خانہ کعبہ پر قبضے کا سنگین واقعہ

مائیکل ڈارلو (Micheal Darlow) اور باربرا برے (Barbara Bray) مشہور برطانوی مصنفین اور بی بی سی کے معروف پروڈیوسر رہے ہیں۔ انہوں نے پندرہ سال کی تحقیق اور مطالعے کے بعد انگریزی زبان میں ضخیم کتاب ’’ابن سعود‘‘ (Ibn e Saud)تصنیف کی، اس کتاب کے پندرھویں باب میں شاہ خالد کے دورِ حکومت میں رونما ہونے والے اس سنگین واقعے کا تفصیلی ذکر لمحہ بہ لمحہ موجود ہے، جس کا ترجمہ اور تلخیص یہاں پیش کی جارہی ہے

۔20 نومبر 1979ء کو صبح سویرے ایک ایسا انہونا واقعہ رونما ہوا جس نے تمام عالم اسلام کو ششدر اور مبہوت کرکے رکھ دیا اور سعودی شاہی خاندان کی بنیادی ہلادیں۔ اسلامی تقویم ۱۴۰۰ ہجری کے سال کا یہ پہلا دن یعنی یکم محرم الحرام کا تاریخی دن تھا۔ مکہ میں خانہ کعبہ میں نمازیوں اور عبادت گزاروں کا ہجوم تھا جو فجر کی نماز کی تیاری کررہے تھے، بہت سے تو رات کو ہی قیام کے لیے فرش پر سوگئے تھے، اور بہت سوں کے ساتھ تابوتوں میں کفن میں لپٹی ہوئی میتیں بھی تھیں جن کا نمازِ جنازہ وہ اس متبرک مسجد میں پڑھوانا چاہتے تھے اور امام کعبہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے عازمینِ حج و عمرہ فجر کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ میں شریک ہوکر دعا کرتے۔ اچانک ہجوم میں سے گولیاں چلنے کی دھماکے دار آوازوں سے مسجد کا ماحول گونج اٹھا اور لوگ حیران و پریشان ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے، کیونکہ اسلام کی اِس مقدس ترین جگہ پر ہتھیار اٹھانا اور گولیاں داغنا گناہِ کبیرہ ہے۔
دفعتاً ہجوم میں سے احراموں میں ملبوس خودکار اسلحہ سے گولیاں چلاتے ہوئے بہت سے افراد نمودار ہوتے گئے اور چاروں طرف سے خانہ کعبہ میں مرکزی وسطی جگہ پر جمع ہونے لگے۔ مسجد میں موجود حفاظتی پولیس کے ارکان جو صرف لاٹھیوں سے مسلح تھے، ابتر صورت حال دیکھ کر اس طرف بڑھنے لگے تو ان مسلح افراد نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔
افراتفری کے عالم میں ہزاروں نمازی اور عبادت کرنے والے جان بچانے کے لیے مسجد کے دروازوں کی طرف لپکے تو ان کی مایوسی کی انتہا نہ رہی کہ وہاں تمام دروازوں پر زنجیروں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں اور وہاں وحشیانہ اور جنگلی وضع کے اجڈ گنوار بدو اپنے بے ترتیب اور خراب حلیے میں کسی کو باہر نہ جانے دے رہے تھے۔ یہ جنونی قسم کے بے ترتیب اور الجھے ہوئے بالوں اور داڑھی والے لوگ تھے جو خوفناک اور غضب ناک نظروں سے لوگوں کو واپس مسجد کے صحن اور اندر کی طرف دھکیل رہے تھے۔ اس کے علاوہ زیادہ وحشیانہ بشرے والے افراد ان تابوتوں کے کپڑوں کو ہٹاکر وہاں سے کارتوس اور مزید اسلحہ نکال رہے تھے جس سے پتا چلتا تھا کہ ان تابوتوں میں اسلحہ چھپا کر لایا گیا تھا تاکہ کسی کو شک و شبہ نہ ہو، اور کوئی تابوتوں کے اندر جھانکنے کی کوشش نہ کرے۔ یہ تابوت رات گئے ہی لائے گئے تھے اور ان کے ہمراہ سوگواروں کی حیثیت سے خاصے افراد بھی اندر آگئے تھے۔

جوہیمن اطائبہ کی عرب انقلابی مسلم تحریک

اب ایک دبلا پتلا آدمی جس کی سیاہ رنگ کی غصے کی تپش سے جلتی ہوئی آنکھیں، لمبے سیاہ بالوں کے ساتھ سیاہ داڑھی تھی، وہ ننگے سر تھا اور عازمین حج کی طرح کا ایک سفید لبادہ پہنے ہوئے تھا، مسجد حرام کے اندرونی حصے سے ہجوم کے بیچ میں سے ہوتا ہوا سامنے آیا اور کعبہ کے سنگِ مرمر کے فرش کے صحن کو پار کرتا ہوا آگے بڑھا۔ یہ شخص جوہیمن اطائبہ تھا جو سابق اخوان جنگجو کا بیٹا تھا جس نے 1929ء میں ابن بجد کی طرف سے ابن سعود کے خلاف سبلّہ کی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ جوہیمن اطائبہ وہی طالب تھا جو بن باز کے لیکچر سنا کرتا تھا۔ ان درمیانی برسوں کے دوران جوہیمن ایک جوشیلا اسلامی مبلغ اور خطیب بن چکا تھا اور اس نے ایک جنگجو بنیاد پرست اصلاحی تحریک قائم کی تھی جس کا نام ’’جزیرہ نما عرب کی انقلابی مسلم تحریک‘‘ تھا۔ بزرگ امام سے جو فجر کی نماز کی امامت کے لیے تیار ہوگئے تھے، مائیکرو فون چھین کر جوہیمن نے فوجی تحکمانہ انداز میں اپنے پیروکاروں کو چلاّ کر حکم دیا کہ اگر کوئی سرکاری سپاہی یا پولیس اہلکار ان کے کام میں مداخلت کرے تو اسے فوراً گولی مار کر ہلاک کردیا جائے۔ اس کے بعد اُس کی آواز کعبہ کی مسجد کے لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے کونے کونے میں گونج رہی تھی اور تین سو فٹ بلند میناروں پر نصب لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے مکے کے شہر کے اطراف میں سنائی دی جارہی تھی۔ اب جوہیمن نے مائیکرو فون پر لوگوں سے خطاب کرنا شروع کردیا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’مکہ، مدینہ اور جدہ اب ہمارے قبضے میں ہیں، میں اور میرے باغی ساتھی مادہ پرست اور بدعنوان حکومت کو پاک کرنے میدان میں آئے ہیں اور آل سعود کی گناہوں سے آلودہ اور غیرمنصفانہ حکومت کا خاتمہ اور کافر طاقتوں کے ساتھ ملک کے تعلقات کو منقطع کرنے جارہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد جوہیمن نے مائک اپنے ایک اور باغی ساتھی کے حوالے کردیا۔
اس نئے مقرر نے واضح تحکم اور ایک مسلمان عالم اور دانشور کے روایتی عرب لہجے اور آواز میں مجمع سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ایک پیش گوئی کے مطابق، اسلام کی بے دینی کے خلاف حتمی کامیابی بہت نزدیک ہے‘‘۔ اس باغی مقرر نے اُن تمام گناہوں اور بدعنوانیوں کی فہرست گنوائی جن کے ارتکاب کی ذمہ داری سعودی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ جن میں عوام پر حکمرانی کرنے والے شاہی خاندان کے کئی افراد کی جنسی عیاشی کی سرگرمیاں، مکہ کے گورنر کو جو موجودہ بادشاہ کا بھائی تھا، اپنے شرمناک کرتوتوں کے سبب بڑی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ٹیلی وژن نے معاشرے میں جو بدعنوانی اور خرابی پھیلائی ہے، اسلام کے بنیادی گہوارے میں کافر مغربی ملکوں کے لوگوں نے یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں جو آلودگی داخل کی ہے، خواتین کی ملازمت کی وجہ سے ان کی اخلاقی پاکیزگی اور تقدس کی پامالی کا خطرہ ہے اور فٹ بال کی شکل میں نیا شروع ہونے والا کھیل بے دین لوگوں کا کوڑا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کی حیثیت کافر غیرملکی طاقتوں کے ہاتھ میں محض ان کے آلہ کار کی سی ہے۔
مقرر نے الزام لگایا کہ ان سب مذکورہ حقائق کے سبب اور کئی اور وجوہات کی وجہ سے آلِ سعود اسلام کی جائے پیدائش پر مسلمانوں پر حکومت کرنے کا حق کھوچکے ہیں۔ چنانچہ لوگوں نے سعودیوں سے وفاداری کا جو حلفیہ عہد کیا تھا وہ اب اس کے پابند نہیں رہے، اور وہ معاہدے منسوخ اور غیر مؤثر ہوچکے ہیں، لیکن میں فخریہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان سے چھٹکارا ہمارے ہاتھ میں ہے۔
ایک متعلقہ حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد صدیوں پہلے پیش گوئیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس باغی مقرر نے اعلان کیا کہ امام مہدی جن کی آمد کی پیش گوئی کی گئی تھی، وہ آچکے ہیں اور اس وقت اس عظیم مسجد میں آپ کے ساتھ موجود ہیں۔ اسی لمحے ایک بندوق بردار محافظ نے عبادت کرنے والوں کے ہجوم کو دونوں طرف دھکیلنا شروع کردیا اور بیچ میں کعبہ کی طرف جانے کے لیے ایک راہداری بنادی، تب مسجد کے اندرونی علاقے سے محرابوں کے جلو میں سائے سے روشنی میں ایک طویل قامت، خوبصورت بالوں اور زرد چہرے والا ایک نوجوان نمودار ہوا جس کے سر پر ڈھیلا ڈھالا سرخ چار خانے دار سرپوش تھا اور ہاتھ میں ایک مشین گن تھی۔ چہرے پر کسی جذبے کے اظہار کے بغیر یہ مہدی کعبہ کی طرف بڑھا۔ مجمع اس کی جواں سالی پر حیرت زدہ تھا۔ کعبہ کی مرکزی جائے امامت پر پہنچ کر وہ مڑا اور جذبات سے عاری چہرے کے ساتھ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس کے مسلح محافظ یکے بعد دیگرے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اور پھر باری باری اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اطاعت شعاری کے عہد کے لیے یہ الفاظ ادا کیے ’’ہم خوشی اور غم، آرام اور تکلیف اور برے حالات میں بھی آپ کا حکم مانیں گے، ماسوائے اس کے جس سے اللہ پاک ناراض ہو‘‘۔ اس کے بعد ’’مہدی‘‘ نے ایک گھنٹے طویل وعظ کیا اور آلِ سعود کے گھرانے اور ان کی مبینہ بدعنوانیوں کی مذمت کرتے ہوئے اُن کے گناہوں اور اپنی قائم کردہ سلطنت میں اسلام کے سچے راستے سے ہٹ کر اپنے الگ راستے بنانے کو اسلامی شعار کی خلاف ورزی قرار دیا۔
حضرت مہدی کی شخصیت کے بارے میں اسلام کے تمام مسلکوں اور فرقوں میں ذکر موجود ہے، لیکن یہ متنازع فیہ ہے خصوصاً اہلِ سنت والجماعت کے فرقے میں۔ اگرچہ ان کی آمد کے بارے میں قرآن میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے البتہ ایک حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے اور بعد میں پیش گوئیوں اور مسلمانوں کی علمی کتابوں کے متن میں اس بارے میں بیان موجود ہے۔ امام مہدی کے بارے میں یہ پیش گوئی موجود ہے کہ وہ دنیا کے خاتمے کے قریب ظاہر ہوں گے اور یہ زمانہ یوم حشر سے قبل کا ہوگا۔ ان کا نام محمد ہوگا اور وہ جنگ کے زمانے میں آئیں گے جب کہ ملکی شہزادوں نے اس زمین کو اپنی بدعنوانیوں اور کرتوتوں سے تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہوگا۔ ان کو اس دنیا میں حق و انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ کئی لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ غالباً امام مہدی ہونے کے ان جھوٹے دعویداروں میں سب سے معروف وہ شخص تھا جس نے 1880ء میں برطانوی اور مصری فوج کے خلاف ایک بغاوت کی قیادت کی تھی اور برطانوی اور مصری فوج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا۔ وہ شخص جنرل گورڈن تھا، جس کا تعلق سوڈان سے تھا۔
جوہیمن اطائبہ اور اس کے ساتھیوں نے مکہ معظمہ میں حرم شریف میں لوگوں کے سامنے 20 نومبر 1979ء کو جس مہدی کو پیش کیا تھا وہ محمد عبداللہ قحطانی تھا جس کا تعلق عسیر سے تھا اور وہ ملک کے جنوب مغرب کے ایک غریب خطے کا باشندہ تھا۔ اس کی چند سال پہلے جوہیمن سے ملاقات ہوئی تھی جب وہ ریاض کی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی قانون کے مضمون کا طالب علم تھا، اور جہاں جوہیمن نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے جوشیلے اور جذباتی مسلمان طلبہ کو اپنی طرف راغب کرنا شروع کردیا تھا۔ جوہیمن اور اس کے پیروکاروں نے سب سے پہلے اس پُراثر نوجوان قحطانی (Qahtani) کو قائل کیا کہ وہ ہی مہدی ہے جس کا حدیث میں وعدہ کیا گیا ہے، اور جو اسلام کی تطہیر اور مسلمانوں کا نجات دہندہ بن کر آنے والا ہے، جیسا کہ نومبر کی اس صبح جوہیمن نے خانہ کعبہ میں موجود نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کو بتایا کہ محمد عبداللہ قحطانی نے امام مہدی کی آمد کے بارے میں وہ تمام پیش گوئیاں صحیح ثابت کردی ہیں جو ان کی شخصیت کے بارے میں کی گئی تھیں جبکہ حالیہ عشرے میں جنگوں اور انقلابوں نے عالمِ اسلام کو تباہ حال کردیا ہے۔ نئے اسلامی سال کے شروع میں مسلمانوں کے لیے انتہائی ناموافق اور بدترین حالات کے وقت ایک ایسے زمانے میں امام مہدی کا ظہور ہوا ہے جب ملکی شہزادوں نے زمین کو اپنی بدعنوانیوں اور کرتوتوں سے تباہ حال کررکھا ہے اور مسلمان اپنے عقیدے اور دین سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان امام مہدی کا پہلا نام محمد ہے، اور امام مہدی کے بارے میں حدیث شریف میں جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ ان میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ یہ طویل قامت ہیں، خوبصورت گورا چہرہ ہے، ان کے گال پر ایک بڑا پیدائشی نشان ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی نسل سے ہیں۔ جوہیمن اور اس کے باغی ساتھیوں نے مسجد میں موجود لوگوں کو یقین دلایا کہ امام مہدی کے بارے میں جو پیش گوئی کی گئی تھی وہ اب پوری ہورہی ہے اور وہ بدی کی قوتوں کے خلاف عظیم طوفانی ٹکرائو میں راسخ عقیدے کے مسلمانوں کی قیادت کریں گے اور بدی کی ان قوتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیں گے، اور وہ زمین کو دوبارہ امن اور انصاف کا گہوارہ بنادیں گے، جب کہ اِس وقت زمین پر ناانصافی اور جبر و استبداد کا دور دورہ ہے۔
جب قحطانی نے اپنا خطاب مکمل کیا تو ہزاروں کے اس مجمع میں سے کئی سو افراد اُس کی تقریر سے متاثر ہوگئے اور سجدہ ریز ہوکر انہوں نے اسے مہدی تسلیم کرلیا اور جنگ میں باغیوں کا ساتھ دینے کی رضاکارانہ پیشکش کی۔ تب باغیوں نے کئی تابوتوں میں سے کفن کھول کر اپنے ان نئے پیروکاروں کو مزید بندوقیں تھمادیں۔ اس کے بعد مسلح باغیوں نے مسجد میں موجود عبادت کرنے والے اُن لوگوں میں سے بہت سوں کو تنگ کھڑکیوں کے ذریعے باہر جانے کی اجازت دے دی جنہوں نے باغیوں کا ساتھ دینے کی رضاکارانہ پیشکش نہیں کی تھی، اور باقی کو بطور یرغمال اپنے ساتھ رکھا۔
مسجد حرام کے اردگرد کے گلی کوچوں اور سڑکوں پر مسجد کے اندر کے واقعات کے بارے میں سن کر لوگوں نے وہاں سے فرار ہونا شروع کردیا۔ جب پولیس کی ایک کار مسجد کے قریب پہنچی تاکہ حالات کی تفتیش کی جاسکے تو خانہ کعبہ کی مسجد کے میناروں پر متعین مسلح باغیوں نے ان کا نشانہ لے کر انہیں گولیوں سے بھون دیا جس سے کار میں موجود بیشتر پولیس اہلکار موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ باقی ماندہ دن میں بھی دوسرے وہ سب پولیس اہلکار اور سپاہی بھی جنہوں نے مسجد حرام کے قریب پہنچنے اور وہاں داخل ہونے کی کوشش کی، ان مسلح باغیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
جیسے ہی خانہ کعبہ میں رونما اور وقوع پذیر ہونے والے ان سنگین واقعات کی خبر دارالخلافہ ریاض پہنچی تو شاہی خاندان کے ارکان کا ایک فوری ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا۔ سلطنت کا ولی عہد اور روزمرہ کے کاموں کا نگراں پرنس فہد اُس وقت ملک سے باہر تھا، وہ تیونس میں عرب رہنمائوں کی ایک کانفرنس میں شریک تھا، سعودی عرب کے نیشنل گارڈ کا سربراہ پرنس عبداللہ، اُس وقت فرانس کے جنوبی علاقے میں تعطیلات منا رہا تھا، اور ملکی سلامتی کے شعبے کا سربراہ تیونس میں پرنس فہد کے ساتھ کانفرنس میں موجود تھا۔ فوری طور پر تمام نشریاتی اداروں اور مواصلات کے تمام ذریعوں سے ہر قسم کی اطلاعات کی فراہمی روک دی گئی اور ملک سے باہر تمام اطلاعاتی رابطے منقطع کردیے گئے۔ اس سے اگلے روز ولی عہد پرنس فہد کو خانہ کعبہ کے اندر رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوا۔ اس عرصے کے دوران باغی افراد خانہ کعبہ کے لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے مکہ شہر میں اپنے مطالبات نشر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ملک کے بڑے شہروں میں پراسرار طریقوں سے ایسے اشتہاری اوراق لوگوں میں تقسیم ہونے لگے جن میں باغیوں کے الزامات اور مطالبات تحریر تھے۔ ان تحریروں میں باغیوں نے مطالبات پیش کیے تھے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز بدعنوان شہزادوں کو فوری طور پر ان کے عہدوں سے برطرف کیا جائے (ان تحریروں میں ایسے شہزادوں کے نام بھی درج تھے)، مغربی ملکوں کو سعودی عرب سے تیل فراہم نہ کیا جائے، اور اسلامی قانون کے سچے اور اصل ضابطوں پر عمل درآمد کیا جائے، اور اسلامی سلطنت سے تمام غیرملکی فوجی مشیروں کو نکال باہر کیا جائے۔
شاہ خالد نے واپس ریاض پہنچ کر دوسرے سینئر شہزادوں کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ باغیوں سے جنہوں نے خانہ کعبہ پر قبضہ کیا ہوا ہے، کوئی مذاکرات نہ کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی طے کیا کہ باغیوں پر بذریعہ قوت قابو پایا جائے گا اور خانہ کعبہ پر حکومتی اختیار دوبارہ بحال کیا جائے گا۔ اسلام کے سب سے مقدس مقام پر قبضہ کرکے، اپنے مطالبات پیش کرکے اور حکومت پر الزامات عائد کرکے باغی آلِ سعود کے اس دعوے کی اصل بنیادوں کو چیلنج کررہے تھے کہ انہیں حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ باغیوں نے آلِ سعود کو سنگین ترین دھمکی دی تھی۔ اس سے پچاس سال قبل ابن سعود کو اخوان بغاوت کا سامنا تھا جس پر انہوں نے قابو پالیا تھا۔

حکومت کو درپیش مسئلہ

مسئلہ یہ تھا کہ کیا حکمراں آلِ سعود بذریعہ طاقت، خانہ کعبہ پر فوج کشی کرکے اسے باغیوں کے قبضے سے چھڑوائیں گے؟ باغیوں نے پہلے ہی خانہ کعبہ کی حدود میں خون بہاکر سنگین ترین گناہ کا ارتکاب کیا تھا۔ چنانچہ مسئلہ یہ تھا کہ آیا آِل سعود جو اسلام کے مقدس ترین مقامات کے خادم اور متولی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، اس مقدس جگہ پر بزور طاقت ہلّہ بول کر اس کے تقدس کو پامال کریں گے اور گولیوں کی بوچھاڑ سے اس کی عمارت کو نقصان اور اندر محصور سینکڑوں عابد مسلمانوں کی ہلاکت کا خطرہ مول لیں گے؟ جبکہ خانہ کعبہ کی حدود میں کسی چڑیا کو بھی ہلاک کرنے، یا کسی پودے کو اکھاڑنے کی ممانعت ہے۔

ہنگامی فرمان اور علمائے کرام کا اجلاس طلب

شاہ خالد نے فوری طور پر ایک ہنگامی فرمان جاری کیا اور بن باز اور سلطنت کے دوسرے سرکردہ علمائے کرام کا اجلاس طلب کرلیا، تاکہ اس صورتِ حال کا تدارک کیا جاسکے۔ اگلے روز تک تمام علمائے کرام جمع ہوئے کیونکہ ان میں سے کئی ملک کے دور دراز کونوں سے بھی آئے تھے۔ ان علمائے کرام نے جمع ہونے پر باغیوں کے بارے میں تمام حقائق معلوم کیے اور ان کی کارروائیوں کا بغور جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امام مہدی کے ظہور کے بارے میں پیش گوئیوں کے مطابق وہ تمام نشانیاں موجود نہیں ہیں اور وہ شرائط پوری نہیں ہوئیں جو ان کے ظہور کے بارے میں حدیث میں بیان کی گئی تھیں۔
’’علماء کی تحقیق کے مطابق نوجوان القحطانی کو جسے باغیوں نے امام مہدی کے طور پر مان کر پیش کیا تھا، امام مہدی تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ اصل امام مہدی نہیں ہے، چنانچہ یہ شخص بھی جھوٹا اور فریبی ہے جو امام مہدی نہیں ہے، بلکہ گزشتہ کئی صدیوں سے امام مہدی ہونے کے جھوٹے دعویداروں کی طرح جنہوں نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، یہ بھی ایک اور فریبی اور جھوٹا دعویدار ہے اور امام مہدی نہیں ہوسکتا۔ ‘‘
شاہ خالد نے علمائے کرام سے کہا کہ وہ اس جھوٹے دعویدار کے خلاف فتویٰ جاری کریں اور سرکاری طور پر اعلان کریں کہ یہ شخص امام مہدی نہیں ہے، اور باغیوں کی مذمت کرتے ہوئے خانہ کعبہ کو بذریعہ طاقت دوبارہ حاصل کرنے کا حکم دیں۔ اس قسم کے فتوے کے بغیر، ملک میں بدعنوانی کے خاتمے اور اسلامی ضابطہ اخلاق کے بھرپور قوت کے ساتھ احیا کے بارے میں باغیوں کی اپیل بہت سے سعودیوں کے لیے اس لیے کشش کا باعث تھی کیونکہ بعض شہزادوں کے رویّے اور سلطنت میں بڑھتی ہوئی اخلاقی کج روی اور انحطاط اسلامی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا تھا۔

قحطانی کے خلاف علماء کا فتویٰ اور علماء کے مطالبات

بن باز نے قحطانی کے مہدی ہونے کے دعوے اور باغیوں کی خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں کارروائی اور قبضے، اور اس مقدس جگہ خون بہانے کی مذمت کی۔ تاہم بن باز اور ان کے ساتھی علماء نے بدعنوانی کے خاتمے اور اسلام کے سچے راستے پر واپسی کی باغیوں کی اپیل کو سراہا۔ یہ باغی کئی معنوں اور طریقوں سے سچے وہابی تھے اور ان کی تحریک بھی وہ تحریک تھی جس پر بن باز اور اُن کے قدامت پسند ساتھی علماء نے عمل پیرا ہونے کے لیے لوگوں کے جوش و جذبات کو ابھارا تھا۔ چنانچہ بن باز اور ان کے ساتھی علماء نے بادشاہ سے ایک سخت قسم کی سودے بازی کی۔ انہوں نے بادشاہ کی خواہش کے مطابق اس کو فتوے کے ذریعے یہ اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا کہ باغیوں کو مسجد حرام سے طاقت کے ذریعے نکال باہر کیا جائے، اور قحطانی کے سچے مہدی ہونے کے، فتوے کے ذریعے انکار اور تردید کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا۔ اس فتوے میں انہوں نے حکومت کی اسلامی شناخت اور جائز ہونے کا بھی اعلان کیا۔ لیکن اس فتوے کے بدلے میں علمائے کرام بادشاہ اور مملکت سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اسلامی شرعی تقاضوں اور اسلامی ضابطوں کے تحت زندگی بسر کریں، روشن خیالی کی نہ صرف پالیسیاں روک دی جائیں بلکہ جہاں ممکن ہو انہیں روک کر ان پر واپسی کا سفر شروع کردیا جائے۔ شہوت پرستانہ اور عیاشی کی سرگرمیوں اور شراب نوشی کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹیلی وژن پر کسی خاتون کو نہ تو پیش کیا جائے اور نہ ہی اسے اس ادارے میں ملازمت دی جائے، اور اخلاق سوز اور فحش مغربی فلموں کو چن چن کر الگ کرکے ان کی نمائش ممنوع قرار دے دی جائے، اور ملک میں اربوں ڈالر کی تیل کی آمدنی کا بیشتر حصہ اس اسلامی سلطنت میں وہابیت کو پنپنے اور دنیا میں اس کے فروغ پر خرچ کیا جائے۔ جیسا کہ ان مذاکرات میں شریک چند شہزادوں کے بیان کے مطابق علماء شاہ خالد سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ جوہیمن اور اس کے ساتھیوں سے گلو خلاصی کے بدلے علماء اپنی مدد کے عوض جوہیمن کے ایک مطالبے پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔

فوج کو درپیش مسئلہ

علمائے کرام کے فتویٰ جاری کرنے جو ریاض کے ریڈیو سے پورے ملک میں نشر کیا گیا، اور باغیوں کو سلطنت کا غدار قرار دینے، ان کے اقدامات اور کارروائیوں کو اسلامی شعائر سے انحراف قرار دینے کے باوجود ملک کی افواج کو ایک انتہائی سنگین عملی مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کس طرح خانہ کعبہ اور مسجد حرام کو باغیوں پر قابو پاکر بازیافت کرایا جائے۔ وہ یہ نہیں کرسکتے تھے کہ گولیاں برساتے ہوئے، دندناتے ہوئے اور گولہ بارود سے کعبہ اور مسجد کو تباہ کردیں اور وہاں اندر موجود سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کردیں۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ باغی بھرپور تیاری کے ساتھ آئے تھے اور آتشیں اسلحہ کے استعمال میں تربیت یافتہ اور ماہر تھے۔ درحقیقت بہت سے باغی بدو قبائل سے تعلق رکھنے والے سابق نیشنل گارڈ تھے اور جوہیمن کے اپنے قبیلے کی طرح ۱۹۲۹ء کی اخوان بغاوت میں شریک تھے، اور اب اس بغاوت میں بھی جوہیمن کے ہمراہ اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان باغیوں میں سے دو سو سے تین سو پوری مسجد میں اہم اور صحیح جگہوں پر متعین تھے۔ ان کے ساتھ مسجد میں عبادت کے لیے موجود کئی سو افراد بھی رضاکارانہ طور پر شریک ہوگئے تھے، اور اس طرح باغیوں کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار کے قریب ہوگئی تھی۔ سرکاری فوج کو مسجد حرام کو دوبارہ سرکاری تحویل میں لینے کے لیے غیرروایتی طریقے اختیار کرنے کی ضرورت تھی، اور ان پر یہ بات اُس وقت واضح ہوگئی تھی جب باغیوں نے اُن کا پہلا حملہ آسانی سے پسپا کردیا تھا۔

باغیوں کا مؤقف، عقیدہ اور مایوسی

اگرچہ باغی اہلِ تشیع کے عقیدے اور آیت اللہ خمینی کی تعلیمات کے سخت مخالف تھے، تاہم ان کا مؤقف یہ تھا کہ اگر خمینی اور ایرانی طلبہ شاہ ایران جیسی طاقتور حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں تو وہ بھی سعودی عرب میں اس قسم کا ایک اسلامی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ دن رات گزرتے رہے اور باغی شاہ خالد کی فوج کے غیرمؤثر حملے پسپا کرتے رہے، لیکن باغیوں کو اُس وقت بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ملک کے بعض حصوں میں حکومت کے خلاف چھوٹے چھوٹے مخالفانہ مظاہروں اور تیل پیدا کرنے والے مشرقی صوبے میں شیعوں کی سنگین بغاوت اور سرکشی کی وارداتوں کے باوجود ایران کی طرح وسیع پیمانے پر ملک کے طول و عرض میں بڑی بغاوت رونما نہیں ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب ایران کی طرح نہیں ہے۔ سعودی حکمراں اپنی تمام خامیوں اور خطائوں کے باوجود اپنے عوام میں اتنے غیرمقبول نہیں تھے جتنا کہ ایران کا بادشاہ تھا۔

باغیوں کا قبضہ ختم کرانے میں حکومت کی ناکامی

خانہ کعبہ اور مسجد حرام سے باغیوں کا صفایا کرنے اور وہاں سے اُن کا قبضہ ختم کرانے میں کئی دنوں کی ناکام کوششوں کے بعد سعودی حکام کو اس بات کا ادراک ہوا کہ ان کے پاس وہ جدید ترین مہارت اور خصوصی آلات نہیں ہیں جن کی مدد سے وہ ان باغیوں کا قلع قمع کرکے انہیں مسلمانوں کی اس مقدس ترین جگہ سے بے دخل کرسکیں۔ تاہم ایک اور مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ وہ غیرملکی غیر مسلم ماہرین کو بھی طلب نہیں کرسکتے تھے کہ وہ ان کے لیے یہ کام سرانجام دے سکیں۔ ایسا اقدام کرنے سے سعودی حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا کہ وہ اسلام کی اس مقدس ترین جگہ کو چند سو جنونی مسلمانوں سے خالی نہ کرا سکی۔ دوسرے یہ کہ مکہ کے متبرک شہر میں غیرمسلموں کو آنے کی ممانعت تھی، اور غیرمسلم کا خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں داخلہ مکمل طور پر حرام ہے، اور سخت اسلامی قوانین کے مطابق کسی بھی طور اس کی اجازت نہیں ہے۔

فرانسیسی حکومت کے اعلیٰ ترین حکام سے رابطہ

چنانچہ ایک اعلیٰ ترین خفیہ واسطے کے ذریعے ایک رابطہ فرانسیسی حکومت کے اعلیٰ ترین حکام اور ایک سرکردہ سعودی شہزادے کے مابین قائم ہوا۔ ان کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں خصوصی طور پر فرانس کے تین کمانڈو ماہرین کو، جن کو اس قسم کے دہشت گرد حملوں اور یرغمالی بحران سے نمٹنے کا خاصا تجربہ تھا، انتہائی خفیہ طور پر بذریعہ ہوائی جہاز سعودی عرب پہنچایا گیا۔ ان کے ہمراہ انتہائی حساس جدید ترین آلات، اسلحہ اور بارودی ہتھیار تھے۔ ان کے سپرد سعودی فوج کے انتہائی باصلاحیت، نڈر اور بہترین ڈیڑھ سو جنگجو فوجیوں کی تربیت اور باغیوں کے خلاف کارروائی کی نگرانی کا کام کیا گیا۔ باغیوں کے خانہ کعبہ اور مسجد حرام پر قبضے کے دو ہفتے بعد ان کے خلاف فرانسیسی ماہرین کی زیرنگرانی مسجد کے نیچے تہ خانوں میں لڑائی شروع کی گئی۔ تقریباً چوبیس گھنٹے کی اس لڑائی کے بعد جس میں بڑی مقدار میں گیس اور کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ فائرنگ کی مدد سے بیشتر باغیوں کو یا تو ہلاک کردیا گیا یا زخمی یا بے ہوشی کے عالم میں گرفتار کرلیا گیا۔ قحطانی حملے کے شروع ہی میں ہلاک ہوگیا، جبکہ جوہیمن کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔ جوہیمن کو گرفتار کرنے والے سعودی فوجی افسروں نے جب اُس سے پوچھا کہ اُس نے اسلام کے اِس مقدس ترین مقام کی بے حرمتی کی جرأت کیسے کی؟ تو اس نے جواب دیا ’’یہ اللہ کی مرضی تھی‘‘۔

بھاری جانی نقصان

اس کارروائی کے دوران سعودی فوجی افسر، ۱۱۳ فوجی اہلکار ہلاک اور ساڑھے چار سو شدید زخمی ہوئے۔ 117 باغی مارے گئے جبکہ وہاں عبادت کرنے والے دوسرے افراد میں سے 26 ہلاک اور 110 زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر غیر ملکی تھے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی۔ 9 جنوری 1980ء کو جوہیمن کو مکہ میں پھانسی دے دی گئی، اس کے دیگر ساتھی سازشیوں کو، جنہیں گرفتار کیا گیا، سعودی عرب کے دیگر آٹھ اہم شہروں میں اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔ سعودی حکام اس بات کا تہیہ کیے ہوئے تھے کہ پوری سلطنت میں کسی کے ذہن میں اس بارے میں کوئی شک نہ رہے کہ ملک پر کس کی حکمرانی ہے۔

روس کے اندیشے اور افغانستان پر قبضہ

اگرچہ شاہ خالد نے اس اندرونی بغاوت کا قلع قمع کردیا تھا، لیکن بیرون ملک واقعات اور حالات کی وجہ سے شاہ خالد اور اس کی حکومت کے مسائل میں اضافہ ہوگیا۔ دسمبر 1979ء کے آخر میں روس ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات سے چوکنا ہوگیا، اس کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اسلامی حزبِ اختلاف کی تحریکیں جن کو ایرانیوں کی حمایت سے جِلا ملی ہے، روس کی جنوبی جمہوریتوں میں (جو بیشتر مسلمان ہیں) آزادی کی تحریکیں نہ شروع کردیں، چنانچہ اس نے افغانستان پر حملہ کردیا اور وہاں روس کی حامی حکومت قائم کردی۔