کینیڈا کے سائنس دان کا کہنا ہے کہ محض سادہ ماسک پہننے سے کورونا وائرس کونہیں روکا جاسکتا، لیکن اسی ماسک پر عام نمک کی ایک پرت لگاکر کورونا وائرس کو مؤثر انداز میں ہلاک کیا جاسکتا ہے۔ یونیورسٹی آف البرٹا میں بایو میڈیکل انجینئر پروفیسر ہیو جِک چوئی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس روکنے کے لیے جو سرجیکل ماسک استعمال ہوتے ہیں اُن میں دو طرح کی خامیاں ہیں، اوّل یہ کہ وہ ہوا میں تیرتے ہوئے مائع کے بڑے قطرے ہی روک سکتے ہیں، جبکہ کورونا وائرس اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ وہ مائع کے انتہائی باریک قطروں میں رہتے ہوئے ناک اور پھر سانس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا ایک اور حل این 95 اور این 99 قسم کے ماسک مہنگے ہوتے ہیں جنہیں زیادہ دیر تک پہنا نہیں جاسکتا۔ دوسری جانب ماسک کے سوراخوں میں بھی وائرس پھنس جاتے ہیں اور بار بار ماسک اتارنے اور پہننے سے انگلیوں اور ہاتھوں پر چپک سکتے ہیں۔ اس لیے وائرس کوختم کرنے والے ایک ماسک کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ اس کا کم خرچ اور آسان حل نمک والے ماسک کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حل کے طور پر پروفیسر ہیو جِک چوئی نے روایتی ماسک پر نمک کی ایک پرت لگائی ہے جو پانی کے قطروں کو جذب کرلیتی ہے۔ دوسری جانب وائرس اس سے ٹکراتے ہیں تو فنا ہوجاتے ہیں، جس کے لیے انہوں نے سوڈیم کلورائیڈ اور پوٹاشیم کلورائیڈ جیسے عام نمک پر مشتمل ایک پرت تیار کی ہے۔ پروفیسر ہیو کے مطابق ’’ہم نے نمکین ماسک تین اقسام کے فلو وائرس پر آزمایا اور صرف 30 منٹ میں نمک کی تہ نے اکثر وائرس کو ختم کرڈالا‘‘۔ اگرچہ اسے نئے کورونا وائرس پر نہیں آزمایا گیا لیکن توقع ہے کہ انفلوئینزا کے باقی وائرس کی طرح یہ کورونا وائرس کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔ اب یونیورسٹی نے بتایا ہے کہ کاروباری شریک ملنے کی صورت میں ایک سے ڈیڑھ برس میں یہ ماسک بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ تب تک سائنس دانوں کا مشورہ ہے کہ ماسک پہنتے اور اتارتے وقت ہر مرتبہ اپنے ہاتھ اور چہرے کو اچھی طرح دھوئیں، اور اگر ممکن ہو تو تھوڑے تھوڑے دن بعد ماسک تبدیل کرلیں اور پہلے ماسک کو اچھی طرح تلف کریں۔ پروفیسر ہیو ایک عرصے سے وائرس اور مختلف ماسک پر تحقیق کررہے ہیں، انہوں نے 2017ء میں تجویز کیا تھا کہ دروازے کھولنے کے دستوں اور سیڑھیوں کی سہارا دینے والی ریلنگ پر نمک کا لیپ کرکے انفیکشن کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
کلائمیٹ فنانسنگ: لمحۂ موجود کی ضرورت اور نفع بخش سرمایہ کاری
گزشتہ دو برسوں کے دوران شدید موسم کے باعث آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے عالمی سطح پر 470 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ تباہ کن اثر عالمی درجۂ حرارت میں صرف ایک ڈگری سیلسیئس اضافے کا نتیجہ تھا۔ حال ہی میں آسٹریلیا میں لگنے والی ہولناک آگ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ موسمی تغیر (کلائمیٹ چینج) ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ اگرچہ موسمی تغیر سے ہر ملک متاثر ہوا ہے تاہم بعض ممالک کچھ زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ ’’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2018‘‘ نامی آگاہی دستاویز کے مطابق پاکستان 1997ء سے 2016ء کے درمیان موسمی تغیرات سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر تھا۔ اس تناظر میں موسمی تغیر کے اثرات محدود کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمی تغیر سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر ہونے والے اخراجات ’’ کلائمیٹ فنانسنگ‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس سے مراد مقامی، قومی اور بین الاقوامی فنانسنگ ہے جو قومی سطح پر عوام اور نجی شعبوں کے ساتھ ساتھ بیرونی ذرائع سے حاصل کی گئی ہو، تاکہ معیشت اور روزگار پر موسمی تغیر کے نقصانات کو محدود تر کیا جاسکے۔
چہرہ شناس ٹیکنالوجی مقدمہ:
فیس بُک پر 55 کروڑ ڈالر جرمانہ
فیس بُک متنازع چہرہ شناس (فیس ریکگنیشن) ٹیکنالوجی پر کیے گئے ایک مقدمے کے حل کے طور پر 55 کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا۔ یہ رقم پاکستانی روپوں میں 82 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
یہ مقدمہ فیس بُک پر تصویر کو لوگوں کے نام سے ٹیگ کرنے اور پہچاننے سے شروع ہوا جسے کئی یورپی ممالک میں متنازع قرار دیا جاچکا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد امریکی ریاست الینوائے کے شہریوں نے فیس بُک پر مقدمہ دائر کردیا تھا کیونکہ یہ لوگوں کی شناخت راز میں رکھنے والے بعض قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ مقدمہ 2015ء سے جاری ہے جس کا حتمی نتیجہ اب سامنے آیا ہے۔ الینوائے کے شہریوں نے درخواست میں کہا کہ چہرے کی شناخت پولیس ہی کرسکتی ہے، بصورتِ دیگر کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں۔ 2018ء میں یہ مقدمہ دوبارہ کھولا گیا اور اس ماہ امریکی سپریم کورٹ نے بھی مقدمے پر فیس بُک کی جانب سے کی گئی نظرثانی کی اپیل مسترد کردی تھی۔ مقدمے میں ریاست کے ایک ہزار ایسے انجینئر بھی شامل ہیں جو بہت خفیہ منصوبوں سے وابستہ تھے یا اب بھی ہیں۔ امریکی عدالت نے فیس بُک سے یہ دلچسپ سوال بھی کیا کہ وہ چہرہ شناخت کرنے والے آپشن کے عملی فوائد بھی بتائے، جس کے جواب میں فیس بُک عدالت کو مطمئن نہ کرسکی۔ واضح رہے کہ امریکی پولیس اہلکاروں کی وردیوں پر کیمرے لگے ہوتے ہیں، لیکن بعض امریکی شہروں میں مقامی قوانین کی بنا پر یہ عمل بھی غیرقانونی ہے۔ اب اس تنازعے کے حل کے طور پر فیس بُک 55 کروڑ ڈالر ادا کرے گا۔