ہندوستان دوبارہ ٹوٹنے والا ہے؟۔
۔1940ء میں سوال 6 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا تھا۔ آج بھارت میں یہ سوال 20 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا ہے
اند را گاندھی نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ یہ بات محدود معنوں میں درست اور دو قومی نظریے کے وسیع تر سیاق و سباق میں غلط تھی۔ اس کا ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اِس وقت خود بھارت کی ہندو قیادت نے پورے جنوبی ایشیا میں دو قومی اور ایک قومی نظریے کی کشمکش کو خطے کی سب سے بڑی تاریخی، تہذیبی اور نظریاتی حقیقت بناکر کھڑا کردیا ہے۔
اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ نریندر مودی کے اقدام نے ثابت کردیا ہے کہ محمد علی جناح درست تھے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مودی نے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ میں مداخلت کی، اور تین طلاقوں کو خلافِ قانون قرار دلوا کر ثابت کردیا کہ بھارت میں مسلمانوں کے مذہبی قوانین بھی ہندو قیادت کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ کسی عورت کو ایک ساتھ تین طلاقیں دینا درست ہے یا نہیں، یہ مسلمانوں کا داخلی معاملہ ہے اور وہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ مگر مودی نے کہا کہ ہم بتائیں گے کہ مسلمانوں کے مذہبی قانون کی اصل تعبیر کیا ہے۔ قائداعظم کے دو قومی نظریے کی بنیادی دلیل یہی تھی کہ ہندو اکثریت کے ہندوستان میں ہمارا مذہبی، تہذیبی اور تاریخی تشخص محفوظ نہیں۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی قیادت مفادات کے تحت فیصلے کرتی ہے مگر کسی بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سیاست بازی سے بلند رہتی ہے، مگر بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے تنازعے میں جو فیصلہ دیا ہے اُس سے ثابت ہوگیا کہ بھارت کی سپریم کورٹ بھی ہندو انتہا پسندی کی اسیر ہے، اور وہ مسلمانوں کو ’’غیر قوم‘‘ اور ہندوئوں کو اپنی قوم سمجھتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد کے مقام پر ہندوئوں کے دعوے کو درست تسلیم نہیں کرسکتی تھی۔ اس لیے کہ اِس بات کی ایک شہادت بھی موجود نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ رہی سہی کسر CAA یعنی Citizenship Amendment act ، NCRیا National Population Register اور NPR یعنی National Register of Citizen نے پوری کردی۔ شہریت کے ترمیمی ایکٹ اور آبادی کی قومی رجسٹریشن نے پورے ہندوستان میں ہنگامہ برپا کردیا اور مسلمان بڑی تعداد میں احتجاج کے لیے نکل آئے، اور ابھی تک نکلے ہوئے ہیں۔ ان اقدامات نے بھی یہی بتایا کہ بھارت کی ہندو قیادت بھارت کے مسلمانوں کو ’’ایک قوم‘‘ اور ہندوئوں کو ’’دوسری قوم‘‘ سمجھتی ہے۔ اس صورتِ حال میں بھارت کے ممتاز اداکار نصیر الدین شاہ کو یہ کہنا پڑ گیا کہ مسلمان اب بھارت میں نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 72 سال تک بھارت میں کام کرنے کے بعد بھی مجھے یہ ثابت کرنا ہے کہ میں بھارتی ہوں تو اس سے زیادہ ظلم کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ تازہ ترین واردات یہ ہوئی ہے کہ بھارت کی جنگِ آزادی کے ہیرو سبھاش چندر بوس کے پوتے چندر کمار بوس نے جو بی جے پی بنگال کے نائب صدر بھی ہیں، صاف کہا ہے کہ بھارت ایک اور تقسیم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے شہریت کے متنازع قانون کا ذکر کیے بغیر کہا کہ قوم ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے (روزنامہ جنگ 25 جنوری 2020ء)۔ واشنگٹن پوسٹ کی ممتاز صحافی پامیلا کونسٹیبل نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر، سوئٹزر لینڈ ”دکھائی “دیتا ہے اور غزہ ”محسوس“ہوتا ہے، لیکن مسئلہ کشمیر کا نہیں ہے پورابھارت مسلمانوں کے لیےقابل برادشت ”دکھائی“ دیتا ہے مگر ناقابل برداشت ”محسوس“ ہوتا ہے، اس کا سبب ایک قومی اور دو قومی نظریے کی کشمکش ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت کے اعصاب پر دو قومی نظریے کی سب سے بڑی علامت پاکستان جس حد تک سوار ہے اُس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ نئی دہلی کے سابق صوبائی وزیر اور آئندہ صوبائی انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی امیدوار کپل مشرا نے کہا ہے کہ 8 فروری 2020ء کو ہونے والے انتخابات پاکستان بمقابلہ بھارت کے سوا کچھ نہیں۔ لکھنؤ سے یہ اطلاع بھی آگئی ہے کہ وہاں ایک ہندو گلوکارہ کو ’’قوالی‘‘ کا پروگرام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بھارت کی ہندو قیادت نے شاعری اور موسیقی کو بھی ’’اسلامی‘‘ اور ’’غیر اسلامی‘‘ بناکر انہیں بھی ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کے تناظر میں دیکھنا شروع کردیا ہے۔
بعض کم فہم اور کم علم لوگ دو قومی نظریے کو بیسویں صدی میں نمودار ہونے والی حقیقت سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کے درمیان برپا ہونے والی آویزش دراصل دو قومی اور ایک قومی نظریے کی کشمکش تھی۔ اس لیے کہ مجدد الف ثانی نے جہانگیر کی جن پالیسیوں پر اعتراضات کیے اُن میں سے ایک پالیسی گائے کے ذبیحے سے متعلق بھی تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی نے کہا کہ گائے ازروئے شریعت حلال ہے مگر بادشاہِ وقت نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے اس کے ذبیحے پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور یہ بات خلافِ اسلام ہے۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش بھی دو قومی اور ایک قومی نظریے کی آویزش کا حاصل تھی۔ داراشکوہ ہندوازم سے ہولناک حد تک متاثر ہوچکا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہندوئوں کی مقدس کتاب اپنشد معاذاللہ قرآن سے برتر ہے۔ اُس کے زمانے میں ہندوئوں کو یہ جرأت ہوگئی تھی کہ وہ کھلے عام مساجد شہید کردیتے تھے۔ چنانچہ اورنگ زیب کو اندیشہ تھا کہ داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو وہ اسلام کو برصغیر سے فنا کردے گا۔ چنانچہ اورنگ زیب نے جنوبی ایشیا میں اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی بقا اور سلامتی کے لیے داراشکوہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کی، اور دارا کو شکست دے کر علماء کے فتوے کے مطابق اسے قتل کرادیا اور ہندوستان کا اقتدار سنبھالا۔
بدقسمتی سے 1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد ہندوستان کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ یہ کہنا تو ٹھیک نہیں کہ اقتدار سے محرومی کے بعد مسلمان بھارت میں اپنے جداگانہ مذہبی تشخص سے بے نیاز ہوگئے، لیکن بہرحال مسلمان جداگانہ تشخص پر پہلے کی طرح اصرار کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ اس کا ایک بہت ہی بڑا ثبوت یہ ہے کہ برصغیر کے تین بڑے رہنما اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں ’’دو قومی‘‘ نظریے کے بجائے ’’ایک قومی‘‘ نظریے کے قائل تھے۔ سرسید فرماتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ محمد علی جناح کانگریس کے رہنما تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے۔ اقبال قوم پرست تھے، انہوں نے رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا اور خاکِ وطن کے ہر ذرے کو ’’دیوتا‘‘ قرار دیا۔ لیکن بھارت کی ہندو قیادت نے اپنے تعصب، تنگ نظری اور انتہا پسندی سے دو قومی نظریے کے شعور کو زندہ کردیا۔ چنانچہ بالآخر سرسید دو قومی نظریے کے ’’بانی‘‘ کہلائے۔ محمد علی جناح ’’قائداعظم‘‘ بن کر سامنے آئے اور انہوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنا ڈالا۔ خاکِ وطن کے ہر ذرے کو دیوتا کہنے والے اقبال کی بھی قلبِ ماہیت ہوگئی اور انہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی الگ ریاست کا تصور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فرمایا:۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
عمران خان کہتے ہیں کہ مودی ’’انتہا پسند‘‘ ہے۔ ’’فسطائی‘‘ ہے۔ عمران خان غلط نہیں کہتے۔ لیکن ہندو قیادت کے بارے میں جو بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ ہندو قیادت ہمیشہ ہی سے ’’انتہا پسند‘‘ اور ’’فسطائی‘‘ ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے 2020ء میں نہیں 1930ء میں گاندھی سے شکایت کی کہ شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلے عام کام کررہی ہیں مگر گاندھی انہیں کچھ نہیں کہتے۔ سرسید دو قومی نظریے کے علَم بردار اس لیے بنے تھے کہ گاندھی نے فارسی ہی کو نہیں، اردو کو بھی پیچھے دھکیلنا شروع کردیا تھا۔ فارسی بلاشبہ ہندوستان کی پیداوار نہیں تھی مگر اردو تو ہندوستان ہی میں پیدا ہوئی تھی، اور اس کے فروغ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کا بھی حصہ تھا۔ مگر گاندھی اپنے عمل سے کہہ رہے تھے کہ زبان کے دائرے میں بھی دو قومی نظریہ موجود ہے، اردو مسلمانوں کی اور ہندی ہندوئوں کی زبان ہے۔ مولانا آزاد نے “India Wins Freedom” میں صاف کہا ہے کہ وہ دہلی میں مسلم کُش فسادات کو رکوانے کے لیے نہرو سے اپیلیں کرتے رہے مگر نہرو یہ کہہ کر مولانا آزاد کو ٹالتے رہے کہ میں وزیر داخلہ سردار پٹیل سے اس سلسلے میں بات کرچکا ہوں مگر وہ کچھ کرتے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نہرو تھے یا سردار پٹیل؟ کیا سردار پٹیل کے لیے ممکن تھا کہ وہ نہرو جیسے وزیراعظم کی بات نہ مانتے؟ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں بنگال کو آزاد مسلم ریاست بنانے کی کوشش بھی ہوئی تھی۔ قائداعظم اس پر آمادہ تھے، مگر نہرو نے انکار کردیا۔ کیا کہہ کر؟ نہرو نے فرمایا: بنگال مسلم اکثریتی ریاست ہوگی اور ہندو مسلمانوں کا غلبہ قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ بنگال کو تقسیم کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 56 فیصد تھی تو ہندو اکثریت کے اصول کو کیوں تسلیم نہ کرتے؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہندو دل سے مانتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم نہیں ہیں بلکہ وہ مذہبی، تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے دو مختلف قومیں ہیں۔ مطلب یہ کہ ہندو لیڈر صرف پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم کہہ رہے تھے، ورنہ وہ خود دو قومی نظریے کے قائل تھے۔ اس دو قومی نظریے کا اظہار اُس وقت بھی ہوا جب بابری مسجد شہید کی گئی۔ بابری مسجد مودی کے عہد اور بی جے پی کے زمانے میں شہید نہیں ہوئی تھی۔ اُس وقت بھارت میں مرکز اور یوپی دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی اور نرسمہا رائو بھارت کے وزیراعظم تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نرسمہا رائو بابری مسجد کی شہادت کے روز پورے دن سوتے رہے۔ اس اعتبار سے بھارت کی ہندو جماعتوں کا فرق دشمن نمبر ایک، دشمن نمبر دو اور دشمن نمبر تین کا ہے۔
اس تناظر میں جس طرح بھارت کی ہندو قیادت نے بیسویں صدی کے اوائل میں ایک قومی اور دو قومی نظریے کی کشمکش خود برپا کی تھی، ٹھیک اسی طرح آج نریندر مودی اور بی جے پی ایک بار پھر ہندوستان میں ہندو مسلم کشمکش کو ہوا دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہر مذہب کے آدمی کو بھارت میں پناہ دیں گے مگر مسلمانوں کو پناہ نہیں دیں گے۔ وہ بھارت کے مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم اگر بھارت کے شہری ہو تو اپنی شہریت کو ’’ثابت‘‘ کرکے دکھائو۔
اس صورتِ حال کے خلاف بھارت کے مسلمانوں نے زبردست طریقے سے آواز اُٹھائی ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران دو ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مظاہرے ہوچکے ہیں۔ ریاستی جبر سے اب تک 27 لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ اس احتجاج کی خاص بات یہ ہے کہ احتجاج جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے شروع کیا، اور اس میں صرف طالبات ہی نہیں عام مسلمان خواتین بھی شامل ہوگئیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کے مسلمان سیاسی اعتبار سے متحرک نہیں تھے۔ مسلم خواتین کو گزشتہ 72 سال میں کبھی سڑکوں پر احتجاج کرتے نہیں دیکھا گیا۔ مگر اب وہ دہلی کے شاہین باغ میں احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھی ہوئی ہیں اور سخت سردی میں احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ بھارت میں ’’وجودی خطرے‘‘ یا Existential Threat سے دوچار ہوچکے ہیں، انہیں ’’ابھی نہیں، تو کبھی نہیں‘‘ کی صورتِ حال نے گھیر لیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے وجود کی پوری قوت سے کلام کررہے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو اپنی مزاحمت کے سلسلے میں بھارت کی کسی بڑی سیاسی یا مذہبی جماعت کی قیادت یا تائید دستیاب نہیں۔ چنانچہ عام مسلمان اپنی مدد آپ کے اصول کی بنیاد پر متحرک ہیں۔ بلاشبہ بائیں بازو اور کانگریس بھی مسلمانوں کی آواز میں آواز ملا رہی ہیں، مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی کی سیاست نے بھارت کے بائیں بازو اور خود کانگریس کو قومی سیاست کے حاشیے پر لاکھڑا کیا ہے۔ چنانچہ بایاں بازو اور کانگریس مسلمانوں کی حمایت کرکے خود کو سیاسی اعتبار سے اہم یا Relevent بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ بھارت کی ہندو قیادت میں سے اگر کوئی دل سے مسلمانوں کے ساتھ ہے تو وہ بنگال کی ممتا بینر جی ہیں۔ وہ اب تک کولکتہ میں چھے سے زیادہ احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرچکی ہیں، اور انہوں نے کہا ہے کہ شہریت کے سلسلے میں امتیازی قانون بنگال میں ہرگز نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا، اور اگر یہ قانون نافذ ہوگا تو اس کو نافذ کرنے والوں کو ان کی لاش پر سے ہوکر گزرنا پڑے گا۔ کیرالا، پنجاب اور راجستھان کی ریاستوں نے بھی شہریت کے امتیازی قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ کیرالا کی ریاست اس مسئلے کو لے کر بھارتی سپریم کورٹ میں کھڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے یا جیسا فیصلہ اُس نے بابری مسجد کے حوالے سے دیا ویسا ہی فیصلہ سامنے لاتی ہے۔ بلاشبہ کانگریس اس سلسلے میں کافی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے، لیکن کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے شاہین باغ میں مسلم خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے باطن کو آشکار کردیا۔ ششی تھرور نے احتجاجی دھرنے میں موجود مسلم خواتین سے کہا کہ وہ اپنے مذہبی تشخص پر اصرار نہ کریں وگرنہ ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ یعنی کانگریس کو مسلمان اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ قابلِ قبول نہیں۔ حالانکہ راہل گاندھی خود کو ’’ہندو‘‘ ثابت کرنے کے لیے آئے دن مندروں کے دورے کرتے رہتے ہیں۔ امریکی رہنما اور دانش ور امریکہ کے لیے ایک اصطلاح تواتر سے استعمال کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں امریکہ ایک “Melting Pot” ہے۔ یعنی امریکہ میں آباد ہونے والوں کا مذہبی، تہذیبی اور لسانی تشخص ختم ہورہا ہے اور سب لوگ بالآخر صرف ’’امریکی‘‘ بن کر رہ جانے کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔ یہ اپنی اصل میں ایک ’’نوآبادیاتی فکر‘‘ ہے، اور اس کا تکثیریت یا Plurality کے اصول سے کوئی تعلق نہیں۔ ششی تھرور نے بھی دہلی کی مسلم خواتین سے ایسی ہی بات کہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو بھارت میں اپنی بقا اور سلامتی درکار ہے تو وہ اپنے مذہبی تشخص پر اصرار نہ کریں۔ حالانکہ بھارت ہو یا امریکہ، یورپ ہو یا چین… مسلمانوں کی اصل طاقت اور اصل قوتِ مزاحمت ہی ان کا مذہبی تشخص ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کا دفاع نہیں کیا، بلکہ اسلام نے مسلمانوں کا دفاع کیا ہے۔ مسلمانوں نے جب جب اسلام کو ترک کیا ہے تب تب وہ مغلوب ہوگئے ہیں۔ بھارت کے مسلمان کوئی معمولی چیز نہیں، ان کی آبادی 20 کروڑ ہے۔ آسام میں وہ مجموعی آبادی کا 35 فیصد ہیں۔ بنگال میں وہ مجموعی آبادی کا 27 فیصد ہیں۔ یوپی میں ان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ ہے، اور یوپی میں مسلمان مجموعی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ بہار میں بھی مسلمان آبادی کا 15 فیصد ہیں۔ بھارت کی کئی اور ریاستوں میں ان کی آبادی 8 سے 10 فیصد ہے۔ چنانچہ مسلمان مزاحمت کریں گے تو بی جے پی چاہ کر بھی مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیادت کے خلا بلکہ قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔ یہ مسئلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہوکر سامنے آگیا تھا۔ خود قائداعظم کو بھی اس کا احساس تھا۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں ایک صاحب نے قائداعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ بھارت کے مسلمان ’’Leader Less‘‘ ہوگئے ہیں، کیا آپ بھارت کے مسلمانوں کی قیادت کے لیے بھارت جانا پسند کریں گے؟ قائداعظم نے کہا کہ اگر یہ اجلاس اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کرلے تو وہ بھارت جاکر بھارتی مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار ہیں۔
عمران خان اکثر کہتے رہتے ہیں کہ انہیں کشمیری مسلمانوں کی نسل کُشی کا خدشہ ہے۔ لیکن بھارت میں مسلمانوں کی نسل کُشی خدشہ نہیں ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ بھارت میں گزشتہ 72 سال کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات ہوچکے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی ’’جسمانی نسل کُشی‘‘ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے مسلمان پولیس اور ریلوے سمیت چھے سات بڑے محکموں میں دس سے پندرہ فیصد موجود تھے۔ آج ان اداروں میں مسلمانوں کی موجودگی دو فیصد بلکہ اس سے بھی کم ہے۔ یہ مسلمانوں کی ’’معاشی نسل کُشی‘‘ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 25 فیصد ہے مگر ریاستی سطح کی اسمبلیوں سے لے کر لوک سبھا تک مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی ایک سے دو فیصد کے درمیان ہے۔ یہ مسلمانوں کی ’’سیاسی نسل کُشی‘‘ ہے۔ مسلمان اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرلیں تو انہیں روزگار نہیں ملتا، چنانچہ مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کی طرف رغبت بہت کم ہوگئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی ’’تعلیمی نسل کُشی‘‘ ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے بھارت کے مسلمانوں پر کئی طرح کے نفسیاتی خوف مسلط کردیے ہیں۔ بھارت کے مسلم نوجوان کسی ہندو لڑکی کو مسلمان کرکے اس سے شادی نہیں کرسکتے۔ بھارت کے مسلمان بھینس کا گوشت بھی گھر میں رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں اسے گائے کا گوشت باور کرکے گھر پر حملہ نہ کردیا جائے۔ یہ مسلمانوں کی ’’نفسیاتی نسل کُشی‘‘ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری مکمل طور پر مسلم سماجیات اور مسلم کرداروں پر مبنی فلمیں بناتی تھی جیسے مغل اعظم، میرے محبوب، پالکی، چودھویں کا چاند، پاکیزہ، رضیہ سلطان۔ مگر اب مسلمانوں کی زندگی پر فلم بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب اگر فلموں میں مسلم کردار نظر آتے ہیں تو ان میں سے اکثر منفی یا حقیر ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی ’’ثقافتی نسل کُشی‘‘ ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابلِ ادیان کے عالم ہیں، اور وہ ہندو عالموں کو مکالمے کی کھلی دعوت کے لیے مشہور ہیں، مگر بھارت نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ملک سے نکال باہر کیا ہے۔ یہ مسلمانوں کی ’’دانش ورانہ نسل کُشی‘‘ ہے۔ لیکن ذاکر نائیک کے معاملے میں مسلمانوں، بالخصوص بھارتی مسلمانوں کے لیے ’’تقویت‘‘ کا بھی ایک پہلو ہے، اور وہ یہ کہ ایک ارب ہندو علم اور مکالمے کی سطح پر صرف ایک مسلمان کا مقابلہ نہ کرسکے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعتاً بھارت ایک اور تقسیم کے راستے پر چل نکلا ہے؟
تاریخ کے اس مرحلے پر اس سوال کا حتمی جواب دینا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں، مگر بعض حقائق کا تجزیہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ صورتِ حال کیا ہے اور کیا ہوسکتی ہے؟ فلمی دنیا ’’غیر سیاسی‘‘ لوگوں کی دنیا ہوتی ہے، بلکہ فلمی دنیا کا ’’لبرل ماحول‘‘ اکثر لوگوں کو ’’انسان‘‘ بھی نہیں رہنے دیتا۔ مگر مودی کے گجرات میں مسلم کُش فسادات ہوئے اور دو ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا تو ماضی کی ممتاز اداکارہ وجنتی مالا نے گجرات کے مسلمانوں کے لیے ایک بڑے ’’ریلیف کیمپ‘‘ کا اہتمام کیا۔ بی جے پی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے وجنتی مالا کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں مگر وجنتی مالا نے کہا کہ بے شک تم مجھے مار دو لیکن میں مظلوموں کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچوں گی۔ بلاشبہ وجنتی مالا نے جس کردار کا مظاہرہ کیا وہ بہت سے مذہبی لوگوں تک میں نہیں پایا جاتا، مگر اس کردار کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ گجرات کے مسلم کُش فسادات اتنے بھیانک تھے کہ ایک ’’اداکارہ‘‘ کے ’’ضمیر‘‘ کو بھی جھنجھوڑ سکتے تھے اور اسے جان کی بازی لگا دینے پر آمادہ کرسکتے تھے۔
شاہ رخ خان نے کئی سال پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’بعض سیاسی رہنما مجھے ایک پڑوسی ملک (یعنی پاکستان) کا وفادار باور کراتے ہیں اور میری حب الوطنی کو دوسرے بھارتی مسلمانوں کی حب الوطنی کی طرح مشکوک قرار دیتے ہیں۔ بعض لوگ جلوس نکالتے ہیں اور مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ میں اپنے اصل وطن (یعنی پاکستان) چلا جائوں‘‘۔ شاہ رخ خان سپر اسٹار ہے۔ وہ سیکولر بھی ہے، لبرل بھی۔ اس نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی ہوئی ہے۔ بھارت کے کروڑوں لوگ اس کے عاشق بھی ہیں۔ مگر بھارت کے ساتھ اس کی وفاداری مشکوک ہے، اور وہ اس مشکوک وفاداری پر ایک مضمون بھی لکھ ڈالتا ہے۔
شبانہ اعظمی خود سیکولر ہیں۔ اُن کے والد کیفی اعظمی کمیونسٹ تھے۔ ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ شبانہ اعظمی کے شوہر جاوید اختر بھی سیکولر ہیں۔ شبانہ اعظمی ہندوستان کی ’’بڑی اداکارہ‘‘ سمجھی جاتی ہیں، مگر چند سال قبل انہوں نے ایک انٹرویو میں شکایت کی کہ انہیں ممبئی کے کسی ’’Posh Area‘‘ میں گھر نہیں لینے دیا جاتا کیونکہ ہندو انہیں ’’مسلمان‘‘ سمجھتے ہیں۔
عامر خان بھارت کے ایک اور سپر اسٹار ہیں۔ وہ ایک ’’سیکولر انسان‘‘ ہیں۔ انہوں نے ایک ہندو عورت سے شادی کی ہوئی ہے۔ مگر انہوں نے چند سال قبل ایک انٹرویو میں کہا کہ میری بیوی اور میں بھارت میں اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس لیے کہ ہندو سماج عامر خان کے بچوں کو ایک ’’ہندو عورت کے بچے‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’مسلمان مرد‘‘ کے بچے باور کرتا ہے۔ نصیر الدین شاہ بھارت کے ’’عظیم اداکاروں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ بھی سیکولر ہیں، مگر اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہوکر بھارت میں نہیں رہ سکتے۔ دپیکا پیڈاکون بھارت کی ایک ممتاز اداکارہ ہیں۔ وہ ایک فلم بھی پروڈیوس کررہی ہیں اور بھارت میں اب فلم اربوں کا بزنس ہے، مگر اس کے باوجود دپیکا نے جواہر لعل یونیورسٹی آنے اور شہریت کے متنازع قانون پر احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کی جرأت کی۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ہندو معاشرہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر جیسے سیکولر مسلمانوں کو بھی اپنے اندر ’’جذب‘‘ نہیں کرسکتا تو پھر یہ معاشرہ ’’حقیقی مسلمانوں‘‘ کو اپنے اندر کیسے ’’جذب‘‘ کرے گا؟ اور نہیں کرے گا تو یہ مسلمان مجبوراً مزاحمت اور علیحدگی کی طرف جائیں گے یا نہیں جائیں گے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جب شاہ رخ خان کی ’’حب الوطنی‘‘ بھی ’’مشکوک‘‘ ہے تو پھر کسی اور مسلمان کی حب الوطنی کو بھارتی سماج کیسے حب الوطنی تسلیم کرے گا؟ اور نہیں کرے گا تو ’’غدار مسلمان‘‘ بالآخر مزاحمت، بغاوت اور علیحدگی کی طرف جائیں گے یا نہیں جائیں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب ظلم اتنا بڑھے گا کہ وجنتی مالا مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنی جان، اور دپیکا پیڈاکون اپنا ’’کیریئر‘‘ دائو پر لگانے کے لیے تیار ہوجائیں گی تو جو لوگ عملاً ظلم سہہ رہے ہوں گے وہ بالآخر کس حد تک نہیں جاسکیں گے؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1940ء میں سوال 6 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا تھا۔ آج بھارت میں یہ سوال 20 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا ہے۔ 2050ء میں یہ مسلمان بڑھ کر 45 کروڑ ہوجائیں گے۔ چنانچہ پھر سوال 45 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا ہوگا۔ جب سوال آج بھی بڑا ہے اور مستقبل میں اور بھی بڑا ہوگا تو دنیا اور خود بھارت اسے کب تک نظرانداز کرے گا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کے مسلمانوں کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے، البتہ انتہا پسند ہندوئوں کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ بھارت کے مسلمان اب تک خوف میں مبتلا تھے۔ یہ خوف تحلیل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ خوف شیر کو بھی بکری بنادیتا ہے، لیکن خوف سے آزاد ہوکر بکری بھی شیر بن جاتی ہے۔ بھارت کے مسلمان خوف سے آزاد ہوجائیں تو وہ 20 کروڑ کے بجائے 40 کروڑ محسوس ہونے لگیں گے۔ مودی سرکار نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔ ضلع میرٹھ اور ضلع مظفر نگر کے مسلمانوں کو گھروں میں گھس کر مارا جارہا ہے۔ انہیں ننگا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کے مقعد میں ڈنڈے گھسائے جارہے ہیں۔ ان کی خواتین پر حملے ہورہے ہیں۔ مظفر نگر میں مسلمانوں کی ڈیڑھ درجن سے زیادہ دکانوں کو صرف اس لیے سیل کردیا گیا کہ وہ مودی سرکار کے ظلم پر احتجاج کررہے ہیں۔ یہ سب مسلمانوں کو خوف میں مبتلا رکھنے اور ان کے خوف کو بڑھانے کے طریقے ہیں۔ لیکن ہندو طاقت کے استعمال کی ’’کمزوری‘‘ کو نہیں سمجھتے۔ طاقت کی کمزوری یہ ہے کہ جب تک آپ کسی کو طمانچہ نہیں مارتے وہ طمانچے کی طاقت سے ڈرتا رہتا ہے، لیکن جب آپ کسی کو طمانچہ مار دیتے ہیں تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ طمانچے کی طاقت کتنی ہے، پھر آپ کو اپنے حریف کے گال پر ایک کے بجائے دو، پھر دو کے بجائے چار، اور پھر چار کے بجائے آٹھ طمانچے مارنے پڑتے ہیں، یہاں تک کہ طاقت کا خوف اُس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے دل سے طاقت اور موت کا خوف اس لیے نکلا کہ انہوں نے طاقت کو سہہ کر دیکھ لیا۔ بھارتی مسلمانوں کا تحرّک بتا رہا ہے کہ وہ بھی خوف کا حصار توڑ رہے ہیں۔
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کے سلسلے میں پاکستان کی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی ذمے داری غیر معمولی ہے۔ قائداعظم نے تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے سلسلے میں بھارت کے مسلمانوں کے کردار کو ’’مینارۂ نور‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اگر بھارت میں مسلم اقلیت پر ظلم ہوا تو پاکستان بھارت میں فوجی مداخلت کرے گا۔ قائداعظم کے نزدیک بھارتی مسلمان اتنے اہم تھے کہ وہ قیام پاکستان کے بعد بھارتی مسلمانوں کی قیادت کے لیے بھارت جاکر آباد ہونے پر آمادہ تھے۔ چنانچہ پاکستان بھارتی مسلمانوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں 60 کروڑ مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کی تقدیر ایک ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت کے 20 کروڑ مسلمان پٹیں گے تو پاکستان کے 22 کروڑ اور بنگلادیش کے 16 کروڑ مسلمان مزے کریں گے۔ بھارت صرف بھارت کے مسلمانوں پر نہیں بلکہ پورے خطے اور اس کے مسلمانوں پر بالادستی چاہتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو 60 کروڑ مسلمانوں کی تقدیر کے ایک ہونے کے تصور کو اجاگر بھی کرنا چاہیے اور اس تقدیر کو محفوظ بنانے کی حکمتِ عملی بھی وضع کرنی چاہیے۔ پاکستان اس خطے کے مسلمانوں کی ’’تقدیر‘‘ نہیں تھا۔ اسے قائداعظم کی ’’مزاحمت‘‘ نے مسلمانوں کی تقدیر بنایا۔ اس وقت بھی 60 کروڑ مسلمانوں کی مزاحمت ہی ان کو ایک نئی اور شاندار تقدیر خلق کرکے دے سکتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو فرد ملت کے مقدر کا ”ستارہ “نہیں بن پاتا وہ ملت کے مقدر کا ’’خسارہ‘‘ بن جاتا ہے۔