الیکشن کمیشن فعال ہوگیا جو چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) رضا خان کی سبک دوشی کے بعد سے غیر فعال تھا۔چیف الیکشن کمشنر اور سندھ اور بلوچستان میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی خالی نشستوں پر پارلیمانی کمیٹی نے ناموں کی منظوری اتفاقِ رائے کے ساتھ دے دی ہے۔ اب وزیراعظم کے مشورہ پر صدرِ مملکت کی منظوری کی رسمی کارروائی ہونا باقی ہے۔ سروسز ایکٹ ترمیمی بل کی طرح اس اتفاقِ رائے پر بھی سوالات اٹھانے والے، سوالات اٹھائیںگے۔ تاہم اس اعتبار سے یہ اتفاقِ رائے ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق ہی سہی، خوش آئند ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا نام وزیراعظم عمران خان نے پیش کیا جس پر حزبِ اختلاف نے اتفاق کرلیا، اور دو ارکان کے نام حزبِ اختلاف نے پیش کیے جس پر حکومتی اتحاد نے اتفاق کرلیا۔ خدا کرے نیا الیکشن کمیشن آئین کی روح اور منشا کے مطابق اپنے کام اور اپنے فیصلوں کے ذریعے اس آئینی ادارے کو وہ اعتبار اور وقار بخشنے میں کامیاب ہوجائے جس کا تقاضا آئینِ پاکستان ہر آئینی ادارے کی طرح الیکشن کمیشن سے بھی کرتا ہے۔
1970ء میں متحدہ پاکستان میں ہونے والے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات سے لے کر 2018ء کے عام انتخابات، سپریم کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ججوں کی قیادت میں ہوئے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے دوسرے آئینی اداروں کی طرح الیکشن کمیشن بھی اپنے فرائض آئین کی منشا اور روح کے تقاضوں کے مطابق ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہا، کیوں کہ کسی ایک انتخاب کے بارے میں بھی سو فیصد یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ قبل از انتخابات دھاندلی، انتخابات کے دن دھاندلی اور بعدازانتخابات دھاندلی سے محفوظ رہا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ کون سا الیکشن کتنا رگ ہوا اور کس نے کیا، اور کس نے کرایا، اور الیکشن کمیشن رگ کرنے والی قوتوں کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟ یا ان کا شریک جرم بنا… پاکستان میں الیکشن کمیشن کی سربراہی 1970ء سے قبل تک سول سروس سے تعلق رکھنے والے حاضر سروس اعلیٰ افسران کے پاس رہی۔ اور 1970ء سے دسمبر 2019 تک سپریم کورٹ کے حاضر سروس اور ریٹائر ججوں کے پاس رہی۔ 1973ء کے دستور میں الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تقرری اعلیٰ عدلیہ سے ہونا ضروری قرار دی گئی تھی، جسے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کردیا گیا،اور اب الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر عدلیہ سے باہر سے بھی کیا جاسکتا ہے، جس کے بعد 22گریڈ میں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سکندر سلطان راجا پہلے سول بیوروکریٹ ہیں جو اس منصب پر فائز ہوئے۔
چیف الیکشن کمشنر سول سروسز سے رہے یا اعلیٰ عدلیہ سے، ایک آدھ کے سوا سب ہی اپنی قابلیت اور دیانت داری میں نئے نامزد چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا کی طرح نیک نامی کی شہرت رکھتے تھے۔ اسی لیے نئے چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی نیک نامی کی شہرت اس ادارے کے وقار کو بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ اس کے لیے انہیں اس سرنگ کے آگے اپنے عمل سے آہنی دیوار کھڑی کرنا پڑے گی جہاں سے الیکشن دھاندلی زدہ ہوتا ہے۔
سبک دوش ہونے والے چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس (ر) رضا خان بطور جج بھی اور بطور چیف الیکشن کمشنر بھی نیک نام رہے۔ مگر سوال ذاتی نیک نامی کا نہیں ہے بلکہ اس آئینی ادارے کو آئین کی منشا کے مطابق بیرونی مداخلت کاروں کی غیر آئینی اور غیر قانونی مداخلت کاری سے باز رکھنے کا ہے، اور ایسے آزادانہ، دیانت دارانہ، غیر جانب دارانہ، صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کا ہے جسے کوئی متنازع نہ بنا سکے۔ اور جو ان کے نتائج کو متنازع بنائے وہ خود متنازع بن جائے۔ اس کے لیے ہماری وہ تمام جماعتیں جو انتخابی عمل پر یقین رکھتی ہیں اور انتخابی عمل کو آئین کے تقاضے کے مطابق صاف شفاف رکھنے کی خواہش مند ہیں، پڑوسی ملک بھارت کی سیاسی جماعتوں کی طرح کا ’’میثاق‘‘ کرلیں، جو بھارت میں سیاسی جماعتوں نے 1947ء میں آزادی کے فوراً بعد کر لیا تھا، جس کی وجہ سے بھارت میں بڑی حد تک انتخابی نتائج کو ہارنے والی جماعت متنازع بنانے سے گریز کرتی ہے۔
1991ء میں کراچی میں اُس وقت کی قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قائد بے نظیر بھٹو (شہید) کی دعوت پر پاکستان میں ’’سارک ممالک‘‘ کے حزبِ اختلاف کے قائدین کی کانفرنس ہوئی تھی جس میں شرکت کے لیے بھارت کے سابق وزیراعظم اور اُس وقت بھارت کی پارلیمنٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف آنجہانی وی پی سنگھ تشریف لائے تھے۔ اس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی کہ سارک کے رکن جس ملک میں بھی عام انتخابات ہوں اس کی مانیٹرنگ کے لیے وہاں سارک ممالک کے حزبِ اختلاف کے قائدین جائیں۔ جس سے وی پی سنگھ نے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہہ کر اس تجویز کی تائید سے انکار کردیا تھا کہ بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے نتائج کو غیر متنازع رکھنے کے لیے میثاق کر رکھا ہے، اس کی موجودگی میں ہمیں اپنے ملک میں ہونے والے انتخابات کے لیے اس طرح کے بندوبست کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی بات انہوں نے کراچی پریس کلب کے خطاب میں بھی کہی تھی۔ اس کے اگلے روز اِس کالم نگار نے اُن سے ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ اس میں اس کا پسِ منظر جاننے کے لیے سوال کیا تھا تو ان کا جواب یہ تھا کہ بھارت کی تمام جماعتوں نے 1947ء میں آزادی کے فوراً بعد ہی اس مسئلے کا حل یہ نکالا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت جیتے یا ہارے، سیاسی جماعتیں الیکشن کے نتائج کو متنازع نہیں بنائیں گی، بلکہ الیکشن کمیشن کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی چلی جائیں گی، جس کی وجہ سے ہمارا ہر الیکشن پہلے کے مقابلے میں بہتر سے بہترین کی طرف جارہا ہے۔ الیکشن کمشنر جو ایک حاضر سروس سول سرونٹ ہوتا ہے، اتنا بااختیار ہے کہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد وزیراعظم کا جہاز ٹیک آف کرنے سے روک دیتا ہے۔ انتخابی نتائج کو متنازع نہ بنانے کے اس فیصلے نے ہی ہمیں بحیثیت قوم خوشی و غمی کے تہوار اکٹھے منانے کا سلیقہ سکھایا ہے، جس سے آپ کا ملک محروم ہے۔
آنجہانی وی پی سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے اور انتخابی نتائج کو احتجاجی سیاست کا ایشو نہ بنانے کے فیصلے سے ہم ایک ایسا انتخابی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس پر قومی اتفاقِ رائے موجود ہے، اور دنیا ہمارے انتخابی نتائج کو تسلیم کرتی ہے۔
اتفاقِ رائے کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے نامزد ہونے والے چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا کی شہرت بلاشبہ ایک دیانت دار، دبنگ سول سرونٹ کی ہے جو قواعد و ضوابط اور قانونی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی پاسداری میں اپنے افسرِ اعلیٰ کو ’’نو‘‘ کہنے کی جرأتِ رندانہ کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کالم نگار کا اُن سے کبھی ذاتی رابطہ یا راہ ورسم تو نہیں رہی، البتہ اُن کا ذکر پنجاب میں وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کی کابینہ کے ایک نیک نام، دیانت و امانت کی اعلیٰ روایات کے امین وزیر ایکسائز و ٹیکسیشن ڈاکٹر شفیق چودھری سے اُس وقت سنا تھا جب اُن کی وزارت میں سکندر سلطان راجا 19 ویں گریڈ میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ برادرِ محترم ڈاکٹر شفیق چودھری نے اُس وقت مجھے بتایا تھا کہ میری وزارت میں میرا ڈائریکٹر جنرل جہاں ایک قابل افسر ہے، اس سے کہیں زیادہ دیانت دار اور خلافِ قاعدہ کام کرنے سے اپنے سیکریٹری تک سے قانون اور ضابطے کے مطابق انکار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر شفیق چودھری، چودھری پرویزالٰہی کی کابینہ میں پانچ سال وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن رہے تھے۔ ان کے دور میں ’’میرٹ‘‘ پر ہر کس و ناکس کا کام رشوت کے بغیر باآسانی ہوجاتا تھا۔ اس دور میں اِس محکمے میں تقرر و تبادلے رشوت یا سفارش پر نہیں بلکہ محکمے کے طے کردہ قاعدے اور ضابطے کے مطابق ہوتے تھے، جب کہ سرکاری خزانے میں ریکارڈ ٹیکس جمع ہوا، جس میں بلاشبہ ڈاکٹر شفیق چودھری کی دن رات کی سخت محنت اور دیانت داری کا بھی بڑا دخل تھا۔ تاہم اگر انہیں سکندر سلطان راجا جیسے قابل، دبنگ اور دیانت دار افسروں کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو اُن کے لیے یہ کام کرنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ سکندر سلطان راجا کا خاندانی پس منظر متوسط زمیندار عسکری گھرانے کا ہے۔ ان کے والد مرحوم سلطان راجا پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر تھے، ان کے بڑے بھائی ظفر سلطان راجا ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ ان کے دادا فضل راجا قیام پاکستان سے قبل اپنے گائوں کنڈل تحصیل پنڈ دادخان سے نقل مکانی کرکے دریائے جہلم کے دوسرے کنارے بھیرہ کے ایک گائوں میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ سکندر سلطان راجا کی پیدائش اسی گائوں کی ہے۔ انہوں ابتدائی تعلیم گائوں کے سرکاری اسکول میں حاصل کی تھی۔