وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر خیبر پختون خوا کابینہ سے تین وزراء عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل احمد کو فارغ کردیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ تینوں وزراء حکومت کے خلاف لابنگ میں ملوث تھے اور اسی بنیاد پر انہیں کابینہ سے نکال دیا گیاہے۔ واضح رہے کہ چند روز سے وزیراعلیٰ محمود خان اور سینئر وزیر عاطف خان کے مابین اختلافات کی خبریں آرہی تھیں جس میں صوبائی وزیر بدانتظامی، اقرباپروری اور مبینہ کرپشن کے الزامات عائد کررہے تھے۔ اختلافات کی خبریں سامنے آنے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کی تردید کی تھی اور واضح کیا تھا کہ صوبائی کابینہ میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے، حتیٰ کہ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے پچھلے دنوں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں نہ صرف صوبائی کابینہ میں کسی قسم کے اختلافات کی تردید کی تھی بلکہ ان اطلاعات کو ڈس انفارمیشن اور میڈیا کی جھوٹی من گھڑت کہانیاں قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ لیکن اب محض تین دن کے وقفے کے بعد میڈیا کی دی گئی یہ تمام خبریں سو فیصد درست ثابت ہوچکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عاطف خان وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان سے نالاں تھے اور وہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، لیکن عاطف خان کی وزیراعظم سے ملاقات سے پہلے ہی تین صوبائی وزراء کو فارغ کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق محمود خان نے وزیراعظم عمران خان سے شکایت کی تھی کہ کچھ وزراء کی وجہ سے کام کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 15 سے 16 افراد کا ایک پریشر گروپ تھا جس میں دو خواتین اور تین صوبائی وزیر بھی شامل تھے، اور مزید 9 ارکان اسمبلی کے نام بھی وزیراعلیٰ کو بھجوائے جا چکے ہیں جن کے بارے میں بہت جلد فیصلہ کیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتہ کے روز وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمود خان کے مابین میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا، جبکہ اس دوران ایک وفاقی وزیر نے وزیراعلیٰ اور سینئر وزیر کے مابین معاملات کو حل کرنے کی کوشش بھی کی، تاہم اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے تینوں وزراء کو عہدوں سے ہٹانے کے لیے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی، جس کے بعد محمد عاطف خان سے سیاحت، شہرام ترکئی سے صحت، اور شکیل خان سے ریونیو کا قلمدان واپس لیتے ہوئے تینوں کوکابینہ سے برطرف کردیا گیا ہے۔ برطرف وزراء کابینہ کے فیصلوں سے انحراف اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کررہے تھے، اس لیے وزیراعظم عمران خان نے تینوں وزراء کے منفی طرزِعمل کی وجہ سے انہیں فارغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تینوں وزراء نے پریشرگروپ بنایا، ان کی برطرفی ایک اچھا فیصلہ ہے، کیونکہ کسی کو بھی پارٹی یا حکومت کو بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عاطف خان وزارتِ اعلیٰ کے بھی امیدوار تھے، انہیں سب سے بڑی وزارت اور 4 محکمے دیئے گئے تھے مگر عاطف خان نے وزیراعلی محمود خان کو کبھی وزیراعلیٰ تسلیم نہیں کیا اور مشکلات پیدا کیں۔ گروپ بندی پر پارٹی خاموش رہتی تو مسائل پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ دوسری طرف برطرف وزیر صحت شہرام خان ترکئی کا ابتدائی ردعمل میں کہنا تھا کہ ابھی ہم معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، تھوڑا وقت دیں کچھ سمجھنے دیں کہ کیا ہوا ہے، اس معاملے پر ضرور بات ہوگی۔ صوبائی کابینہ سے فارغ ہونے والے تین وزراء میں عاطف خان اور شہرام ترکئی کا تعلق مردان ڈویژن سے ہے، اور یہ دونوں قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ جب کہ ممکنہ باغی گروپ میں مردان، نوشہرہ، ڈی آئی خان، صوابی، ایبٹ آباد سے مردو خواتین ارکانِ اسمبلی بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اختلافات کی بنیادی وجہ صوابی کے ایک رکن کی وزارت کا معاملہ تھا۔ فارغ ہونے والے وزراء کے بارے میں ذرائع نے بتایاکہ انہوںنے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں اپنے استعفے تیار کررکھے تھے، لیکن کسی وجہ سے وہ پیش نہ کر سکے۔آئینی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کسی بھی پارٹی رکن کی اسمبلی رکنیت اُس وقت تک ختم نہیں کر سکتی جب تک کوئی رکن وزیراعلیٰ کے خلاف لائی گئی عدم اعتمادکی تحریک کا حصہ نہیں بنتا، یا پھر فنانس بل میں حکومت کے خلاف ووٹ کا استعمال نہیں کرتا۔ صرف مذکورہ دونوں صورتوں میں پارٹی اپنے رکن اسمبلی کی رکنیت ختم کرسکتی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے مزید باغی ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت کے گروپ بندی میں ملوث دیگر ارکان اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کیے جائیں گے اور ان سے وضاحت طلب کی جائے گی۔
دوسری جانب خیبر پختون خوا کابینہ سے سینئر وزیر سمیت تین وزراء کی برطرفی کے حوالے سے قیاس کیا جارہا ہے کہ پارٹی قیادت کو یہ انتہائی قدم شاید پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف پارٹی کے اندر اٹھنے والی بغاوت کو خاموش کرانے کے لیے اٹھانا پڑا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ وفاق میں تحریک انصاف کی اہم شخصیات پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف ناراض ارکان کو منانے میں ناکام ہوگئی ہیں جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ روز لاہور جانا پڑا اور انہوں نے خود ناراض ارکان کے تحفظات سنے، تاہم دوسری جانب وزیراعظم نے خیبر پختون خوا کے ناراض ارکان کو کچھ سنانے کا موقع نہیں دیا۔ تحریک انصاف کو چونکہ پنجاب اسمبلی میں اتنی عددی اکثریت حاصل نہیں ہے کہ وہ اتحادیوں کے بغیر حکومت چلا سکے، اسی خوف کے باعث وزیراعظم عمران خان پنجاب میں پارٹی کے باغی عناصر کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جب کہ پنجاب کے برعکس خیبر پختون خوا اسمبلی کے 145 ارکان میں سے تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد95 ہے اور انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ صوبے میں واضح عددی اکثریت رکھنے کی وجہ سے حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پی ٹی آئی میں جاری تنظیمی اندرونی بحران کے متعلق سابق وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خان خٹک نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف سازش میں جس کسی کا بھی ہاتھ تھا وہ ہاتھ ہم نے روک دیاہے، پنجاب کا مسئلہ تقریباً حل ہوچکا ہے، خیبرپختون خوا میں انتشار ختم ہوچکاہے، جلد ہی بلوچستان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف بھر پور کارروائی ہوگی۔ جن لوگوں نے پارٹی معاملات کو میڈیا تک پہنچایا اور وزیراعلیٰ کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا اُن کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ پرویزخٹک نے کہا کہ اختلافات پارٹی کے اندر رہنے چاہیے تھے۔ کئی لوگوں کے ذاتی مسائل تھے جس پر انہوں نے سازش رچائی۔ ان لوگوں کے ذاتی مسئلے حل ہوجاتے تو پھر نہ وزیراعلیٰ کرپٹ تھا اور نہ ہی حکومت خراب تھی۔ ان لوگوں کے ذاتی کام نہیں ہوئے تو وزیراعلیٰ بھی کرپٹ ہوگیا اور پارٹی بھی کرپٹ ہوگئی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو سچ بولا کریں کہ کس وجہ سے احتجاج کررہے ہیں۔
تین صوبائی وزراء کی قربانی کے متعلق عام تاثر یہ ہے کہ پرویز خٹک نے 16ماہ قبل وزارتِ اعلیٰ نہ ملنے کا بدلہ چکا دیا ہے، جس شخص کی مخالفت سے پرویز خٹک وزارتِ اعلیٰ کی کرسی سے محروم رہ گئے تھے اب اُس شخص کی صوبائی کابینہ سے چھٹی ہوگئی ہے۔ وفاق اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے پاس پرویز خٹک اہم کھلاڑی تصور کیے جانے لگے ہیں، پرویز خٹک نے طویل انتظار کے بعد اسکور برابر کیا ہے جس کی ان سے مسلسل توقع کی جارہی تھی۔ یاد رہے کہ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد جب وزارت اعلیٰ کے امیدوار سامنے آنا شروع ہوئے تو پرویز خٹک کے نام پر اختلاف دیکھنے میں آیا تھا، جس پر پرویز خٹک نے اُس وقت کے اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر کی سرکاری رہائش گاہ پر نومنتخب ارکانِ اسمبلی کو عشائیہ دیتے ہوئے عمران خان کو پیغام دیا تھا کہ ان کے پاس اکثریت موجود ہے، تاہم اس کے باوجود وزارتِ اعلیٰ کے لیے پرویز خٹک کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا، جس پر سب سے زیادہ تحفظات کا اظہار عاطف خان نے کیا تھا اور عمران خان بھی اُس وقت مجبور تھے، اس لیے قرعہ فال محمود خان کے نام نکل آیا تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ اسکور برابر کرنے میں وہ اختلافات بھی ایک اہم وجہ بنے ہیں۔
دریں اثناء سابق سینئر صوبائی وزیر محمد عاطف خان کی کابینہ سے فراغت پر اُن کے آبائی شہر مردان میں عوام نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ خیبر پختون خوا میں چھوٹا عمران خان سے شہرت پانے والے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر محمد عاطف خان کا شمار پی ٹی آئی کے بانی اور عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دورِ حکومت میں تعلیم کی وزارت سنبھالی تھی۔ پارٹی سربراہ عمران خان ہر فورم پر عاطف خان کی تعریف کرتے دکھائی دیتے تھے۔ جولائی کے انتخابات کے بعد وہ وزارتِ اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تصور کیے جاتے تھے اور عمران خان انہیں وزیراعلیٰ بنانے کے خواہاں تھے، لیکن وزارتِ اعلیٰ پر اُن کا اور پرویز خٹک کا پھڈا پڑنے کے بعد محمود خان کو سامنے لایا گیا تھا۔ انہوں نے پارٹی کے فیصلے کو تسلیم تو کیا مگر وہ اس سے ناخوش نظر آرہے تھے۔ عاطف خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ قیادت نے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرکے بیک جنبش قلم ان کے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے جو جمہوری اصولوں کے خلاف اور پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پارٹی قیادت کو انتہائی قدم اٹھانے سے قبل ان کا مؤقف ضرور سننا چاہیے تھا۔ دوسری طرف پارٹی کے بعض ناراض کارکنوں نے عاطف خان اور دیگر وزراء کی فراغت کے فیصلے کو پارٹی قیادت کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے، کارکنوں کو پارٹی قیادت کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنا چاہیے۔ ناراض کارکنوں کا کہنا ہے کہ اِس مرتبہ عاطف خان کا کارکنوں سے رویہ نامناسب تھا اور وہ کارکنوں کو ہر فورم پر نظرانداز کررہے تھے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ نکالے جانے والے ایک اور اہم صوبائی وزیر شہرام ترکئی جن کو پچھلی حکومت میں صحت اور موجودہ حکومت میں شروع میں بلدیات اور کچھ دن پہلے دوبارہ صحت کا محکمہ دیا گیا، کا تعلق مردم خیز ضلع صوابی کے ترکئی خاندان سے ہے جس کا صوابی کی سیاست میں انتہائی سرگرم اور معتبر رول ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی خاطر ترکئی خاندان نے اپنی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کو تحریک انصاف میں ضم کیا تھا اور25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں ترکئی خاندان نے تحریک انصاف کو دو ایم پی ایز اور ایک ایم این اے دیا تھا، جبکہ بعد میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایک سینیٹر کا بھی انتخاب ہوا تھا۔
2013ء کے انتخابات میں بھی ترکئی خاندان کے ایم پی ایز اور ایم این ایز منتخب ہوکر آئے تھے۔ شہرام ترکئی کی وزارت سے فراغت کے بعد عام تاثر یہ ہے کہ اس سبکی کا اثر ترکئی خاندان کے دوسرے منتخب افراد تک بھی جائے گا اور مستقبل کے حوالے سے یہ سارا خاندان یقیناً کوئی مشترکہ مؤقف ہی اپنائے گا جس کے بارے میں فی الوقت حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی میں یہ ہلچل پہلی دفعہ نہیں مچی، بلکہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے سابق دور میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف بھی14ارکان کا باغی گروپ سامنے آیا تھا، تاہم اُس وقت سیاسی چال چلنے کے ماہر پرویز خٹک نے بغاوت کرنے والوں کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔ البتہ سابقہ اور موجودہ صورت حال میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ اُس وقت پی ٹی آئی حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں کی محتاج تھی، جب کہ اِس وقت اسے صوبائی اسمبلی میں واضح طور پر دو تہائی اکثریت حاصل ہے، لہٰذا تین اہم وزراء کی فراغت کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے پارٹی یا حکومت میں کسی بڑے بھونچال کے آنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے۔