میں انہوں نے اسٹینفوڈ یونیورسٹی کی تاریخ میں سب سے کم مدت میں یعنی صرف 9 ماہ میںایم اے جرنلزم کی تعلیم مکمل کی۔ جب کہ میک گل یونیورسٹی کینیڈا سے 1954ء میں ایم اے اسلامک اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کی، جہاںکچھ عرصے وہ تدریس اور مختلف اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے۔ 1955ء میں پاکستان واپس آکر جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا، جہاں سے 1976ء میں قائداعظم اکیڈمی کے بانی سربراہ کے طور پر اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے شب و روز کی محنت سے اس ادارے کو بین الاقوامی سطح کے تحقیقی اداروں کے صف میں لاکھڑا کیا۔
پروفیسر شریف المجاہد (مرحوم) نے براڈر یونیورسٹی اور بفلیو کی اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں بحیثیت وزیٹنگ ایشین پروفیسر جنوبی ایشیا کے موضوع پر تدریس کے فرائض انجام دیے۔ انہوں نے اپنے دیرینہ دوستوں پروفیسر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری (مرحوم)، ڈاکٹر انوار حسین صدیقی (جو اُس وقت وائس چانسلر تھے) اور پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد (مرحوم) کی خواہش پر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کچھ وقت گزارا۔ ان کی معرکۃ الآرا تصنیف “Quaid-e-azam Jinnah As Studies in Interpretation” (قائداعظم ایک توضیعی مطالعہ) قائداعظم پر شائع ہونے والی کتابوں میں اہلِ علم کے نزدیک سب سے مستند کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس پر انہیں صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ان کی دیگر اہم تصانیف میں ’’انڈین سیکولرازم اور بنیادی حقوق‘‘ ہے، اس کا عربی اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔ ان کی دیگر انگریزی تصانیف اور درجنوں مقالات، جو بین الاقوامی تحقیقی جرنلز میں شائع ہوئے تھے، کے عربی، فرانسیسی، ملاوی، پرتگیزی اور ہسپانوی زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ قائداعظم پر ان کی انگریزی تصنیف ’’قائداعظم ایک توضیعی مطالعہ‘‘ کا اردو ترجمہ خواجہ رضی حیدر نے کیا جس کا نام شریف المجاہد (مرحوم) نے تجویز کیا تھا، اور اپنی زندگی میں اسے اشاعت کے لیے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ دعوہ اکیڈمی کے سپرد کردیا تھا۔ اللہ کرے یہ جلد شائع ہوجائے۔
پروفیسر شریف المجاہد کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے قائداعظم کی شخصیت کو جیسی تھی ویسے اجاگر کیا۔ انہوں نے قائداعظم کی تقاریر اور بیانات سے قائداعظم کے نظریۂ سیاست کو مرتب کرکے پاکستان کی وہ حقیقی تصویر پیش کردی جو بانیِِ پاکستان کے پیش نظر تھی۔ وہ بار بار یہ بات لکھتے اور کہتے رہے کہ قائداعظم کے ویژن کے مطابق پاکستان ایک فلاحی، اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور یہی نظریۂ پاکستان ہے۔ شریف المجاہد صاحب کی تحقیق کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے جہاں تحریکِ پاکستان کے عوامل کا علمی اور تاریخی تجزیہ کیا ہے، وہیں ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل کا معاشرتی اور نفسیاتی تجزیہ بھی کیا ہے۔
قائداعظم کی حیات و خدمات کا جب بھی تاریخ میں تذکرہ کیا جائے گا تو اسے مرتب کرنے والوں میں پروفیسر شریف المجاہد کا نام سرفہرست ہوگا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے ہی قائداعظم کی 11 اگست 1947ء والی تقریر کے بارے میں پیدا کیے جانے والے ابہام کو دور کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ 11 اگست کی پوری تقریر کا مطالعہ کریں تو یہ میثاقِ مدینہ کے بنیادی تصور کا عملی پَرتو ہے۔
یہ انہی کی جرأت تھی کہ انہوں نے بعض نادان افراد کی طرف سے ’’اسم پاکستان کے خالق‘‘ چودھری رحمت علی (مرحوم) کے کردار سے متعلق غلط پروپیگنڈے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا تھاکہ جس طرح قائداعظم سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ یہ ملک اُن کی قیادت میں حاصل کیا گیا ہے، اسی طرح چودھری رحمت علی سے بھی یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ قائداعظم کے پاکستان کے اِسم کے خالق چودھری رحمت علی ہیں۔ خواجہ رضی حیدر نے چودھری رحمت علی کی حیات و خدمات پر ’’چودھری رحمت علی تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ‘‘ تصنیف کی تو پروفیسر شریف المجاہد نے خواجہ رضی حیدر کی اس تحقیقی کاوش کی کھلے دل سے تحسین کی۔
پروفیسر شریف المجاہد نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ اپنی طویل عمری میں انہوں نے اپنے وقت کا نہایت مفید استعمال کیا۔ خود کو فنا فی العلم اور فنا فی التحقیق رکھا۔ ان جیسی شخصیت جس نے اپنی محنت اور ریاضت سے علم و تحقیق کی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دیے، مشکل سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی زندگی میں اہلِ علم کے لیے سیکھنے اور سمجھنے کے ہزار پہلو ہیں۔ خداوند تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اور شریف المجاہد جیسی مایہ ناز شخصیت کے کارناموں کو سراہنے اور ان کی قدر کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ (آمین)