شرحِ صدر

محفوظ احمد رحمانی
غالباً 1970ء کے قریب کا واقعہ ہے، پیر اشرف صاحب نے لاہور میں ہی کاغذ کی خرید و فروخت کی دکان کینٹ روڈ لاہور میں کرلی تھی۔ خالی وقت میں اکثر میرے اردو ڈائجسٹ پرنٹرز میں آجایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والا قصہ یوں سنایا:
جس زمانے میں ختمِ نبوت کی تحریک چل رہی تھی اور ہم تحریک کے کارکنوں کو مولانا کا تحریر کردہ کتابچہ (غالباً ’’قادیانی مسئلہ‘‘) پورے ملک میں تقسیم کرنا تھا، اور میں بذریعہ ٹرین مختلف اسٹیشنوں پر کارکن کو تقسیم کے لیے دیتا رہتا۔ اس بارے میں مولانا نے کچھ مشورہ دیا جو میرے خیال میں درست نہ تھا۔ میں نے اپنا طریقہ بتایا، لیکن مولانا نے فرمایا کہ میں جو کہتا ہوں وہی طریقہ درست ہے۔ غرض کہ فیصلہ نہ ہوسکا اور میں اپنے گھر اوکاڑہ چلا گیا۔ رات کو سوا ہوا تھا کہ کسی وقت خواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، اور آپؐ نے فرمایا کہ میرا بیٹا درست کہہ رہا ہے، اُسی پر عمل کیا جائے۔ میری آنکھ کھل گئی اور بے تحاشا رونا آگیا کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی۔ اسی حالت میں صبح ہوگئی اور میں پہلی ٹرین سے لاہور پہنچا۔ اُس وقت مولانا اشراق پڑھ کر اپنی کوٹھی کے لان میں چہل قدمی کررہے تھے۔ دروازہ کھلا تھا، میں داخل ہوا اور بے تحاشا رونا آگیا، میں کچھ کہہ نہ سکا۔ مولانا نے کہا: اب تو شرحِ صدر ہوگیا۔ (اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ مولانا کس اعلیٰ مقام پر تھے۔ یہ میرے الفاظ ہیں اور میں ہر لفظ کے درست ہونے کا ذمہ دار ہوں)۔
……………
یوں تو مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب سے مختلف مقامات پر تقاریر میں حاضری پر دید شنید ہوجاتی تھی اور مسجد مبارک کی ہر ہفتہ محفلِ درس قرآن میں نظری یعنی سمعی و بصری ملاقات ہوجاتی۔ لیکن بالکل قریب سے ملاقات کا ایک بہانہ بن گیا۔ ہوا یوں کہ میرے بیٹے کو ایک جنگلی بلی نے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ میں قریب ہی (سمن آباد) ڈاکٹر کو دکھانے لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو (کتے کے کاٹے والے) چودہ انجکشن لگیں گے۔ میں چند ماہ پہلے ہی کراچی سے لاہور آیا تھا۔ سوائے گھر اور پریس کے کچھ بھی نہ دیکھا تھا۔ میں اُس وقت اردو ڈائجسٹ پرنٹرز میں بطور اکائونٹنٹ کام کررہا تھا۔ وہیں پر تفہیم القرآن کی طباعت ہورہی تھی جس کو دیکھنے مرحوم قمر الدین شیخ (ناظر تفہیم القرآن اور جملہ کتب تحریک تھے) کے بھانجے شیخ عبدالحمید آیا کرتے تھے۔ میں فکرمند تھا کہ بچے کے علاج کا مرحلہ کیسے طے ہوگا۔ حمید بھائی نے کہا: رحمانی صاحب کیا فکر کرتے ہو، بہت آسان ہے۔ اپنے مولانا (یہ مولانا مودودی کی طرف اشارہ تھا) اس کا علاج کرتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ مولانا اور جھاڑ پھونک! چونکہ جماعت سے تعلق اور مولانا کی تحریروں سے قطعاً اس طرح کا اندازہ نہیں ہوتا، میں نے کہا: حمید بھائی مذاق نہ کریں میں بہت پریشان ہوں۔ انہوں نے کہا: نہیں یہ حقیقت ہے، میں آپ کی پریشانی پر ایسا مذاق کیوں کروں گا! آپ ایسا کریں کہ مٹی کا پکا ہوا برتن جو استعمال ہوا ہو، اس کے دو ٹکڑے کرلیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گھس لیں۔ گھسنے سے جو پائوڈر بنے اُسے کسی کاغذ میں لے لیں۔ میں مولانا سے وقت کا تعین کرکے آپ کو بتادوں گا۔ وہ پائوڈر اور بچے کو (جسے بلی نے کاٹا ہے) لے کر جائیں۔
چنانچہ وقت کے مطابق میں اپنے بیٹے اور پڑیا میں وہ پائوڈر لے کر مولانا کی رہائش گاہ اچھرہ پہنچ گیا۔ حمید بھائی پہلے سے موجود تھے، جلد ہی مولانا کے دفتر میں ہی حاضری کی اجازت مل گئی۔ مولانا اپنی میز کے ساتھ کرسی پر تشریف فرما تھے، سامنے کرسیوں پر میاں صاحب اور ایک اور صاحب بیٹھے تھے۔ سلام کے بعد شیخ حمید بھائی نے بچے کو آگے کردیا۔ مولانا نے اس کا وہ ہاتھ پکڑا جس کی پشت پر بلی نے کاٹا تھا۔ پکی مٹی کا پائوڈر کھولا اور ایک چٹکی میں لے کر کچھ پڑھتے ہوئے ہاتھ پر کاٹی ہوئی جگہ پر مَلتے رہے۔ غالباً چھے سات مرتبہ یہ دہرایا اور ہمیں فارغ کردیا۔ یہ مولانا سے بہت قریب یعنی صرف ایک فٹ کے فاصلے سے ملاقات ہوئی۔ وہ شکل اور وہ نرم و نازک ہاتھ جس کی حلاوت آج تک محسوس کرتا ہوں اور باوجود خواہش کے اس ہاتھ کو چوم نہ سکا، اس کا افسوس ہی رہے گا۔ شاید یہ کچھ مولانا کا رعب تھا اور عقیدت، اور شاید دونوں ہی وجوہ کی وجہ سے یہ جسارت نہ کرسکا۔ حمید بھائی سے جب بھی ملاقات ہوتی تھی ضرور محمد احمد (میرے بیٹے) کا حال پوچھتے۔ بہت ہی محبت والے اور خوش مزاج آدمی ہیں، جہاں پر بھی ہیں اللہ انہیں خوش رکھے۔