ابوسعدی
الیگزینڈر بین (Alexander Bain) ،11جون 1818ء کو اسکاٹ لینڈ کے ایک شہر ابرڈین (Aberdeen) میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 18 ستمبر 1903ء کو مدفون ہوئے۔ ایک ایسے فلسفی تھے، جس نے ذہن اور اس کے ارتقا و عمل کے موضوع پر علم نفسیات کے جدید مطالعے کی بنا ڈالی۔ انہوں نے اسکاٹ لینڈ کے تعلیمی نظام کو بہتر اور مؤثر بنانے میں بہت تگ و دو کی۔ 1840ء میں گریجویشن کرنے کے بعد فوری طور پر The Westminster Review میں تحقیقی اور تخلیقی مضامین لکھنا شروع کیے۔ ان علمی مقالات کے ذریعے ان کا تعارف مشہور مفکر جان اسٹورٹ مل سے ہوا اور یہ لندن میں ان کے علمی حلقے میں شریک ہوگئے۔ یہاں پر بین صاحب 1848ء سے 1850ء تک محکمہ صحت کے بورڈ کے سیکریٹری کے بطور خدمات انجام دیتے رہے اور اس سے اگلے دس برسوں میں وہ ایک ماہر تعلیم اور سول سروس کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ 1860ء سے 1880ء تک وہ ابرڈین یونیورسٹی میں منطق اور انگریزی ادبیات کے استاد رہے، جہاں پر انہوں نے تدریس تعلیم کے جدید طریقوں کو متعارف کرایا اور اسلوبِ تعلیم کی اصلاح کی۔ انہوں نے علم نفسیات کے سائنسی منہاج اور تناظر پر بہت محنت سے کام کیا۔ اس ضمن میں بین صاحب نے تصور (Idea) اور ذہن(Mind) کے مجرد تصورات سمجھنے کے لیے طبعی لزومات (Physical Correlatives) تلاش کیے۔ اس سلسلے میں دماغ اور اعصابی نظام کے عمل اور ارتقا کے لیے مزید تحقیق و تفتیش پر زور دیا۔ انہوں نے علم نفسیات پر Mind کے عنوان سے 1876ء میں ایک تحقیقی مجلے کا آغاز کیا۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
بے ایمان آدمی
ایک ایمان دار اور غریب بڑھئی کا بسولا ندی میں گر پڑا۔ بڑھئی نے دعا کی کہ: ’’اے خدا میں غریب آدمی ہوں اور میرے رزق کی ڈوئی ندی میں گر پڑی ہے۔ تُو میری مدد کر۔ میرا بسولا مل جائے‘‘۔
خدا نے اس کی دعا منظور کی اور خودبخود ندی سے ایک سونے کا بسولا نکلا اور آواز آئی کہ: ’’لے اپنا بسولا‘‘۔
بڑھئی نے کہا: ’’اے خدا یہ تو میرا بسولا نہیں ہے‘‘۔
پھر چاندی کا بسولا نکلا اور آواز آئی کہ: ’’لے‘‘۔
بڑھئی نے کہا: ’’یہ بھی میرا نہیں‘‘۔
پھر لکڑی کا بسولا نکلا جسے بڑھئی نے پہچان لیا اور لپک کر لے لیا۔ بڑھئی کی بات خدا کو بہت پسند ہوئی اور غیب سے آواز آئی کہ: ’’لے تجھ کو سونے اور چاندی کا بسولا انعام دیا، اور لے اپنا کام کر‘‘۔
یہ بات کوئی بدذات اور بے ایمان دیکھ رہا تھا۔ اگلے دن اس نے قصداً ایک بسولا ندی میں لاکر ڈال دیا اور لگا چّلانے: ’’اے خدا میرا بسولا، میرا بسولا‘‘۔
ندی سے سونے کا بسولا پیدا ہوا اور آواز آئی کہ: ’’لے اپنا بسولا‘‘۔
یہ بے ایمان کہتا ہوا دوڑا کہ: ’’ہاں یہی میرا بسولا ہے‘‘۔
جواب ملاکہ: ’’تُو پاجی ہے۔ بسولا تیرے پاس نہیں آسکتا، تو بسولے کے پاس چلا آ‘‘۔ اس بے ایمان کا پائوں پھسلا اور ندی میں گر کر ڈوب گیا۔
حاصل: بے ایمان آدمی ظاہر میں خدا کو پکارتا ہے مگر دل سے اس کا ادب نہیں کرتا۔
(منتخب الحکایات، نذیر احمد دہلوی)
متفرق اقوال
٭زیادہ قرض ایک مخلص انسان کو جھوٹا بنا دیتا ہے اور ایک باعزت انسان کو قصوروار بنادیتا ہے۔
٭جاہل کا موزوں جواب خاموشی ہے۔
٭دنیا ایک مکان ہے جو عقوبتوں سے گھرا ہوا ہے اور جس کے گرد خباثتوں کا ڈھیر ہے، وہ لوگ جو اس کے قریب جاتے ہیں، تباہ ہوجاتے ہیں۔
٭کتابیں علما کے باغات ہیں۔
٭درویش صابر، تونگر شاعر سے بہتر ہے کیونکہ اس کو خیالِ مال ہے اور اس کو خیالِ رب۔
٭تم دوسری عورتوں کا احترام کرو، لوگ تمہاری عورتوں کا احترام کریں گے۔
٭کوئی عبادت اس سے بہتر نہیں کہ آدمی اپنے پیٹ اور شرمگاہ کو بچائے۔
(اقوال زریں کا انسائیکلوپیڈیا، نذیر انبالوی)
لاف زن سپاہی
ایک سپاہی جو اپنی شجاعت، قوت اور تیغ رانی کی بے طرح ڈینگیں مارا کرتا تھا، اسے ایک مرتبہ جنگ میں شامل ہونا پڑا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ سرپٹ بھاگا جارہا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ وہ تمہاری قوت کہاں گئی؟ کہنے لگا: اس وقت سمٹ کر لاتوں میں آگئی ہے۔
(ماہنامہ چشم بیدار، دسمبر 2019ء)