ملک میں غربت بڑھ رہی ہے،مثبت اور دیرپا منصوبے بنانے کی ضرورت ہے

اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور سے انٹر ویو

فرائیڈے اسپیشل: اسلام آباد اسمال چیمبر نے ملک گیر سطح پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے حالیہ انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور ایک بڑی تبدیلی لے کر آئے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟
سجاد سرور: فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے انتخاب میں ملک بھر کے تمام تاجروں اور صنعت کاروں کے وہ چیمبرز، ویمن چیمبرز اور تاجر ایسوسی ایشنز شریک ہوتی ہیں جو قانون کے دائرے میں رہ کر قائم ہوئی ہوں اور کام کررہی ہوں۔ اس کے انتخابات میں اسمال چیمبر کا بھی رول ہے اور ہم یہ چاہتے تھے کہ فیصلے مشاورت سے کیے جائیں، مسلط نہ کیے جائیں۔ اس میں ہم کامیاب رہے، اور آئندہ بھی اپنا رول تاجروں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی ادا کریں گے۔ ہم نے ہمیشہ اسلام آباد کے تاجروں کی آواز کو اٹھایا بھی ہے اور ایوانوں تک بھی پہنچایا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے مسائل کا ذکر کیا ہے، کیا تاجروں کو درپیش مسائل کی کچھ وضاحت کریں گے؟
سجاد سرور: ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک میں تیس فیصد نوجوان تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں، تاہم 2020ء کے آخر تک پاکستانی معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہوجائیں گے، اور اس کی وجہ حکومت کے وہ اقدامات ہیں جو بروقت کیے جارہے ہیں۔ حکومت کے سامنے مسائل ضرور ہیں لیکن یہ ان کا مقابلہ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اسے راتوں رات کامیابی نہیں مل سکتی، بلکہ اس کی جگہ کوئی بھی حکومت ہو وہ چند ماہ میں غیرمعمولی نتائج نہیں دے سکتی، کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے نہ صرف معاشی طور پر ملک کو بدحال کردیا تھا بلکہ انتظامی طور پر بھی ادارے مفلوج ہوچکے تھے۔ جہاں حکومت کے لیے دیگر چیلنج منہ کھولے کھڑے تھے وہاں اُسے اداروں کو بھی اپنی ڈگر پر ڈالنا تھا۔ زراعت، صنعت اور سروسز سیکٹر کی بحالی کے ذریعے معیشت میں نئی روح پھونکنے کا کام آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے وقت بھی درکار تھا اور توجہ بھی۔ ان اقدامات کے بہت سے مثبت اثرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں جس میں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی آئی ہے، اس میں گزشتہ برس جولائی سے دسمبر کے دوران 75 فیصد کمی ہوئی۔ موڈیز کی رینکنگ کے مطابق جولائی سے دسمبر تک پاکستان کی معیشت دس بہترین معیشتوں میں شمار ہوئی اور اس کی ریٹنگ منفی سے نکل کر بی تھری میں آگئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کاروباری افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنا بند کرتے ہوئے انٹرسٹ ریٹ میں کمی کا اعلان کرے تاکہ عوام، تاجر اور صنعت کار سُکھ کا سانس لے سکیں اور زوال پذیر پیداواری شعبہ فعال ہوسکے۔ شرح منافع میں کمی سے کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی، جس سے سرمایہ کاری، پیداوار اور روزگار کا بند دروازہ کھل جائے گا۔ ملکی معیشت کو سیاسی عدم استحکام، ضرورت سے زیادہ شرح سود، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، روپے کی ناقدری اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور عوام کی بڑی تعداد اپنی آمدنی کا 60 فیصد تک خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ خوراک کے بعد تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات کی باری آتی ہے، جو پوری نہیں ہورہیں تو عوام مارکیٹ سے کیا خریدیں گے! اسی وجہ سے طلب مسلسل کم ہورہی ہے، جس سے پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے۔ روپے کی قدر میں ضرورت سے زیادہ کمی اور شرح منافع میں اضافے نے پیداواری لاگت میں اضافہ کردیا ہے، جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں، اس وجہ سے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، جس کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جارہا ہے، جس نے ان کی کمر توڑ رکھی ہے۔ گندم کی قیمت میں مصنوعی اضافے سے صرف آٹا مہنگا نہیں ہوگا بلکہ اس کے اثرات تمام اشیائے خور و نوش پر پڑیں گے۔ اس لیے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف معنی خیز کارروائی ضروری ہوگئی ہے، جبکہ مستقبل میں مافیا کی جانب سے منافع کے لیے عوام کو لوٹنے کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اگر گندم کی بڑھتی ہوئی قیمت کا کوئی فوری حل نہ نکالا گیا تو لاکھوں افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: ٹیکس نہ دینے والوں میں بھی آپ کی برادری کا ہی نام لیا جاتا ہے۔ کیا کاروباری برادری ٹیکس محصولات میں مددگار ثابت ہوگی؟
سجاد سرور: ہمارے چیمبر کے لیے ممبر شپ کی اہلیت یہ ہے کہ ہر ممبر قانون اور طے شدہ ضابطوں اور قواعد کے مطابق اپنا سالانہ ریٹرن باقاعدگی سے داخل کرتا ہو، اور یہ شرط ہماری جانب سے نہیں لگائی گئی بلکہ پارلیمنٹ نے لگائی ہے۔ جب یہ قانون بن رہا تھا تو قانون سازی کے لیے آئینی لحاظ سے ذمہ دار ادارے پارلیمنٹ میں اس کے ایک ایک پہلو پر باریک بینی سے غور ہوا، اور پہلے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں یہ بل زیر غور رہا اور پھر پارلیمنٹ میں پیش ہوا، جہاں ایک مکمل بحث کے بعد اسے منظور کیا گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
سجاد سرور: ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت ماضی میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بنائی جانے والی مثبت پالیسیوں کو آگے بڑھائے اور نئی پالیسیاں بھی بنائے۔ پاکستان کی معاشی کارکردگی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہی ہے، ہر حکومت کی طرح اِس حکومت کو بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ملکی معیشت اُس وقت درست تصور کی جائے گی جب اس ملک کے عوام خوشحال ہوں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز ملکی تاجروں اور چھوٹے امپوٹرز اور ایکسپورٹرز کے لیے کس طرح کا اچھا کاروباری ماحول فراہم کرسکتی ہے؟
سجاد سرور: بہت سے ممالک ہیں جو پاکستان کے تاجروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ان میں ملائشیا، بنگلہ دیش اور دوسرے بہت سے ممالک ہیں۔ ملائشیا پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ مشترکہ تعاون کے منصوبوں پر کام کرنے کو تیار ہے۔ ہم چاہیں گے کہ دونوں ملک مختلف شعبوں میں اپنی مہارتوں سے استفادہ کریں۔ اس سلسلے میں ماہرین اور عوامی سطح پر وفود کے تبادلے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستانیوں کو ملائشیا میں اعلیٰ مہارتوں کے لیے ایک پروگرام کے تحت اسکالرشپ دی جارہی ہیں، جس سے چھ سو سے زائد پاکستانی استفادہ کرچکے ہیں۔ پاکستان سے ملائشیا کے لیے ایک نئی ائیرلائن کی پروازوں کے آغاز سے سیاحوں کی آمدورفت بڑھے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: تاجروں کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ملک میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث رہتے ہیں۔ آپ کا چیمبر اس کے خلاف کیا اقدامات کرے گا؟
سجاد سرور: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے میمورنڈم اور رولز میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ہم ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات بھی کریں گے اور اس کے خلاف معاشرے کی مدد بھی کریں گے۔ آپ نے مہنگائی کی بات کی ہے، مگر دوسرا پہلو یہ بھی تو دیکھیں کہ ڈالر کی قیمت کس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی آئی ہے۔ اس کا براہِ راست اثر پڑتا ہے، اسی نسبت سے لاگت بھی بڑھتی ہے اور مہنگائی بھی بڑھتی ہے، لیکن قوم نے بھی اس دوران اپنے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنے کی خوب عادت ڈال لی ہے۔ معیشت کی بنیادی خرابی دور کیے بغیر ڈالر کی بڑھتی قدر کو روکنا بہت مشکل کام ہوگا۔کارٹل قائم کرنے والوں کے خلاف بھی نئی اور مؤثر قانون سازی ہونی چاہیے۔ یہ تمام حالات ہیں جو ملک میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور بدنام صرف چھوٹے تاجر ہوتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:پاکستانی معیشت کی بحالی میں کیا مشکلات ہیں؟
سجاد سرور: پاکستانی معیشت کی بحالی میں بے شمار مشکلات ہیں جن میں بیرونی قرضہ، اندرونی خسارہ، صنعتوں کی عدم بحالی، تجارت کی تنزلی وغیرہ شامل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک کی معیشت نہ تو مضبوط ہوسکی اور نہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوسکی۔ اقتدار میں آنے والے حکمرانوں نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں پر عمل کیا، جس سے معیشت کے تمام شعبے کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے۔ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے جہاں مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں مستقل بنیادوں پر طویل مدتی منصوبوں پر عمل درآمد بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہ وتیرہ غلط ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومتوں پر معیشت کی خرابی کا بوجھ ڈال دیتی ہے اور الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں طویل مدتی منصوبوں کو ختم نہیں کیا جاتا، بلکہ جاری منصوبوں کو جاری رکھا جاتا ہے اور مکمل کیا جاتا ہے، جس سے پیسہ ضائع نہیں ہوتا۔ پاکستانی معیشت کے لیے مثبت اور دیرپا منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت نے احتساب قانون ہی بدل دیا ہے۔ کیا تاجروں کو اب ریلیف مل جائے گا؟
سجاد سرور: بہتر عمل یہ ہے کہ احتساب کو شفاف اور غیر جانب دار بنانے کے لیے پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے۔