سیاسی حکومتوں کا المیہ

مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات پر پارلیمان میں مکمل بحث کی ضرورت ہے

عمران خان حکومت اپنا دوسرا پارلیمانی سال گزار رہی ہے، جس کا پہلا نصف گزر چکا ہے۔ اب اسے اپنی کارکردگی دکھانی ہے، لیکن اس کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ انتظامی صلاحیت، اسی لیے یہ ابھی تک ماضی میں الجھی ہوئی ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں حکومتوں کا حصہ رہنے والے وزراء بھی کہہ رہے ہیں کہ خرابیاں ماضی کا بوجھ ہیں۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ حکومت اپنے پائوں پر چلنے کے قابل نہیں ہوئی تو سوال اٹھنا جائز ہے کہ اسے برداشت کیوں کیا جارہا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 46 میں درج ہے کہ وزیراعظم کا فرض ہوگا کہ وہ صدر کو وفاق کے امور کے انتظام اور قانون سازی کی تجویزوں سے متعلق کابینہ کے فیصلوں کی اطلاع دے۔ وفاقی پارلیمانی نظام دراصل پارلیمنٹ پر مشتمل ہوتا ہے اور صدر اس کا باقاعدہ حصہ ہے۔ لیکن ہر سیاسی حکومت میں صدر کا عہدہ ایک علامتی عہدہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ماضی میں بھی یہی کچھ تھا اور آج بھی یہی ہے، اسی لیے تو صدرِ مملکت کو آٹے کے بحران کی اطلاع نہیں تھی، لیکن اس پر صدر مملکت نے اپنے ایک آرٹیکل میں بڑی وضاحت کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کیا ہے کہ انہیں اس بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے تھا لیکن چونکہ اس وقت معلومات مکمل نہیں تھیں لہٰذا وہ صورتِ حال پر اپنی رائے نہیں دے سکے۔ صدر کی وضاحت اب قارئین کی عدالت میں ہے اور فیصلہ بھی انہی پر چھوڑ رہے ہیں۔
پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا یہ المیہ رہا ہے کہ اس نے آئین میں درج ہر ادارے کے اختیارات کو اس کی اصل روح کے ساتھ نہیں دیکھا ہے، جس کا نتیجہ یہ رہا کہ بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت حکومت داخلی اور خارجہ محاذ پر گہرے بحرانوں کے گھیرے میں ہے، اسے پارٹی میں بھی بڑھتے ہوئے اختلافِ رائے، حتیٰ کہ پنجاب اور کے پی کے میں وزراء اور وزیراعلیٰ کے مابین سرد جنگ کا بھی سامنا ہے۔ فی الحال کے پی کے میں تین وزراء کی برطرفی اسی کا نتیجہ ہے۔ خارجی محاذ پر حکومت مقبوصہ کشمیر، سی پیک اور افغانستان جیسے مسائل کے محاصرے میں ہے۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ رہا ہے اور ہے، لیکن پانچ اگست کے بعد اس محاذ پر بیانات کی حد تک چراغوں میں روشنی نظر آرہی ہے، عمل کی دنیا میں یہ حکومت ’’شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور‘‘ کی عملی تصویر بنی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ پہلا یوم یکجہتی کشمیر ہوگا کہ جب ہم یہ دن ایک ایسے ماحول میں منا رہے ہوں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست سے مکمل اور مسلسل کرفیو نافذ ہے اور اسلام آباد سے کوئی امید افزا پیغام سری نگر نہیں جارہا۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے لیے ڈیوس گئے جہاں امریکی صدر ٹرمپ سے اُن کی ملاقات بھی ہوئی۔ اس ملاقات کا ایجنڈا افغانستان تھا۔ ہماری شمال مغربی سرحد پر پیش آنے والے واقعات نے بہت سے مسائل کھڑے کررکھے ہیں، اور بھارت کی جانب سے ہمیں کھلی دھمکیاں مل رہی ہیں، بلکہ ایک ایسی ہائبرڈ جنگ کا سامنا ہے جس میں دشمن ہے بھی اور کھل کر سامنے بھی نہیں آتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے وقت کا دھارا پاکستان کو بھی مصر جیسا ماڈل بنانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ تمام اداروں کو جانتے بوجھتے کمزور کیا گیا۔ اب جو ایک ادارہ بچ رہا تھا اُس پر بھی وار کیا جارہا ہے۔ ملک اور قوم کو آزاد عدلیہ، جیتی جاگتی پارلیمنٹ اور دستور پاکستان ہی اس بحران سے باہر نکال سکتے ہیں، لیکن پارلیمان کو تو ہر حکومت نے بے توقیر کیا ہے، اب بھی یہی ہورہا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کی کہ پاکستان کا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کیا کردار رہا۔ اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے پہلی بار باقاعدہ یہ اعتراف کیا کہ حکومت سہولت کار بنی ہے۔ لیکن یہ کام کس قیمت پر کیا گیا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ کے نزدیک اپنے مفادات ہیں، ہمیں بھی اپنے مفادات سامنے رکھنے چاہیے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈیوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ ہماری پہلی ترجیح افغانستان ہے۔ اگر ایسا ہے تو کشمیر اور کشمیریوں کے لیے کیا معاہدہ ہوگا؟ اگر یہی صورت حال تھی تو عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ آج ہماری معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ہاتھوں گروی ہے۔ پانچ اگست گزرے چھے ماہ ہونے والے ہیں لیکن آج تک پارلیمنٹ میں قرارداد کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی اور کشمیر کی صورتِ حال پر ایک مکمل بحث ہوتی اور مل کر ایک متفقہ حکمت عملی قوم کے سامنے رکھنے کی ضرورت تھی۔ مگر حکومت ایسا نہیں کر سکی تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی وہی ہے جو ماضی میں تھی۔ ماضی میں ہر حکومت یہی کرتی رہی کہ اس نے خارجہ پالیسی میں بہتری لانے کے لیے اس کا انجن کھولا، مگر جب انجن بند کیا تو ایک نٹ اس کے ہاتھوں میں بچ رہا۔ آج ہمیں جس صورتِ حال کا سامنا ہے اُس میں غلطی کی گنجائش نہیں ، اسی لیے خارجہ پالیسی کوتبدیل اور قومی مفاد کے تحفظ کے لیے کارآمد بنانے کے لیے گہرے تجزیے کی ضرورت ہے۔ یہ تجزیہ اس بنیاد پر ہونا چاہیے کہ برصغیر میں ہندو مسلم تعلقات کی ایک تاریخ ہے، ہندو مسلمان ایک ہزار سال تک اکٹھے رہنے کے باوجود دوست نہ بن سکے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی سلامتی کی تلاش ہی ہمارا مستقل مسئلہ رہا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ جب تک پاکستان حقیقی معنوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوجاتا اور ہندو اپنی ذہنیت تبدیل نہیں کرتے، پاکستان کی سلامتی ہی خارجہ پالیسی کا نمبر ون مسئلہ بنا رہے گا۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی کے مضمرات کو سمجھے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان اندرونی طور پر عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال کی بنا پر ہمیشہ بیرونی نشانے پر رہا ہے۔ ریاست کی سلامتی کے لیے دفاعی اہلیت اور سیاسی و معاشی آزادی اہم عوامل ہیں۔ خارجہ امور کے سلسلے میں ہمیں جتنے بھی چیلنج درپیش ہیں وہ ہمارے اندرونی مسائل کی وجہ سے ہیں۔سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ فوج کو اپنی طاقت سمجھیں، حریف نہ سمجھیں۔ عالم اسلام، پاک بھارت تعلقات، کشمیر ڈپلومیسی، بھارت کے ساتھ پانی، سیاچن اور سرکریک کے تنازعات، اقوام متحدہ کا کردار، علاقائی تعاون، نیوکلیئر ایشو پر جامع تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خارجہ پالیسی کے مستقل اساسی اصول ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے یہ اصول ہر دور میں ہر حکومت نے ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھے ہیں، ان اساسی اصولوں کے مطابق تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا خاص طور پر اسلامی ممالک، عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔ پاکستان کے قومی مفادات، آزادی، سماجی و معاشی ترقی کا تحفظ خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں کشمیر کا تنازع حل کرانا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔پاکستان کے معاشی اور تجارتی مفادات کو فروغ دینا، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے مفادات کی نگہداشت کرنا پاکستانی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں۔ مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے مگر ان کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ گہری سوچ بچار کے بعد خارجہ پالیسی اور ریاست کے استحکام کے سلسلے میں روڈ میپ بھی دیا ہے جس پر عمل کرکے پاکستان اپنے سماجی، معاشی، سیاسی اور خارجہ امور کے بحران پر قابو پا سکتا ہے اور ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ ہمیں ایسی جمہوریت پر یقینِ کامل ہونا چاہیے جس کی بنیاد عوام کی مرضی، شراکت اور مشاورت پر رکھی گئی ہو، جس میں عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور گڈ گورننس شامل ہو۔ عدلیہ، بیوروکریسی اور پولیس کو سیاسی اور عسکری مداخلت سے آزاد کیا جائے، تمام ریاستی ادارے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کریں، دُہری شہریت کے حامل کسی فرد کو پبلک منصب پر تعینات نہ کیا جائے، سیاسی جماعتیں اپنے اندر بھی انتخاب کرائیں، کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کا صاف اور شفاف نظام تشکیل دیا جائے، معاشی استحکام کے لیے زراعت اور صنعت پر خصوصی توجہ دی جائے،عوام کو ہنرمند بنایا جائے اور گھریلو صنعتوں پر توجہ دی جائے تاکہ معاشی اجارہ داریوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی تربیت کے لیے بھی ہر صوبے میں پولیٹکل اکیڈمیاں قائم کی جائیں۔

کے پی کے حکومت میں بغاوت کی کہانی

عاطف خان گروپ کے اختلافات کی کہانی یہ ہے کہ 2018 ء کے انتخابات میں جب تحریک انصاف خیبرپختون خوا میں دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو وزارتِ اعلیٰ کے لیے پرویزخٹک، اسد قیصر اور عاطف خان کے نام سامنے آئے تھے۔ وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں پرویزخٹک اور اسد قیصر مضبوط امیدوار تھے۔ وفاق میں تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لیے ارکانِ قومی اسمبلی کی مطلوبہ تعداد چاہیے تھی تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیک وقت نشستیں جیتنے والوں کو صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کی ہدایت کی گئی، یوں پرویزخٹک اور اسد قیصر صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر وفاقی حکومت کا حصہ بن گئے۔ اس طرح عاطف خان وزارتِ اعلیٰ کے مضبوط امیدار کے طور پر سامنے آنے لگے، لیکن وفاق میں عاطف مخالف گروپ نے ایسا نہیں ہونے دیا اور وزیراعلیٰ کے لیے محمود خان کے نام قرعہ نکلا۔ تب سے عاطف خان اس فیصلے سے ناراض تھے۔ جلتی پر تیل کا کام کابینہ میں توسیع اور وزارتوں کے ردوبدل کے فیصلے نے کیا ہے۔ جو لاوا پک رہا تھا وہ سامنے آگیا ہے۔ عاطف خان اور شہرام خان قریبی ساتھی ہیں، اس لیے شہرام خان سے بلدیات کا محکمہ لے کر صحت کی وزارت دینے کے حوالے سے بھی خفگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ عاطف خان کو بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ برداشت کریں، لیکن معاملہ بگڑگیا اور چھٹی کے روز تین وزرا کی چھٹی کردی گئی۔ تین وزرا کو نکالے جانے کے فیصلے کے آفٹرشاک ابھی باقی ہیں اور آنے والے دنوں میں کابینہ سے فارغ ہونے والے وزرا کے ساتھ گروپ کا حصہ بننے والے ارکانِ اسمبلی کو بھی شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔ اختلافات کا معاملہ کابینہ میں ہی نہیں، خیبر پختون خوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی اور ڈپٹی اسپیکر محمود جان کے درمیان بھی چل رہا ہے، اُن کے درمیان بن نہیں پارہی۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر نے بھی معاملہ بڑوں کے سامنے اٹھا دیا ہے، اور چند دنوں میں تحریک انصاف کے ’لاڑکانہ‘ کے پی کے میں باغی ارکان صوبائی حکومت کو چارج شیٹ کرنے والے ہیں۔