مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی دو دھاری تلوار ہے
سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان سائیڈلائن ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو دہرایا ہے۔ ٹرمپ نے یہ پیشکش عمران خان کی اس بات کے جواب میں کی کہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جو بھارت کے ساتھ پاکستان کے مسائل حل کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ ٹرمپ نے اس جملے پر تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھاکہ وہ کشمیر کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان یہ دوسری ملاقات ہے، اور ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی کم از کم یہ تیسری پیشکش ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہر ملک کی ثالثی اور آؤٹ آف باکس حل کے لیے تیار ہے۔ دنیا کی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکہ بھی جنوبی ایشیا کے اس رِستے ہوئے زخم کو مندمل کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے، مگر اصل مسئلہ بھارت کا انکار ہے۔ بھارت انکار کی اس روش پر برسوں سے قائم ہے جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ نہ صرف اُلجھ کر رہ گیا ہے بلکہ پورا جنوبی ایشیا ہی اس کے اثرات کی زد میں ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایک طرف پوری دنیا مسئلہ کشمیر کو حل طلب قرار دے رہی ہے، تو دوسری طرف بھارت تنہا اٹوٹ انگ کا راگ الاپے ہوئے ہے۔ امریکہ کی ثالثی پاکستان کے لیے کوئی بہت زیادہ آئیڈیل بھی نہیں، یہ دوھاری تلوار ہے۔ مگر 72 برس سے پاک بھارت معاملات اور مسئلہ کشمیر کی اُلجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی خاطر پاکستان امریکی ثالثی کا جوا کھیلنے کو تیار ہے۔ پاکستان ایک بار پھر افغانستان میں امریکہ کے لیے بروئے کار آنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے بدلے امریکہ ابھی تک ثالثی کی پیشکشوں سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اس وقت جو تعطل ہے وہ محض زبانی کلامی باتوں سے ختم نہیں ہوسکتا۔ جب تک بھارت پانچ اگست کی پوزیشن ریورس کرنے کے بعد مسئلے کے حل کے لیے بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتا اُس وقت تک پاکستان اور بھارت کے درمیان حکومتوں کی سطح پر مذاکرات یا پسِ پردہ یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا آغاز اب پانچ اگست کے بعد نئے حالات سے کیا جائے، مگر حقیقت میں حالات کی سوئی 27 اکتوبر 1947ء میں اٹک کر رہ گئی ہے، جب بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج اُتاری تھی۔ اُسی وقت جنوبی ایشیا کی بدقسمتی اور حادثات بھری کتاب کا دیباچہ لکھ دیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور عالمی ادارے جنوبی ایشیا کو دہائیوں سے چلی آنے والی ناخوش گوار صورتِ حال سے نکالنے کے لیے پند و نصائح سے بڑھ کر عملی قدم اُٹھائیں۔ زبانی کلامی باتوں سے بھارت کو ماننا ہوتا تو 72 برس کیوں ضائع ہوتے! امریکہ اقوام متحدہ کو افغانستان، عراق، ایران اور خلیج میں استعمال کرتا رہا ہے مگر بھارت کے معاملے میں یہ دلچسپی کہیں غائب ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش بجا، مگر پاکستان کو اس پیشکش پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے زورِ بازو پر بھروسا رکھنا چاہیے۔
ٹرمپ عمران ملاقات سے کچھ ہی پہلے امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز بھارت اور سری لنکا سے ہوتے ہوئے پاکستان کا دورہ کر گئی تھیں۔ یہاں انہوں نے پاکستان کے سول اور فوجی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ عمومی طور پر یہی سمجھا جارہا ہے کہ ایلس ویلز کے دورے کا مقصد افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلا اورخلیج کے حالات ہیں۔ اس سے چند ہی دن قبل وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی امریکہ کا دورہ کرچکے تھے۔ دورۂ امریکہ کے اختتام پر انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کو ایک میز پر بٹھا کر ڈومور کردیا ہے، اب امریکہ کو آگے بڑھ کر جوابی کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے ٹریول ایڈوائزری میں تبدیلی اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ دونوں معاملات پاکستان کی معیشت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی طرف پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے جس طرح جکڑا گیا ہے اُس سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے۔ کچھ یہی معاملہ ٹریول ایڈوائزری کا ہے۔ یہ دونوں معاملات غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کے پاکستان کی جانب متوجہ ہونے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے امریکہ نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا تھا، اور اس کی وجہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام ملک بناکر اس کی معیشت کو تنزل کی طرف دھکیلنا تھا۔ امریکہ اور بھارت کی اس مشترکہ مہم کے نتائج بھی برآمد ہوئے اور پاکستان کی معیشت آکسیجن ٹینٹ پر آگئی۔ امریکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو حکم عدولی کی سزا دینا چاہتا تھا۔
اب جبکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دوبارہ بہتری کے آثار پیدا ہورہے ہیں تو امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنے معاندانہ سلوک کی ان تلخ یادوں کو جھٹک دینا چاہیے۔ پاکستان افغانستان میں امریکہ کی پھنسی ہوئی گردن چھڑانے میں مرکزی کردار ادا کرچکا ہے۔ اب معاملہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے آگے نکل گیا ہے، اور اب طالبان عارضی جنگ بندی پر بھی آمادہ ہورہے ہیں۔ یہ سب پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے ہوا۔ اب پاکستان جوابی ڈومور کہہ رہا ہے تو یہ قطعی غلط نہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان اور ایران سے زیادہ مشکل صورتِ حال کشمیر کے اندر اور کنٹرول لائن پر ہے۔کشمیر بھارتی فوج کے بدترین محاصرے میں ہے اور کنٹرول لائن پر کشیدگی کا گراف بہت بلند ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس صورتِ حال کی سنگینی کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ اگر کنٹرول لائن پر نہتے لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔ وزیراعظم کا یہ بیان ایلس ویلز کے دورے سے ایک دن قبل سامنے آیا تھا جس میں امریکہ اور چین جیسی طاقتوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایلس ویلز کے دورے کا ظاہری مقصد افغانستان اور ایران ہوسکتے ہیں، مگر اندرونِ خانہ اس کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اگلے ماہ بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ملکوں کی کانفرنس منعقد ہونی ہے جس میں پروٹوکول کے تحت پاکستان سے وزیراعظم کو شریک ہونا ہے۔ بھارت عمران خان کو دعوت دینے اور نہ دینے کے معاملے پر مخمصے کا شکار ہے، مگر میزبان ملک کی حیثیت سے دعوت دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دوسری طرف پاکستان کا مخمصہ بھی یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو موجودہ غیر معمولی اور کشیدہ صورتِ حال میں بھارت کا دورہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ شنگھائی تعاون تنظیم چین کے اثر رسوخ کی علامت ہے، اس لیے پاکستان اس اہم فورم سے الگ بھی نہیں رہ سکتا۔ خود بھارت میں یہ خوف محسوس کیا جارہا ہے کہ عمران خان اس اہم فورم کو نریندر مودی کی پالیسیوں بالخصوص کشمیر کے حوالے سے تنقید کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ خدشہ بھارت کے ایک اہم اور اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے صحافی سشانت سرین نے ’’عمران خان ایس سی او کانفرنس میں بھارت کے لیے ہلچل پیدا کرسکتے ہیں‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں ظاہر کیا ہے۔ سشانت سرین نے لکھا ہے کہ عمران خان پہلے ہی نریندرمودی کے خلاف تحقیر آمیز زبان استعمال کرچکے ہیں، وہ کانفرنس کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، اس لیے بھارت کو انہیں سول سوسائٹی سے میڈیا تک کسی سے ملنے نہیں دینا چاہیے، اور ان کے الزامات کے جواب میں پاکستان میں اقلیتوں کی صورتِ حال، دہشت گردی اور میڈیا پر پابندیوں جیسے موضوعات کو اُٹھانا چاہیے۔ بھارت کی فیصلہ ساز ہندو اشرافیہ کی ترجمانی کرنے والے صحافی اس خدشے میں تنہا نہیں۔ امریکہ اور چین کو بھی یہ خدشات لاحق ہوں گے، اور وہ اس موقع کو دونوں ملکوں کے درمیان آگرہ مذاکرات کی طرح کشیدگی میں اضافے کے بجائے امن کی طرف ایک قدم کے طور پر استعمال کرنا چاہیں گے۔
14فروری 2019ء کو پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں جو خرابی در آئی تھی، 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کے بعد وہ ایک بڑی خلیج کی شکل اختیار کرگئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت معطل ہوگئی۔ سفارتی تعلقات کا دائرہ محدود ہوگیا۔ فضائی حدود کی بندش جیسے اقدامات ہوئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا دائرہ سکڑنے کا نقصان دونوں ملکوں کو ہوا، مگر بھارت کو اس کا زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ خود بھارت میں اب اس پالیسی کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ’’دی ہندو‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی طرف سے پاکستان کے لیے موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ واپس لینے کے باعث واہگہ لاہور اور چکاں داباغ اور چکوٹھی آزاد کشمیر کے راستوں سے دوطرفہ تجارت کی بندش سے 9354 خاندان اور50000 افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جس سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا، اور اس نظام سے وابستہ تاجر، کسٹم، پاس ایجنٹ، ٹرک ڈرائیور، ہیلپر، ٹائر اور مشین اسٹورز پر کام کرنے والے ہوٹلوں اور ڈھابوں سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں بے روزگار ہوگئے۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی طرف سے پاکستان کو سخت پیغام تو دیا گیا مگر اس کا نقصان پاکستان کی نسبت بھارت کو زیادہ برداشت کرنا پڑا۔ امریکہ میں بھارت کے ایک سابق سفیر ارون کمار سنگھ کے مطابق تجارت کی بندش کا یہ فیصلہ اُس وقت بھی نہیں کیا گیا جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے وقت حالات زیادہ خراب تھے۔ بھارت نے پاکستانی اشیاء پر دو سو فیصد ڈیوٹی عائد کردی جس سے دوطرفہ تجارت 2.56 بلین سے کم ہوکر547.22 ملین رہ گئی۔ بھارت سے پاکستان کے لیے اکثر اشیاء سمندر کے راستے جاتی ہیں، اس کے برعکس پاکستان سے جپسم، سیمنٹ، کھجور، نمک وغیرہ کی اشیاء واہگہ کے راستے بھارت پہنچتی ہیں۔ اس کام پر سرمایہ کاروں نے350کروڑ کی سرمایہ کاری کررکھی ہے، اور تجارت کی بندش کی وجہ سے یہ سرمایہ منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک طرف پاکستان سے تجارت ختم ہونے کی وجہ سے بھارتی معیشت کو دھچکا لگا، دوسری طرف اس بحران میں مزید اضافہ امریکی پابندیوں کے بعد بھارت کی طرف سے ایران کے تیل کی خریداری روکنے کا فیصلہ ہے، جس کے جواب میں ایران نے بھارت سے باسمتی چاول خریدنا بند کردیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارت بند ہونے کی وجہ سے چاول کے کسانوں کو شدید معاشی خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح بھارت کے اندر کاروباری طبقہ مودی حکومت پر پاکستان سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ پاکستان میں بھی مہنگائی کی لہر آجانے کے پیچھے بھارت سے تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش معلوم ہوتی ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی چینل کے رپورٹر کی اس دھمکی کے بعد کہ ’’اب پاکستان لال ٹماٹر کو ترسے گا‘‘ ٹماٹر کے نادر ونایاب اور پھر سونے کے بھائو فروخت ہونے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب تک آگے بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ اور چین جیسے ملک بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ سلامتی کونسل کے اجلاسوں کا مجموعی رنگ بھی یہی ہوتا ہے کہ دونوں ملک باہمی طور پر اپنے مسائل حل کریں۔ گزشتہ دنوں بھارت کے ایک سینئر تجزیہ نگار سدھیندر کلکرنی نے پاکستان کا دس روزہ دورہ کیا۔ وہ لاہور، اسلام آباد اور کرتار پورہ گئے، اور اسلام آباد اور راولپنڈی میں اقتدار کی راہداریوں میں پاک بھارت تعلقات کے مستقبل اور پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں کے مزاج کی سُن گن لیتے پھرے۔ واپسی پر انہوںنے ’’وہی ملک، مختلف تحریر‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات رقم کیے۔ انہوں نے لکھا کہ پاکستان بہت نمایاں انداز سے بدل رہا ہے، نہ صرف خود اپنی بہتری کے لیے، بلکہ اپنے ہمسایوں کی بہتری کی خاطر بھی۔ لشکر طیبہ بے روزگار ہوگئی اور بری طرح مرجھا گئی ہے۔ یہ فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔ شدت پسند تنظیمیں جس قدر دبائو میں آج ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں رہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ امن کے لیے ہمیشہ سے زیادہ تیار ہے، صرف سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں ہی نہیں فوج بھی اس کے لیے تیار ہے۔ پاکستان میں راولپنڈی اور اسلام آباد طاقت کے دو مراکز سمجھے جاتے ہیں، اور دونوں باعزت اور برابری کی بنیاد کے حامل امن کے لیے ایک صفحے پر ہیں۔ کلکرنی نے یہ انکشاف کیا کہ انہیں باخبر حلقوں نے بتایا کہ فوج پرویزمشرف اور واجپائی اورمن موہن سنگھ کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے عمل اور فارمولے کو دوبار ہ زیر بحث لانے کو بھی تیار ہے۔ بیرونی دبائو اور اندرونی مجبوریاں دونوں ملکوں کو حالات معمول پر لانے کے راستے پر ڈال سکتی ہیں، مگر ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حل طلب مسائل کی موجودگی میں نارملسی کے اس دور کا مطلب امن کی ہوا کے ایک جھونکے جیسا ہوگا جو آیا اور گزر گیا، اور پیچھے پھر کشیدگی کی لُو کے تھپیڑے چھوڑ گیا۔