راقم الحروف کے پسندیدہ ترین ماہانہ رسائل میں شامل ماہنامہ ’’زندگی‘‘ رام پور انڈیا، اور بعد میں ’’زندگیِ نو‘‘ نئی دہلی ہند رہے ہیں۔ ’’زندگی کا خزانہ‘‘ اسی ماہنامہ ’’زندگی‘‘ کا اشاریہ ہے۔ ڈاکٹر محمد رفعت سابق مدیر ’’زندگیِ نو نئی دہلی‘‘ تحریر فرماتے ہیں:
’’زندگی کا خزانہ‘‘ عنوان کے تحت جریدہ ’’زندگی‘‘ (جس کا موجودہ نام ’’زندگی نو‘‘ ہے) کے مضامین کا اشاریہ ہے۔ یہ اشاریہ 1948ء سے 2015ء تک کے شماروں میں شائع شدہ مضامین کا احاطہ کرتا ہے۔ آزادیِ ہند کے بعد کے 67 برسوں میں ملک اور اس کے باشندے مختلف حالات سے گزرے ہیں، خصوصاً یہاں کے مسلمانوں کو مختلف قسم کی آزمائشوں سے واسطہ پیش آیا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں رسالہ زندگی کے مضامین نے امتِ مسلمہ کے شعور کو بیدار کرنے اور اسے اس کی ذمہ داریاں یاد دلانے کا کام انجام دیا ہے۔
عموماً اشاریے موضوعات اور مصنفین دونوں کے اعتبار سے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ زیرنظر اشاریے میں یہ دونوں اجزا موجود ہیں۔ ان کے علاوہ مترجمین اور تبصرہ شدہ کتب و رسائل کے اشاریے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ اس طرح اس مجموعے کی افادیت بڑھ گئی ہے۔
زیرنظر اشاریے کی ترتیب کا کام رفیقِ محترم جناب ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب نے انجام دیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے غیر معمولی محنت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو قبول فرمائے‘‘۔
ڈاکٹر رضی الاسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’علمی و ادبی رسائل کی اشاریہ سازی آج وقت کی ایک ضرورت بن گئی ہے۔ علم و اطلاع کا دائرہ وسیع تر کرنا، تحقیق کرنے والوں کا قیمتی وقت اور سرمایہ بچانا، بہ سہولت ضروری معلومات بہم پہنچانا اور متعلقہ علم و فن میں مطلوبہ مواد تک رسائی میں مدد کرنا اس کے اہم مقاصد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشاریہ سازی میں دلچسپی لی گئی ہے، اب بہت سے رسائل کے اشاریے منظرعام پر آچکے ہیں۔
ملک کے دینی و علمی رسائل میں ایک اہم اور وقیع رسالہ ماہ نامہ ’’زندگی‘‘ ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے پوری پابندی اور تسلسل کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اس کا شمار آزادی کے بعد نکلنے والے اُن رسائل میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلامیات میں اپنی پہچان بنائی ہے اور اعلیٰ علمی معیار قائم رکھا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس ماہنامہ نے خالص علمی انداز میں فکر انگیز، متنوع دینی و علمی موضوعات اور وقت سے جڑے مسائل پر اب تک جتنا مواد پیش کیا ہے اتنا آزادی کے بعد نکلنے والے کسی اور رسالے میں یکجا نہیں ملتا۔‘‘
کتاب پر فاضلانہ تبصرہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن فلاحی انچارج شعبۂ ادارت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی کے قلم سے سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ میں شائع ہوا ہے، اسی کو ہم یہاں درج کرتے ہیں:
’’ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اپنی علمی، دینی اور تحریکی سرگرمیوں اور فقہی مسائل پر اپنی تحریروں کے حوالے سے ہندوپاک میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہونے والی ایک نہایت بیش قیمت اور گراں قدر دستاویزی کتاب ’’زندگی کا خزانہ‘‘ کو ان کی تصانیف کے ذخیرے میں اہم اضافہ تصور کیا جائے گا۔ یہ دراصل ماہنامہ ’’زندگی‘‘ کے مضامین اور تبصروں کا اشاریہ ہے جو نومبر 1948ء سے دسمبر 2015ء تک کا احاطہ کرتا ہے۔ موجودہ عہد میں علمی رسائل و جرائد اور کتب کی اشاریہ سازی کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور یہ اہلِ علم کے درمیان بے حد مقبول بھی ہے۔ اشاریہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریسرچ اسکالرز اور محققین کو زیادہ وقت ضائع کیے بغیر اپنے مطلوبہ مواد تک رسائی ممکن ہوسکے۔
آغازِ کتاب میں ڈاکٹر محمد رفعت مدیر ’’زندگیِ نو‘‘ کے تعارفی کلمات دیے گئے ہیں جن سے اس اشارے کی اہمیت و معنویت واضح ہوجاتی ہے۔ جدول کی شکل میں تمام شماروں کی جلدیں اور ہجری و عیسوی ماہ و سال کی تفصیلات درج ہیں، جن کی مجموعی تعداد 806 ہے۔ عرضِ مرتب میں ’’زندگی‘‘ کے 67 سالہ صحافتی سفر اور استفادے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ قارئین کو سمجھنے میں جہاں مغالطہ ہوسکتا تھا، مرتب نے اس کی پہلے ہی وضاحت کردی ہے۔ اب تک کے مدیران: مولانا سید حامد علی، جناب سید عبدالقادر، مولانا سید احمد عروج قادری، مولانا وحید الدین خاں، مولانا سید جلال الدین عمری، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی اور ڈاکٹر محمد رفعت کے اسمائے گرامی تحریر کیے گئے ہیں۔ میرے خیال میں ان کی حیات و خدمات کی تفصیل علیحدہ صفحات میں درج کیے جانے کی ضرورت تھی، تاکہ غیر تحریکی حلقے کے قارئین بھی سمجھ پاتے کہ ان کا شمار تحریکِ اسلامی کے ان عظیم مفکرین و دانش وروں میں ہوتا ہے جنہوں نے جماعت اسلامی کی فکری رہ نمائی کی ہے۔ اشاریہ میں اب تک شائع ہونے والے خاص نمبروں کی تفصیل بھی موجود ہے، جن میں مسلم پرسنل لا، طلاق، پانچواں کُل ہند اجتماع، پیام مسجد، داعیِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، انٹرویو اور احکام و مسائل کے موضوعات شامل ہیں۔ ٹائٹل کی پشت پر ڈاکٹر محمد رفعت کے وضاحتی کلمات کا اعادہ ہے جو کتاب کی ابتدا میں بھی موجود ہے۔ یہاں مرتب کی سوانح اور علمی خدمات کا تذکرہ زیادہ موزوں تھا۔ اشاریہ سازی میں مواد کی الف بائی ترتیب دینے کا بھی دستور ہے، لیکن یہ انداز استفادے کے نقطہ نظر سے زیادہ مفید اور کارآمد نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اسے بہ اعتبارِ موضوع ترتیب دے کر استفادے کا دائرہ اور وسیع کردیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مضمون نگاروں اور مترجمین کی فہرست مرتب کرکے انہیں بھی اشاریہ کی شکل دے دی گئی ہے۔ موصوف نے مواد کی چھان بین اور ترتیب و تدوین میں کتنی عرق ریزی اور دقتِ نظر سے کام لیا ہوگا، اس کا اندازہ اہلِ علم ہی لگا سکتے ہیں۔
قارئین پر واضح رہے کہ رسالہ ’’زندگی‘‘ میں اشارات، مطالعۂ قرآن، ارشاداتِ رسولؐ، مقالات، تراجم و اقتباسات، اخبار و افکار، رسائل و مسائل، روداد اجتماعات اور تنقید و تبصرہ کی شکل میں مستقل کالم رہے ہیں، جن کے تحت مختلف موضوعات مثلاً مذاہب و فِرَق، نظریات، اسلامیات، عقائد و ایمانیات، عبادات، اسلامی علوم، رسائل و مسائل، تعلیمات و احکام، دعوت و تحریک، تصوف، تعلیم، سماجیات، معاشیات، سیاسیات، تاریخ، جغرافیہ، ممالک، سائنس، ادب، سیرتِ انبیا، علماء اور سلف صالحین، مسلمان، تہذیب و ثقافت، تنظیمیں، ادارے، کانفرنسیں اور سیمینار، ایوارڈ اور ماہنامہ زندگی پر کُل پانچ ہزار ترسٹھ 5063)) مضامین کی اشاعت ہوچکی ہے، جبکہ اردو، عربی، انگریزی،فارسی اور ہندی زبانوں میں کُل ایک ہزار دو سو تیرہ 1213) )کتب و رسائل پر تنقید و تبصرے شائع ہوچکے ہیں۔ رسالہ ’’زندگی‘‘ میں شائع شدہ کئی مضامین کتابی شکل میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی اور بعض دوسرے ناشرین کے یہاں شائع ہوچکے ہیں، لیکن اب بھی ان شماروں میں بہت سے مفید مضامین ہیں، جو کتابی صورت میں اشاعت کے منتظر ہیں۔ ترتیب و تدوین سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے موقع فراہم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ موضوع کا انتخاب کرکے جمع و تدوین کے کام کرسکیں۔
پیشِ نظر اشاریہ سے یقینا ریسرچ و تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے استفادے کی نئی راہیں کھلیں گی، تحریکی حلقے کے وابستگان کو یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ تحریکِ اسلامی کے دورِ اوّل کے قائدین کوکن مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا تھا؟ نیز ان آزمائشوں سے نکلنے میں وہ کس طرح کامیاب ہوئے؟ فہرست مضامین دیکھ کر یہ جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ وہ کون سے اہم عناوین ہیں جن پر ابھی تک قلم کاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی ہے؟ اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے میں مدد ملے گی۔ اللہ تعالیٰ مرتب کی اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے اس عظیم کاوش کو شرفِ قبول سے نوازے۔ امید ہے، علمی حلقوں میں اس پیشکش کا خیر مقدم کیا جائے گا‘‘۔
پاکستان میں شائع ہونے والے جماعتی مجلات کے اشاریے بھی شائع ہونے چاہئیں۔ یہ کتاب پاکستان میں بھی کسی جماعتی ادارے کو شائع کرنی چاہیے۔
کتاب مجلّد اور سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔