پروفیسر شمیم اختر بھی خاموشی سے چلے گئے۔ اب زندگی بھر پچھتاوا رہے گا کہ آخری دنوں میں ڈاکٹر معراج الہدی سے معلوم ہوا کہ وہ بستر علالت پر ہیں، لیکن اُن سے بوجوہ ملاقات اور ان کی عیادت نہیں ہوسکی۔ میں نے پروفیسر شمیم اختر سے یونیورسٹی میں باقاعدہ تو نہیں پڑھا لیکن جامعہ کراچی کے امتحانات اُن کے دیے گئے انفرادی لیکچر سے دیے، وہ اس طرح کہ وہ گلشنِ عمیر میں رہتے تھے، وہاں دوستوں سے ملنے جانا ہوتا تھا، پیپر سے چند دن پہلے ہم انہیں موضوع بتادیتے اور وہ اس پر تفصیلی اظہارِ خیال کرتے، جس کے بعد اُس موضوع پر لکھنے میں مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ آپ سے 2000ء کے بعد کئی ملاقاتیں رہیں، گھر پر جب بھی ملنے گیا تو بڑی محبت کے ساتھ ملے۔ جب فون کرو یا دروازہ کھٹکھٹائو تو ان کاایک جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے ’’کون صاحب؟‘‘بہت سادہ طبیعت کے اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ پروفیسر شمیم اختر نے ایک بھرپور زندگی گزاری، لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُن کے آخری دن ذرا مشکل تھے، اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی اکیلے ہوگئے تھے۔ کوئی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گھر کا سودا سلف خود ہی لاتے تھے۔ وہ اپنی زندگی میں کئی بار اپنی مجبوریوں اور بیماری کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں اور شاگردوں کے گھر بھی رہے۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہوگی، لیکن نمازِ جنازہ اور تدفین میں بڑی تعداد میں لوگ نظر نہیں آئے تو میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے انسانی تعلقات کی نوعیت وقت کے ساتھ ساتھ کتنی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ہاں ایک قابلِ ذکر شخصیت ان کے جنازے میں ضرور شریک تھی، وہ تھے سابق وفاقی وزیر جاوید جبار۔
پروفیسر شمیم اختر 10فروری 1931ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایڈووکیٹ تھے، جبکہ دادا مرتضیٰ حسین انگریز کے زمانے میں تحصیل دار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ آپ بتاتے ہیں کہ انہیں شکار کا بے حد شوق تھا اور انگریز افسروں کے ساتھ شکار پر جایا کرتے تھے۔ ہرن، مچھلی اور مرغابیوں کا شکار اکثر کھیلا کرتے تھے اور سرخاب انہیں بے حد پسند تھا۔ الٰہ آباد کے مقامی راجا سے دادا کے تعلقات بہت اچھے تھے، آپ چھوٹے تھے تو وہ آپ کے لیے ہاتھی منگوا لیا کرتے تھے اور آپ ہاتھی پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ماضی میں ہاتھی اکثر بادشاہ، نواب اور راجا پالا کرتے تھے۔ آپ نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ ہاتھی خاص طور پر جب ندی کنارے پانی پیتا تھا تو وہ کیا منظر ہوتا تھا! اُس کی سونڈ بڑی زبردست ہوتی ہے۔ اپنی دادی سے بھی جن کو ’اماں‘ کہتے تھے، بڑی عقیدت تھی۔ طبیعت ان سے بہت زیادہ لگتی تھی۔ انہیں کمال کی خاتون کہتے تھے۔ بتاتے تھے کہ اُن کے پاس ایک ایسا نسخہ تھا کہ مچھلی پکاتے ہوئے اس میں ڈال دیتی تھیں تو ایک بھی کانٹا منہ میں نہیں لگتا تھا، ایسا لگتا جیسے آپ بسکٹ کھا رہے ہوں۔ کہتے تھے کہ والدہ کھانا اتنا اچھا پکاتی تھیں کہ میں نے اتنا لذیذ کھانا کسی کے ہاتھ کا نہیں کھایا۔ آپ نے ہی بتایا کہ ’’ہمارے خاندان میں فالج کا اثر ہوتا ہے، ہمارے بھائی بھی اسی مرض میں گئے جبکہ ہمارے دادا پانچ سال بستر پر رہے۔ ہمارے والد صاحب، والدہ اور دادی نے ان کی خوب خدمت کی۔ دادا میرے آئیڈیل تھے۔‘‘
شمیم اختر صاحب غصے کے ذرا تیز تھے، شاید یہ والد صاحب کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ آپ نے بتایا تھا کہ ’’ہمارے والد غصے کے بہت تیز تھے۔ وہ غصہ ہمارے ہاں منتقل ہوا ہے۔ افسوس بھی ہوتا ہے۔ ہمارے دادا کہا کرتے تھے کہ غصہ اچھی چیز نہیں ہے۔ کہتے تھے کہ غصے میں کبھی کوئی خط نہ لکھنا ورنہ نقصان ہوجائے گا۔ ہمارے والد کو غصہ بہت آتا تھا، یہاں تک کہ اپنے کلائنٹ کو بھی ڈانٹ دیتے تھے جس کی وجہ سے کلائنٹ بھاگ جاتے تھے، حالانکہ بڑے اچھے وکیل تھے‘‘۔
پروفیسر شمیم اختر نے ابتدائی تعلیم الٰہ آباد سے ہی حاصل کی اور 1949ء میں گریجویشن بھی وہیں سے کیا۔ 1952ء میں ایم اے عربی میں کیا۔ آپ سے جب لوگ کہتے تھے کہ تمہیں انگریزی آتی ہے پھر عربی کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ کا جواب ہوتا کہ عربی آنی چاہیے، یہ ہماری دینی زبان ہے۔ آپ نے قرآن کے ساتھ تفسیر بیضاوی، دیوان حماسہ، اور مضاقات العرش اور متنبی اور حسان بن ثابت پڑھا۔ کہتے کہ اس وجہ سے کچھ لوگ مجھے ’’مولانا‘‘ بھی کہتے تھے۔ لیکن آپ کا رجحان زیادہ انگریزی کی طرف رہا۔ بتاتے تھے کہ ’’دادا انگریزوں کے نہیں گاندھی کے بہت خلاف تھے، ہمارے والد بھی گاندھی کے خلاف تھے۔ اُس زمانے میں’’لیڈر‘‘ اخبارآتا تھا انگریزی کا، اردو کا اخبار ہم نے یہاں پاکستان میں دیکھنا شروع کیا، وہاں اردو کا تصور ہی نہیں تھا، ہم بچپن سے ہی انگریزی اخبار پڑھتے تھے۔ اس میں گاندھی کی ایک تصویر تھی۔ ہم ناشتے پر بیٹھے تھے، ہمارے دادا بھی ساتھ تھے، چھوٹا بھائی بھی تھا جس کا انتقال ہوگیا‘‘، اور یہ بتاتے ہوئے ایک اور جملہ کہا کہ ’’دیکھو! میں زندہ ہوں، سب کے جنازے اپنے کاندھوں پر اٹھا رہا ہوں‘‘۔ آپ کُل9 بہن بھائی تھے۔ جسٹس سلیم اختر جو چند سال پہلے سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے، آپ کے چھوٹے بھائی تھے ۔
آپ نے قائداعظم کو پہلی بار 1942ء میں دیکھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تھا۔ اُس وقت آپ آٹھویں جماعت میں تھے، 12سال عمر تھی۔ کہتے ہیں قائداعظم بڑے آدمی تھے، جو آدمی 1924ء میں لندن میںرولز رائس گاڑی پر بیٹھتا ہو، جو کہ اُس وقت رائل فیملی کے لیے مختص تھی۔ جناح کا اسٹیٹس یہ تھا کہ رولزرائس خریدی جو کہ ہر آدمی نہیں خرید سکتا تھا۔ ائرکنڈیشن گاڑی میں آتے تھے۔ آواز میں گھن گرج تھی۔ قائداعظم کی آنکھوں میں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ملاقات میں آپ قائد کے ذکر میں اپنی نشست سے کھڑے ہوجاتے اور اسٹک کے سہارے قائد اعظم کے انداز میں اُن کے الفاظ دھراتے اور ایسا کرتے ہوئے آپ کی آنکھیں نم ہوجاتیں،آپ نے بتایا کہ ہم یہ ترانہ پڑھتے تھے اُس زمانے میں
ملت کی جاں ہے محمد علی جناح
آپ سکندر حیات کے بارے میں کہتے تھے کہ قائداعظم ان کی مذمت کرتے تھے۔ سر خضرحیات خان ٹوانہ کے بارے میں بتایا کہ اُن کو 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی وفاداری کے صلے میں جاگیر ملی، اُن سے قائداعظم کو ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے بتایا کہ 1942ء میں الٰہ باد میں ہم نے قائداعظم کے استقبال کی تیاری کی، جس سڑک سے انہیں گزرنا تھا اسے خوب سجایا گیا تھا، کیا جذبہ تھا اور ایک مہینے سے کیا تیاریاں ہورہی تھیں۔ مسلمان جوق در جوق آرہے تھے، گائوں کے گائوں اُٹھ کر آگئے اپنے لیڈر کو دیکھنے کے لیے، الٰہ آباد کی تاریخ میں اتنے لوگ نہیں دیکھے، ایک ہفتہ پہلے ہی پھول ختم ہوگئے تھے۔ ہم گلاب کے پھول اکٹھے کررہے تھے۔ اب قائداعظم ہماری گلی میں آئے، مجھے یاد ہے میں بالکونی میںکھڑا تھا۔ ہماری والدہ، دادی سب جناح صاحب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیٹھے تھے۔ ارے صاحب کیا سماں تھا، میں نے دیکھا ایک ٹرک چلا آرہا ہے، اس میں دبیز قالین بچھا ہے، ایک بڑی سی کرسی ہے اور قائداعظم براجمان ہیں، جناح ٹوپی پہنے ہوئے۔ کیا شخصیت تھی قائداعظم کی۔ شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ پہنے ہوئے، اور آنکھیں بڑی بڑی۔ میں نے قائداعظم پر پھول پھینک دیا، وہ ان کی ٹوپی پر گرا، انہوں نے دیکھا اوپر اور مجھے سلام کیا۔ میں بھولتا نہیں اور کہتا ہوں ’’یار میں کوئی معمولی آدمی ہوں! قائداعظم نے مجھے سلام کیا‘‘، اب میں سوچتا ہوں تو خوشی سے میرا ہاتھ ہلنے لگتا ہے۔ کیا بتائوں کیا منظر تھا اور کیا احساسات تھے۔
آپ دسمبر 1953ء میں پاکستان آئے، شروع میں خاصے پریشان رہے۔ آپ کے ایک چچاگارڈن ایسٹ میں ایک بنگلے میں رہتے تھے، والد کے ساتھ اُن کے یہاں ہی رہے۔ بتاتے ہیں کہ اُس وقت کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ جہاں اپلائی کرو،جواب نہیں ملتا تھا۔ کہتے تھے کہ ’’پاکستان میں روزِ اوّل سے اقربا پروری تھی۔“
آپ کو فکشن پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ کسی ناول پر ایک آرٹیکل لکھ ڈالا۔ اُس وقت عمر 21سال تھی۔ وہ ڈان میں دیا، ڈان نے اسے شائع ہی نہیں کیا۔ آپ کہتے ہیں انہیں یقین نہیں آیا کہ میں نے لکھا ہے۔ انہوں نے میری بڑی توہین کی، لیکن چار سال کے بعد بغیر میرے کہے ہوئے ڈان میں ہی چھپ گیا۔ کہتے ہیں میں اس کو لے کرایڈیٹر ڈان الطاف حسین کے پاس پہنچ گیا۔ ’’صاحب! بڑا بدتمیز، بے ہودہ آدمی تھا، اور قائداعظم کے منہ لگا تھا، لیکن ایسا قابل آدمی انگریزی کا میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ میں اس کا بہت فین تھا، انگریزی بڑی زبردست لکھتا تھا۔ تو میں نے اس کو چھپا ہوا مضمون دکھایا، کہنے لگا آپ نے لکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں صاحب! ڈان میں چھپا تھا۔ اس نے کاغذ کی ایک چٹ لی، اور پینسل سے ڈان میں ملازمت کا حکم نامہ لکھ دیا۔ ڈان کی ملازمت کے درمیان ہی ایک اسکالرشپ پر امریکہ گئے۔
جب محقق اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے تو آپ جامعہ کراچی سے وابستہ ہوگئے۔ آپ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کونسل میں ریسرچ فیلو بھی رہے ہیں۔ شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر سے ترقی کرکے شعبے کے چیئرمین بنے۔ اس دوران 1972ء میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی خصوصی فرمائش پر دوسال پڑھایا، اور پھر 9 فروری 1991ء کو ریٹائر ہوئے۔ چند برس کوئٹہ میں ایک نجی یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ اپنے پی ایچ ڈی نہ کرنے کی وجوہات میں آپ بتاتے تھے کہ اس میں شعبے کی سیاست وجہ تھی۔ آپ ساٹھ کی دہائی میں ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نظریے سے متاثر اور بائیں بازو کے ممتاز دانشور رہے۔ پھر آپ پر وقت کے ساتھ حقیقت جیسے جیسے آشکار ہوتی گئی آپ میں بھی تبدیلی آتی گئی، اور آپ اسلامی تحریکوں سے متاثر ہوکر ان کے قریب آتے گئے، جس کے گواہ آپ کے لاتعداد کالم ہیں۔آپ نے ملاقات میں بتایا کہ ’’آج میں جو ہوں، میرا پہلے یہ نظریہ نہیں تھا، بہت سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میری زندگی میں یہ ایڈونچرتھا میری سوچ کا،کہ اسلام سے بہتر کوئی مذہب نہیں ہے۔ مذہب کا مطلب اقدار ہے،اسلام میں اگر مسالک ہیں تو اس میں ایک قدر بھی ہے۔ایک ملاقات میں انہوں نے اپنے نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بائیں بازو کی فکرسے وابستہ ہونے کے باوجود میں مادی جدلیات کے الحادی فلسفے کا قائل نہیں تھا۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی بہت اچھی لگتی ہے۔ یہ تقسیم پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘ مجھ سے وہ کہتے تھے ’’کیونکہ یہ معاشرہ معاف کیجیے گا چوروں کا ہے، بد معاشوں کا ہے، اس لیے جماعت اسلامی اس میں مس فٹ ہے۔‘‘
ماہر قانون خالد اسحق جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ قانون ان کے ہاتھوں میں بنتا اور بولتا تھا اور ان کی ایک بڑی وجہ شہرت عظیم الشان لائبریری بھی تھی اُن سے خاندانی تعلقات تھے ،ممتاز شاعر، زیرک نقاد، دانش ور اور ہمہ جہت علمی، ادبی شخصیت احمد جاوید سے بھی قریبی تعلقات تھے کئی مواقع پر احمد جاوید صاحب کو بھی بڑی عقیدت سے اُن سے ملتے دیکھا۔
ایک با ر میں نے اُن سے پوچھا تھا ’’چین کی بالادستی ہوگی، تو اس نئی دنیا کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟‘‘ اس پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’چین کی بالادستی امریکہ کی بالادستی سے زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔‘‘ آپ نے ڈان میں طویل مدت تک کالم نویسی کی۔ ایک وقت آیا کہ ڈان نے آپ کے کالم چھاپنے بند کردیے، کیونکہ امریکی سامراجیت کے بارے میں خوئی مفاہمت کرنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ بہترین انگریزی اور بہترین اردو لکھتے تھے۔ انگریزی کے بہترین انشا پرداز ہونے کے باوجود اردو تحریروں میں انگریزی کا پیوند سخت ناپسند کرتے تھے۔ پھر آپ نے فرائیڈے اسپیشل میں طویل عرصے تک بین الاقوامی امور پر فکر انگیز تجزیے تحریر کیے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک وہ فالج کی وجہ سے لکھنے سے معذور نہیں ہو گئے۔ اپنی بیماری کے باوجود اس بات کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنے کالم املا کرا دیں اور کوئی انہیں تحریر کر دے، لیکن کوئی معاون دستیاب نہیں ہو سکا۔ ان کی ایک شاگردہ نے اپنی خدمات پیش کیں لیکن یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔اپنے ذہنی تغیر کا سبب وہ بتاتے تھے کہ ’’مجھ میں امریکہ کے سلسلے میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، طالب علمی کے زمانے سے ہی میں امریکہ کے خلاف تھا۔ اب اگر کوئی امریکہ کے ہاتھ بک جائے تو میں کیا کروں! اور جو مجھے ویلکم کرے اور میرے پاس آئے تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے بڑے ممنون رہے۔ فرائیڈے اسپیشل میں مختلف خیالات کی اشاعت کے پس منظر میں کہتے تھے کہ ’’فرائیڈے اسپیشل کو میں بڑا لبرل سمجھتا ہوں۔ جسارت میں آپ کے اطہر ہاشمی بہت قابل ہیں، اُن کی قدرکیجیے، کیا زبان ہے اُن کی۔ میں اُن سے اکثر کہتا ہوں کہ آپ اردو کو بچانے کے لیے ایک مہم چلائیے، میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘
آپ کا گھرانا مذہبی اور دینی تھا، کہتے تھے کہ ’’میرے دادا نمازی تھے، میری دادی نمازی تھیں، میرے والد پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے پابندی کے ساتھ، مگر ہمیں مجبور نہیں کرتے تھے، میرے بھائی وغیرہ سب نمازی ہیں‘‘۔ آپ غالب، اقبال اور مولانا مودودی سے بہت متاثر تھے۔ آپ کی زندگی میں ایک وقت وہ بھی تھا جب مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی میں شامل ہو گئے، مرتضٰی بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ساتھی ہونے کی بنا پر بڑی قدر کی ان کے قتل کے بعد آپ غنویٰ بھٹو کے ایڈوائزر بھی رہے۔
پروفیسر شمیم اختر نے 92 سال عمر پائی۔ آپ رکھ رکھائو والے اور اصول پسند انسان تھے جو ہمارے معاشرے میں ناپید ہوچکے ہیں۔ استاد پروفیسر شمیم اختر کی رحلت بڑا صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین