چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور پرویز خٹک کا مصالحتی مشن
بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے گویا اپنا عہدہ کھو دینے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے لیے قصوروار بھی عبدالقدوس بزنجو خود ہوں گے۔ درحقیقت عبدالقدوس بزنجو نے ہی وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے۔ جام کمال کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی عبدالقدوس بزنجو مخالفانہ راہ اپنا چکے ہیں۔ بیانات دیتے ہیں، نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں کہ جام کسی ادارے یا کمپنی کے چیئرمین بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں وزیراعلیٰ بننے کی نہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ انہیں بیوروکریٹ ہونا چاہیے تھا، وغیرہ وغیرہ۔ چناں چہ اب جام کمال خان اور دوسرے وزرا نے بھی عبدالقدوس بزنجو کے خلاف بولنا شروع کردیا ہے اور انہیں اسپیکر کے عہدے سے ہٹانے کا عندیہ دے دیا ہے، جس سے قدوس بزنجو لڑکھڑانے لگے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے28 جنوری کو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ جب وزیراعلیٰ جام کمال، صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور سینیٹر سرفراز بگٹی بول پڑے تو عبدالقدوس بزنجو نے24 جنوری 2020ء کو ان تینوں کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرا دی اور مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل19کے تحت بحیثیت اسپیکر اور عام شہری انہیں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ جبکہ اس کے برعکس 24 جنوری2020ء کو مقامی اخبارات میں وزیراعلیٰ جام کمال خان، وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور سینیٹر سرفراز بگٹی کی جانب سے اُن کے خلاف الگ الگ بیانات شائع ہوئے، جن سے بحیثیت اسپیکر نہ صرف اُن کا بلکہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے، لہٰذا بلوچستان اسمبلی کے قواعد اور انضباطِ کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ60 ایف کے تحت معاملہ استحقاق کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔ جام مخالف سیاست میں حزبِ اختلاف بھی قدوس بزنجو کو تھپکی دے رہی ہے۔ حزبِ اختلاف میں اگر پشتون خوا میپ کا اکلوتا رکن ساتھ دے گا تو اس کا یہ فعل انتہائی شرمناک ہوگا۔ کیوں کہ یہ قدوس ہی تھے جنہوں نے نون لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قیادت کی، بلکہ وہ پشتون خوامیپ کے خلاف بغض رکھتے تھے، اور نواب ثناء اللہ زہری بھی اس اسمبلی کا حصہ ہیں، لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ پشتون خوا میپ اور نواب ثناء اللہ زہری کھل کر اس سیاست کی مذمت کریں۔ اور پھر بلوچستان کے اندر وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی فضا قطعی نہیں ہے۔ اگر کوئی تبدیلی آتی بھی ہے تو وہ اندرونی ہوگی۔ اس میں حزبِ اختلاف کو کچھ ملنے والا نہیں۔ رہی بات عبدالقدوس بزنجو کی، تو وہ اب کسی شمار میں نہیں رہے ہیں۔ اسپیکر کا عہدہ بھی ان کے سیاسی قد کاٹھ سے بڑھ کر ہے، چناں چہ انہیں اسپیکر کے منصب کا پاس ادا کرنا چاہیے۔ یہ صوبے کا تیسرا بڑا عہدہ ہے جس پر انہیں بٹھایا گیا ہے۔ اُن کے لیے یہی بہت ہے کہ پچھلی حکومت میں چھے ماہ کے لیے صوبے کے وزیراعلیٰ بنائے گئے، جس میں جے یو آئی (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی بالواسطہ حصہ دار بن گئی تھیں۔
اب اپنے گرد حصار بنتے دیکھ کر عبدالقدوس بزنجو اسلام آباد پہنچ گئے اور عزت کی راہ ڈھونڈنے کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کو بیچ میں لائے۔ یہاں بھی کمالِ ہوشیاری سے بیان یہ دلوایا گیا کہ یہ افراد قدوس بزنجو کے گھر میڑھ (جرگہ) لے کر گئے، جسے انہوں نے قبول کرتے ہوئے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اخبارات کے مطابق یہ دو افراد وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی ملاقات کر یں گے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، پرویز خٹک اور عبدالقدوس بزنجو نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی، جہاں صادق سنجرانی نے بتایا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور اسپیکر کے درمیان معاملہ حل ہوگیا ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان بہتر حکومت کررہے ہیں، اُن کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، جام کمال ہی وزیراعلیٰ رہیں گے، دونوں رہنمائوں کے درمیان اختلاف کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا، گھر میں بھی ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ (27جنوری2020ء)۔
ذرائع ابلاغ پر عبدالقدوس بزنجو کے جام مخالف بیانات و گفتگو کی تفصیل ڈیڑھ سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ ہم یہاں حالیہ چند بیانات نقل کرتے ہیں جو اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر سامنے آئے ہیں، تاکہ قارئین پر صورتِ حال واضح ہو۔ یک طرفہ محاذآرائی کے بعد وزیراعلیٰ جام کمال خان کو بولنا پڑا کہ
’’قدوس بزنجو کی اپنی سوچ ہے، ہم تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہیں۔ ہماری سوچ ہے کہ ہمیں بلوچستان کے لیے کام کرنا اور کارکردگی دکھانی ہے، اور گورننس سے لوگوں کو فائدہ دینا ہے۔ مخلوط صوبائی حکومت میں شامل تمام جماعتوں کی گزشتہ ڈیڑھ سال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے جوسوالات اور باتیں میڈیا پر آکر کی ہیں یہ اُن کی اپنی سوچ ہے جس کو انہوں نے میڈیا پر شیئر کیا ہے، تاہم انہوں نے کن وجوہات کی بنا پر یہ باتیں کیں، اس سلسلے میں وہ خود بہتر بتا سکتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے قیام کے دو ماہ بعد ہی میڈیا کے دوستوں نے کہا تھا کہ عدم اعتماد آرہی ہے، جس کے جواب میں مَیں نے کہا تھا کہ پہلے دن عدم اعتماد آجاتی۔ یہ اب بھی آجائے، ہم تیار ہیں۔ بلوچستان حکومت مضبوط ہے، اسے کوئی خطرہ نہیں۔ ہم لفّاظی پر نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر حکومت کررہے ہیں۔ عدم اعتماد اپوزیشن کا حق ہے، وہ جب چاہے لاسکتی ہے۔ قدوس بزنجو ہمارے سینئر اور جذباتی ساتھی ہیں، وہ جذبات میں آکر بہت ساری باتیں کر جاتے ہیں، ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتا۔ عدم اعتماد کے ڈر سے حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ یہ ایک سیاسی چیز ہے۔ کابینہ میں تبدیلی انتظامی مسئلہ ہے، ضرورت پڑی تو کابینہ میں مزید تبدیلی بھی کر سکتے ہیں۔‘‘(روزنامہ جنگ، 24جنوری 2020ء)۔
اسی روز عبدالقدوس بزنجو کا بھی بیان چھپا کہ
’’جام کمال میں کسی کمپنی یا ادارے کا چیئرمین بننے کی صلاحیت ہے، وزیراعلیٰ بننے کی نہیں۔ ہم پارٹی نہیں توڑنا چاہتے بلکہ اس میں رہتے ہوئے تبدیلی چاہتے ہیں۔ بی اے پی کے ناراض اراکین میدان میں نکلیں گے تو لوگ دیکھیں گے۔ بدقسمتی سے جام کمال حکومت اور پارٹی دونوں نہیں چلا سکے۔ اپوزیشن کے 23 ارکان موجود ہیں، حکومت گرانے کے لیے صرف 10 ارکان کی ضرورت ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ نمبر گیم پورا کرنا مشکل ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ آپ کے سامنے سب کچھ ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس اور سول سیکرٹریٹ میں عوام کا کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ ہم عہدوں کے لیے نہیں آئے۔ ہم کو عوام کی خدمت کرنی ہے۔ میں اس وقت بلوچستان کی تیسری بڑی پوسٹ پر ہوں اور عوامی نمائندہ ہوں۔ عوام کی خدمت کرنا میرا فرض ہے۔ پہلے بھی میں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی کے خلاف آواز اُٹھائی تھی، مجھے پارٹی کے سینئرز نے روکا اور ایک سال کا ٹائم مانگا۔ مگر ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے، اب خاموش نہیں بیٹھوں گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے عوام کا حق ڈیلیور نہیں کیا۔ ہم ایسا عوامی نمائندہ لانا چاہتے ہیں جو پارٹی اور حکومت دونوں چلا سکے۔ بے اے پی کے بہت سے ناراض ارکان ہیں، میدان میں نکلیں گے تو لوگ دیکھیں گے۔ ہم پارٹی نہیں توڑنا چاہتے بلکہ اس میں رہتے ہوئے تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم صوبے کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اچھی حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم عوامی پارٹی بنانے اور خدمت میں ناکام رہے۔ جام صاحب میرے لیے محترم ہیں، مگر ڈیڑھ سال میں پارٹی کا اجلاس ہی نہیں ہوا ہے، پارٹی میں جو کمیٹی بنائی گئی تھی شکایت سننے کے لیے، وہ بھی انہوں نے ختم کردی۔‘‘(روزنامہ جنگ،24جنوری 2020ء)۔
24 جنوری 2020ء کو سینیٹر سرفراز بگٹی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ:
’’قدوس بزنجو صاحب! جام کمال کے خلاف آپ کی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ بلوچستان عوامی پارٹی کی کور کمیٹی کا حصہ ہیں، اگر آپ کے کوئی تحفظات ہیں تو میڈیا پر جانے سے پہلے آپ کو پارٹی کے اندر اس کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ آپ کی یہ کوشش رائیگاں جائے گی اور وزیر اعلیٰ بدستور صوبے کے چیف ایگزیکٹو رہیں گے۔‘‘
سرفراز بگٹی نے 25 جنوری 2020ء کی ٹویٹ میں مزید کہا کہ ’’بحیثیت ایک سیاسی لیڈر اور رکن اسمبلی ہونے کے ناتے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو ٹی وی پر حکومت مخالف انٹرویوز دے رہے ہیں۔ جواب دیا جاتا ہے تو اپنے اسپیکر کے عہدے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف مہم چلانا چاہتے ہیں تو اسپیکرشپ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔‘‘
23 جنوری 2020ء کو بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ:
’’اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کی سیاست میں غیر اہم ہوچکے ہیں، اُن کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور حقیقت سے دور ہیں۔ میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے کیے گئے دعوے محض خبروں کی سرخیوں میں رہنے والے ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کی جانب سے وزیراعلیٰ پر لگائے گئے تمام الزامات سراسر بے بنیاد اور غلط ہیں۔ ہماری پارٹی وزیراعلیٰ میر جام کمال خان کی قیادت میں منظم ہے، اور اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کو اُن کے ان الزامات پر بھرپور جواب دیا جائے گا۔‘‘
ظہور بلیدی نے 24 جنوری 2020ء کو پھر کہا کہ ’’اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کو اپنے عہدے کا پاس رکھنا چاہیے، اگر انہیں اسمبلی کے قوانین اور بزنس کے بارے میں علم نہیں تو اس حوالے سے اُن کی مدد کی جا سکتی ہے، عبدالقدوس بزنجو کو اپنے عہدے کے مطابق غیر جانب دار رہتے ہوئے کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیے، ان کا منصب ان سے غیر جانب دار رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
اس دوران بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے قائد حزبِ اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کے لیے قدوس بزنجو دس ارکان اپوزیشن چیمبر لانے میں کامیاب ہوئے تو اس جمہوری حق میں دیر نہیں کریں گے، اور اپوزیشن بات چیت کے لیے تیار ہے۔ اب گیند قدوس بزنجو کے کورٹ میں ہے۔ اپوزیشن میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ن) سمیت 23 ارکان ہیں۔ اپوزیشن کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری حکومت بن جائے اور عوام سے کیے گئے وعدے پورے کریں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی پر 23 ہم ہیں، 10اور آجائیں اپوزیشن چیمبر میں، پھر ہم اپنا جمہوری حق ادا کرنے میں بالکل دیر نہیں کریں گے۔ اسپیکر سے کل بھی ملاقات ہوئی تھی، دس ارکان لانا قدوس بزنجو کا کام ہے۔ اگر نمبر گیم پورے ہوئے تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘‘(24جنوری 2020ء)۔