پنجاب کی سیاست اور حکمران جماعت کا داخلی بحران

وزیراعظم عمران خان کی سیاست میں ان کی اتحادی جماعتوں سمیت ان کی اپنی جماعت کے داخلی بحران کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ وزیراعظم کوتواتر کے ساتھ اتحادی جماعتوں اورداخلی بحران کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ اسی طرح کا ایک بحران پنجاب میں بھی ان کو درپیش ہے، پنجاب کے حالیہ بحران سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم کو خود لاہور آنا پڑا، پنجاب کی سیاست پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم لیگ سے جڑی رہی ہے، چاہے وہ مسلم لیگ نوازشریف کی ہو، یا چودھری برادران کی۔ لیکن پہلی بار مسلم لیگ نون اور قاف کے مقابلے میں تیسری سیاسی قوت کے طور پر تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے، اور اس حکومت کے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ایک بار پھر پنجاب کا سیاسی ماحول خاصا گرم ہے، اور اس کے نتیجے میں پنجاب میں سیاسی تبدیلی کو ناگزیر سمجھا جارہا ہے۔ کئی سیاسی پنڈت تو تاریخیں بھی دے چکے ہیں کہ عثمان بزدار کی حکومت کا چل چلائو ہے اور یہاں کسی نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا جائے گا۔
عثمان بزدار جب سے وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ ان کی مخالفت میں صرف اُن کے مخالفین ہی نہیں بلکہ اُن کی اپنی جماعت کے لوگ بھی ہیں جو اُن کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ُان کا براہِ راست انتخاب وزیراعظم نے کیا ہے اور وہی اس مشکل صورت حال میں بھی اُن کی پشت پر کھڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان عثمان بزدار کو ’وسیم اکرم پلس‘ قرار دیتے ہیں اور اُن کی سرپرستی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار کے داخلی اور خارجی سیاسی مخالفین کو فی الحال سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
میں عثمان بزدار کے سامنے چار بڑے چیلنج ہیں:
(1) ان کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) سے اُن کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چودھری پرویزالٰہی اُن سے نالاں ہیں اور خود کو وزیراعلیٰ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی اور کامل علی آغا کی تنقید کو بھی اسی زمرے میں لیا جارہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چودھری برادران کو بڑا گلہ یہ ہے کہ ایک طرف ان کے ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ نہیں دیے جارہے اور دوسری طرف ان کی پارٹی کے بہت سے لوگوں کو مختلف محکموں میں حکومتی عہدوں پر نہیں رکھا گیا، یا اُن سے اُن کے علاقوں میں اہم تقرریوں پر مشاورت کے بجائے ان کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔
(2) پی ٹی آئی کے اندر بھی ایک گروپ بن گیا ہے جو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی فنڈز نہ دینے کی پالیسی سے نالاں ہے، اب یہ گروپ کھل کر میدان میں موجود ہے اور اس گروپ کے بقول مزید لوگ بھی اس کا حصہ بنیں گے۔
(3) میڈیا میں عثمان بزدار کی حکومت پر گورننس کے تناظر میں شدید تنقید کی جاتی ہے اورکہا جاتا ہے کہ ان کا حکمرانی کے نظام پر کنٹرول کمزور ہے اور وہ کامیاب وزیراعلیٰ نہیں۔
(4) تحریک انصاف میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خود کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا متبادل سمجھتے ہیں، اور وہ پارٹی کے اندر اور باہر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ عثمان بزدار کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
ایک فارمولا یہ بھی موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) مل کر یہاں حکومت بنالیں، اور مسلم لیگ (ن) وزیراعلیٰ کے طور پر چودھری برادران کی حمایت کرے گی۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے اسی تجویزکو بنیاد بناکر مسلم لیگ (ق) کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔ لیکن فی الحال چودھری برادران اس تبدیلی کے لیے تیار نظر نہیں آتے، اور اس کی ایک بڑی وجہ ماضی میں چودھری برادران کے بارے میں شریف برادران کا رویہ ہے۔ چودھری برادران اس بات سے بھی نالاں ہیں کہ پنجاب میں سیاسی افراد یا وزیراعلیٰ کو مضبوط کرنے کے بجائے وفاقی حکومت بیوروکریسی کو مضبوط بناکر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ چودھری برادران کی خواہش ہے کہ ان کو پنجاب میں مخصوص علاقوں میں اہم افراد کی تقرریوں میں فری ہینڈ دیا جائے، اور ان کو گلہ ہے کہ موجودہ بیوروکریسی اس عمل میں مکمل تعاون نہیں کررہی۔
حالیہ دنوں میں یہ بات شدت سے کی جارہی ہے کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو زیادہ بااختیار بناکر سیاسی و انتظامی معاملات چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چودھری برادران عثمان بزدار کی حمایت میں کھڑے ہیں اور ان ہی کو مضبوط بھی دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن اپنے حالیہ دورۂ لاہور میں وزیراعظم نے مسلم لیگ (ق) کی قیادت یا ارکانِ اسمبلی سے ملنے سے گریز کیا، اور یہ معاملات انہوں نے جہانگیر ترین کو ہی سونپے ہوئے ہیں، اور اس کا گلہ چودھری برادران کو بھی ہے کہ وزیراعظم براہِ راست ان سے بات چیت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وزیراعظم اور فوج کے درمیان اختلافات ہیں اسی کی بنیاد پر تبدیلی نظر آرہی ہے، وہ بھی فی الحال غلطی پر ہیں، اور اس کو بنیاد بناکر بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے اندر سے ارکانِ اسمبلی کی بغاوت اور ناراضی کا تعلق ہے تو ان کا بنیادی مسئلہ ترقیاتی فنڈز ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری بھی اس پر اپنے تحفظات پیش کرچکے ہیں۔ اُن کے بقول جیسے وفاق نے صوبوں کو اختیارات دیے اسی طرح صوبوں کو بھی ضلعی سطح پر موجود سیاسی لوگوں کو بااختیار بنانا ہوگا، اور ان کو مالی، سیاسی، انتظامی طاقت دینی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی حکومت عددی اعتبار سے مضبوط نہیں، ایسے میں ارکانِ اسمبلی کے معاملات کو نظرانداز کرنا اور ترقیاتی فنڈز کے معاملے پر ان کو اہمیت نہ دینا یقینی طور پر مسئلہ بن سکتا ہے، کیونکہ ارکانِ اسمبلی کی زیادہ دلچسپی قانون سازی سے زیادہ اپنے حلقے کے ترقیاتی کاموں میں ہوتی ہے اور یہی عمل ان کی سیاسی ساکھ بھی قائم کرتا ہے۔ اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ کو باہمی مشاورت کے ساتھ قابلِ قبول فارمولا تلاش کرنا ہوگا۔ وزیراعظم کا دورۂ لاہور بھی ارکانِ اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈز، اور بیوروکریسی کو ملنے والے زیادہ اختیارات سے ہی جڑا ہوا تھا۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی میں بیوروکریسی کی مدد سے حکومت کرنے کا شہبازشریف کا ماڈل بھی عملاً کوئی مثبت نتائج نہیں دے سکا۔ بیوروکریسی اور سیاسی لوگوں میں توازن قائم کرنا ہوگا، اور اس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ پنجاب کا سیاسی عمل محض بیوروکریسی کی طاقت پر کھڑا ہے۔ موجودہ چیف سیکریٹری اور آئی جی نے پنجاب کے معاملات میں خاصی بہتری پیدا کی ہے، لیکن اس عمل میں ارکانِ اسمبلی کی مشاورت کو بھی شامل کرنا ہوگا، اور سیاسی لوگوں کی یہ شکایت دور کرنا ہو گی کہ بیوروکریسی ان کے کام میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے، اور اس کو اسلام سے چلایا جارہا ہے، اس تاثر کو بھی ختم کرنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا پنجاب کو براہ راست اسلام آباد سے چلایا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ بات بھی مشہور ہوتی جارہی ہے کہ وزیراعظم نے جان بوجھ کر پنجاب میں ایک مصنوعی قیادت قائم کی ہوئی ہے اور وہ ایک ڈمی وزیراعلیٰ کی مدد سے پورے صوبے کے نظام کو اسلام آباد سے بیٹھ کر خود کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ میڈیا سمیت رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں میں اپنی حکومت کی بہتر کارکردگی کو پیش نہیں کرسکے۔ اس کی ایک وجہ بظاہر اُن کی حکومت کی میڈیا پالیسی بھی ہے۔ میڈیا اور حکومت کے درمیان جو بداعتمادی ہے اس سے بھی وزیراعلیٰ کی اپنی کارکردگی اور حکومت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ پنجاب حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے سولہ ماہ میں ریکارڈ کام کروائے ہیں، اگر یہ بات درست ہے تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو اپنی اس ناکامی کو قبول کرنا ہوگا کہ وہ اس کی مؤثر تشہیر نہیں کرسکے۔ سیاست میں تشہیر بیوروکریسی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کرتی ہے، اور سیاسی لوگ ہی سیاسی معاملات میں حکومت کو لیڈ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ جو حکومت، انتظامیہ، حکومتی جماعت، سیاسی کارکنوں اور میڈیا کے درمیان ابلاغ کا خلا ہے، اسے مؤثر انداز سے پُر کرنا ہوگا۔
پنجاب میں کیونکہ مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی طاقت ہے، تو اس کا مقابلہ کرنے یا اس کا سیاسی اثر کم کرنے کے لیے بنیادی کلید پنجاب حکومت کی کارکردگی ہے۔ وزیراعلیٰ اپنے خلاف ہونے والی تنقید کو بھی اپنی مؤثر کارکردگی کی بنیاد پر شکست دے سکتے ہیں۔ سیاست میں Perceptionکی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اور یہی عمل حکومت کو کامیاب اور ناکام بناتا ہے، اور یہی اِس وقت پنجاب حکومت کا بڑا چیلنج بھی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار خوش قسمت ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اُن کی حمایت سے دست بردار نہیں ہورہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ اپنی حکومت میں موجود خامیوں کو نظرانداز کرکے بیٹھ جائیں اورکچھ نہ کریں۔ ان کو واقعی ثابت کرنا ہوگا کہ اب وہ ایک مختلف وزیراعلیٰ ہیں اور سیاسی نظام پر ان کی گرفت موجود ہے۔ اور کارکردگی کو بنیاد بناکر اگر اپنی ہی حکومت میں موجو د خامیوں کی اصلاح کرتے ہیں تو ان کی حکومت آگے چل سکتی ہے۔ فی الحال ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اور فوری طور حکومت کے خلاف کوئی بڑی سیاسی مہم جوئی ممکن نہیں۔