لکڑی کا پیالہ

پروفیسر اطہر صدیقی
مجھے یقین ہے کہ آپ آج یہ کہانی پڑھ کر کل، ایک ہفتے بعد، ایک ماہ بعد بلکہ ایک سال بعد تک یاد رکھیںگے۔
ایک لاغر بوڑھا شخص اپنے بیٹے، بہو اور چار سالہ پوتے کے ساتھ رہنے کے لیے گیا۔ اس بے چارے کے ہاتھوں میں رعشہ تھا، آنکھوں سے نظر بھی کم آتا تھا اور چلنے میں مشکل درپیش ہوتی تھی۔ کھانے کی میز پر سارا خاندان کھانا ساتھ کھاتا تھا۔ ہاتھوں میں رعشہ اور نظر کمزور ہونے کی وجہ سے کھانا کھانے میں ضعیف آدمی کو دقت پیش آتی تھی۔ کبھی مٹر کے دانے منہ میں جانے سے پہلے ہی چمچے سے میز پر اور پھر زمین پر گر جاتے تھے، کبھی دودھ کے گلاس سے دودھ چھلک کر میز پوش خراب کردیتا تھا۔ کھانا کھاتے میں منہ سے آواز بھی ہوتی تھی۔ بیٹا اور بہو بوڑھے کی ان سب حرکتوں سے خاصے تنگ آگئے تھے۔ بیٹے نے کہا کہ میں دونوں وقت کھانا، دودھ وغیرہ میز اور زمین پر گرنے سے پریشان ہوگیا ہوں، اب ہمیں اس مصیبت کا کچھ علاج کرنا چاہیے۔
بیٹے، بہو نے بوڑھے باپ کے کھانے کے لیے کمرے کے کونے میں ایک چھوٹی سی میز لگادی جہاں وہ اکیلے اپنا کھانا کھاتے تھے اور باقی خاندان کھانے کی میز پر ساتھ کھانا کھانے کا مزا لیتا تھا۔ چوں کہ ہاتھوں میں رعشہ ہونے کی وجہ سے شیشے کی کئی پلیٹیں بوڑھے باپ سے ٹوٹ چکی تھیں، اس لیے یہ طے کیا گیا کہ ان کا کھانا لکڑی کے ایک پیالے میں دیا جایا کرے۔
جب کھانا کھاتے اہلِ خاندان کی نظر بوڑھے کی طرف پڑ جاتی تھی تو وہ دیکھتے کہ بڑے میاں اکیلے بیٹھے ہیں اور ان کی پلکوں پر ایک آنسو تیر رہا ہے۔ اس کے باوجود بہو بیٹا ان کو زمین پر کھانا یا چمچہ کانٹا گرا دینے پر سرزنش کرتے رہتے تھے۔ چار سالہ پوتا یہ سب خاموشی سے دیکھتا رہتا تھا۔
ایک شام کھانے سے پہلے بیٹے نے دیکھا کہ اس کا چار سالہ بیٹا فرش پر لکڑی کے کچھ ٹکڑوں سے کھیل رہا ہے۔ اس نے پیار سے اپنے بیٹے سے پوچھا:
’’تم کیا بنا رہے ہو؟‘‘
بچے نہایت معصومیت سے جواب دیا:
’’میں آپ کے اور ممی کے لیے لکڑی کا پیالہ بنا رہا ہوں تاکہ آپ لوگ جب بوڑھے ہوجائیں گے تو اس میں کھانا کھایا کریں گے‘‘۔
اور وہ بچہ مسکرا کر پھر اپنے کھیل میں مشغول ہوگیا۔
بچے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ماں باپ کو ایسا لگا جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو اور وہ بالکل خاموش ہوگئے۔ تب ان کی آنکھوں سے آنسو نکل کر ان کے رخساروں پر بہنے لگے۔ گوکہ دونوں نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں ادا کیا لیکن دونوں جانتے تھے کہ کیا کرنا چاہیے۔ رات کو بیٹے نے بوڑھے باپ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو کھانے کی اسی میز تک لے جاکر بٹھا دیا جہاں سب خاندان ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اس دن کے بعد سے نہ بیٹے نے اور نہ اس کی بیوی نے اس کی پروا کی کہ کب کھانا یا دودھ میز پر گر گیا یا چمچہ کانٹا زمین پر آپڑا، یا میز پوش گندا ہوگیا!!
کسی بھی شخص کے بارے میں آپ بہت کچھ صرف اس بات سے جان سکتے ہیںکہ وہ اپنے بزرگوں کا کیسے خیال رکھتا ہے۔ بغیر یہ جانے ہوئے کہ آپ کے اپنے بزرگوں سے کیسے تعلقات رہے ہیں، میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ آپ انہیں ضرور یاد کریں گے جب وہ آپ کی زندگی سے دور چلے جائیں گے۔ زندہ رہنے اور زندگی بنانے میں فرق ہے۔ کبھی کبھی زندگی بنانے کے لیے دوسرا موقع بھی مل جاتا ہے، اس لیے اس کو کھونا نہیں چاہیے۔ میں نے سیکھا ہے کہ:
اگر آپ خوشی کے پیچھے بھاگیں تو وہ آپ سے دور بھاگتی ہے۔
اگر آپ اپنے خاندان، اپنے دوستوں اور اپنے کام پر دھیان دیں تو خوشی خود آپ کو ڈھونڈلے گی۔
جب کبھی بھی فیصلے کھلے دل سے کیے جاتے ہیں، عام طور پر وہ صحیح ہوتے ہیں۔
میں نے سیکھا ہے:
جب میں تکلیف میں ہوتا ہوں تو میں اکیلا نہیں ہوں، دنیا میں بہت لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں۔
ہر دن کوئی اچھا کام ضرور کیجیے، کسی کا ہاتھ تھام کر یا گلے لگا کر، اس لیے کہ لوگ خلوص، محبت اور گرم جوشی سے گلے ملنا پسند کرتے ہیں۔ مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔