محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم

کچھ عرصہ پہلے میں اُردو بازار لاہور گیا، وہاں کتاب سرائے میں جناب محمد جمال الدین افغانی کی زیارت ہوئی۔ دوسری منزل پر ان کی دوسری دکان ہے۔ وہاں ان کے بھائی کبیر صاحب بیٹھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے تحفتاً مجلہ ’’نقاط‘‘ فیصل آباد کا کتاب نمبر دیا جو میں تمام پڑھ گیا۔ دورانِ مطالعہ درج ذیل تحریر نظر نواز ہوئی:’’ایمن طاہر،عمر:22 سال، سرگودھا
محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم)٭مصنف: محمد عنایت اللہ سبحانی
یہ کتاب میں نے دسویں جماعت میں پڑھی تھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی حیاتِ طیبہ پر لکھی گئی ہے۔ جب میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ میں بھی اس خوب صورت دور میں موجود ہوں۔ اور سب کچھ میری نظروں کے سامنے ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ جب اس کتاب کا اختتام ہوا جہاں آپؐکے وصال کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے تو خودبخود آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایسا لگا کہ آپؐ حقیقتاً ہم سے جدا ہوگئے ہوں۔میں نے اس کتاب کے الفاظ کو آسان پایا اور نہ ہی یہ بہت طویل کتاب تھی۔ بلکہ اس میں بہت مختلف اہم واقعات کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں آپؐکی حیاتِ مبارکہ کو پڑھ کر جو میں نے سبق سیکھے وہ یہ ہیں:۔
…اخلاق اور حسنِ اخلاق کا کامل ترین نمونہ ہے آپؐ کی ذات۔
… زندگی عزم و حوصلے اور صبر و استقلال سے گزاری جائے۔
…اللہ تعالیٰ کی عبدیت اور بندگی ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
غرض بہت کچھ سیکھنے کو ملا جس میں سے میں نے چند ایک کا ہی ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب بہترین کتاب ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وہ جانِ حیات کون و مکاں روحِ نجات انسانی
وہ جس کی بلندی کے آگے افلاک ہوئے پانی پانی
وہ فقر کا پیکر جس کے قدم چھوتا ہے شکوہِ سلطانی
ان سے ہی مجھے نسبت ہے مگر کب ان کی حقیقت پہچانی
احساسِ خطا کی پلکوں سے آنسو بن کر گر جاتا ہوں
کہنے کو مسلمان میں بھی ہوں، لیکن کہنے سے شرماتا ہوں‘‘

خیال ہوا اس کتاب کا تعارف قارئین سے کرانا چاہیے۔ اسلامک پبلی کیشنز سے جناب طارق محمود نے ذرہ نوازی کی، اور کتاب عنایت کی۔ دیکھ کر حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ اس کا 65 واں ایڈیشن ہے جو آٹھ ہزار کی تعداد میں طبع کیا گیا ہے۔ یہ اس گراں قدر کتاب کی مقبولیت کی نشانی ہے۔ اسلامک پبلی کیشنز نے ان کی دوسری کتاب ’’جلوۂ فاران‘‘ بھی شائع کی ہے۔ اس کا بھی سولہواں ایڈیشن ہے۔
جناب محمد عنایت اللہ سبحانی تحریر فرماتے ہیں:
’’اُردو زبان میں سیرتِ نبویؐ پر اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔ اس میں ایسی قابلِ ذکر کتابیں بھی موجود ہیں جو دنیا کی کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتیں۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ راہ نکالی کہ میں اس زبان میں اس موضوع کی کچھ خدمت کرسکوں۔ مجھے امید ہے کہ کتاب پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور اس کا مطالعہ اُن لوگوں کے لیے بھی فائدے سے خالی نہ رہے گا جنھوں نے اس موضوع پر دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔
یہ کتاب دراصل ایک عربی کتاب کا نقشِ ثانی ہے۔ عرصہ ہوا مصر میں محکمہ تعلیم و تربیت کے نگرانِ عام الاستاذ محمد احمد برانق کی نگرانی و سرپرستی میں سیرتِ نبویؐ پر ایک مجموعہ شائع ہوا تھا جو 14 حصوں پر مشتمل تھا۔ یہ مجموعہ محترم عبدالحئی مدیر ’’الحسنات‘‘ کو مکہ معظمہ کے کسی مکتبے پر نظر آیا۔ موصوف کو جو کہ خود ’’حیاتِ طیبہ‘‘ جیسی مقبولِ عام کتاب کے مصنف ہیں، یہ کتاب بہت پسند آئی۔ آپ اسے اپنے ہمراہ لیتے آئے۔ آپ کا خیال تھا کہ اسی انداز کی کتاب اردو زبان میں بھی آجائے تو بہت مفید رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت میرے نصیب میں لکھ رکھی تھی۔ چنانچہ موصوف کی یہ پاکیزہ خواہش اللہ تعالیٰ اپنے اس ناتواں بندے کے ہاتھوں پوری کرا رہا ہے۔
اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔(اٰلِ عمران3: 73۔74)
’’فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے، وہ وسیع النظر ہے اور سب جانتا ہے، اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کرلیتا ہے، اور اس کا فضل بہت بڑا ہے۔‘‘
میں نے اس کتاب کی شروع سے آخر تک پیروی کی ہے، اور اسی کی ترتیب کو قائم رکھا ہے۔ اس کے پیرایۂ بیان اور اسلوبِ نگارش کو بھی برقرار رکھنے کی اپنی حد تک پوری کوشش کی ہے۔ پھر بھی میں اس کا بالکل پابند ہوکر نہیں رہا ہوں۔ اس لیے اس کا ترجمہ یا ترجمانی بھی نہیں کہہ سکتا۔ اپنی محدود عقل و فہم کے مطابق میں نے جہاں جہاں ضرورت محسوس کی ہے، اصلاح و ترمیم اور حذف و اضافے سے بھی کام لیا ہے۔ جو واقعات غیر اہم معلوم ہوئے یا جو اہلِ نظر کے نزدیک غیر مستند سمجھے گئے ہیں، میں نے انھیں حذف کردیا۔ بعض باتیں نظرانداز ہوگئی تھیں لیکن مجھے قابلِ ذکر محسوس ہوئیں تو میں نے انھیں شامل کردیا۔ موقع موقع سے سبق آموز پہلوئوں کو ابھارنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اصل کتاب میں واقعات کی تاریخوں کا اہتمام نہ تھا، میں نے اس کا بھی اہتمام کیا ہے۔ کہیں اجمال کے بجائے تفصیل اور تفصیل کے بجائے اختصار سے کام لیا ہے۔ امید ہے کہ اس تصرف کے بعد کتاب کی افادیت کچھ اور بڑھ گئی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس ناچیز کوشش کو قبول فرمائے، لوگوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے، اور اس گنہگار کے حق میں رحمت و مغفرت کا بہانہ بنے۔
اس کتاب سے دوسروں کو فائدہ پہنچنے کی جو امید ہے وہ اپنی جگہ پر، اللہ تعالیٰ اسے پورا فرمائے، لیکن خود میری ذات کو اس کتاب کی تیاری کے زمانے میں جو فائدے حاصل ہوئے وہ میری کوششوں کا نقد صلہ ہے جو بجائے خود کچھ کم نہیں۔
صلوٰۃ و سلام ہو اُس ذات پر، جس کے ذریعے میری زندگی کو روشنی ملی۔ جس کی زندگی کو پڑھ کر فکر و نظر کو گہرائی ملی۔ خیالات کو بلندی ملی۔ جذبات کو ستھرائی اور پاکیزگی ملی۔ فضائلِ اخلاق اور حسن و اعمال کا کامل ترین اسوہ ملا۔ عزم و حوصلہ اور صبر و استقلال کا بلند ترین نمونہ ملا۔ سیادت و قیادت اور پیشوائی و فرماں روائی کی کامیاب ترین مثال ملی۔ اور عبدیت و بندگی کی حسین ترین تصویر ملی۔ صلوٰۃ و سلام ہو اُس پر جس کا اتباع میری زندگی کا سرمایہ اور جس کی شفاعت میری آخرت کا سہارا ہے۔ جس کے فیض سے میرے قلم کو گویائی ملی، جس کی زندگی اور پیغام سے لوگوں کو باخبر کرنا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت اور میری سب سے بڑی سعادت ہے۔
صلوات اللہ علیہ وسلامہ ورحمۃ وبرکاتہ!‘‘
جناب امانت اللہ اصلاحی نے کتاب پر مقدمہ لکھا ہے جو اس قابل ہے کہ اس کو بھی حرزِ جاں بنا لیا جائے:’’آپؐ کو پہلے پہل جو دیکھتا اس پر آپؐ کی ہیبت طاری ہوجاتی۔ آپؐ کے قریب جو رہتا، اسے آپؐ سے محبت ہوجاتی۔ آپؐ کے اوصاف بیان کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے آپؐ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ نہ آپؐ کے بعد نہ آپؐ سے پہلے… صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت علیؓ کا تبصرہ ہے۔ یہی تاثر ایک دوسرے انداز میں عروہ بن مسعود نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بیان کیا تھا۔ کفارِ مکہ نے پہلے بدیل کو، پھر مکرز کو، پھر حلیس کو آپؐ کے پاس نمائندہ بناکر بھیجا، لیکن انھیں کسی کی نمائندگی پسند نہیں آئی۔ آخر میں انھوں نے عروہ بن مسعود کو بھیجا۔ انھوں نے واپس آکر کہا:
’’اے قریب کے لوگو! میں کسریٰ کے پاس اُس کے دربارِ شاہی میں جا چکا ہوں۔ قیصر کے پاس اس کے دربارِ شاہی میں جا چکا ہوں، اور نجاشی کے پاس اس کے دربارِ شاہی میں جا چکا ہوں۔ اللہ کی قسم میں نے کسی بھی بادشاہ کی اپنی قوم میں وہ شان نہیں دیکھی جو شان محمدؐ کی اس کے ساتھیوں کے درمیان دیکھی۔ سچ کہتا ہوں، میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو کسی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔ اب تم سوچ لو۔‘‘
یہ دو شہادتیں ہیں۔ پہلی شہادت ایک بالغ نظر اور جاں نثار ساتھی کی ہے جو قبلِ نبوت سے لے کر آخر دم تک سفر و حضر اور خلوت و جلوت میں ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہا، جس کا آپؐ سے قریب ترین رشتہ تھا، جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا تھا:اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔‘‘
دوسری شہادت ایک مردم شناس اور جہاں دیدہ دشمن کی ہے جسے اپنی قوم میں معزز ترین مقام حاصل تھا۔ قوم کے لوگ اسے پہلوٹھی کی اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اس لیے بجا طور پر عظمت اور محبت کی حقیقت سے بخوبی آشنا تھا۔ دوست اور دشمن دونوں اس بات پر شاہد ہیں کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بارعب، دلآویز اور بے مثال شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ آپؐ جیسا شخص کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ آپؐ کو دیکھ کر آدمی پررعب طاری ہوجاتا تھا۔ فرشِ خاک پر بے سروسامان ساتھیوں کے درمیان بھی آپؐ کی ہیبت وعظمت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے سامنے قیصر و کسریٰ اور نجاشی تمام جاہ وجلال اور تزک و احتشام کے ساتھ اپنے تخت و تاج میں ہیچ نظر آتے تھے۔ ساتھ ہی آپؐ کے اندر بلا کی کشش تھی، جو شخص قریب سے دیکھتا آپؐ کا گرویدہ ہوجاتا۔ آپؐ کے ساتھی دل و جان سے آپؐ پر فدا رہتے۔
یہ محض دو آدمیوں کا احساس نہیں ہے۔ تاریخ کی بے شمار مثالیں گواہ ہیں کہ یہ ایک عام احساس تھا۔ پھر یہ احساس آپؐ کی زندگی ہی تک محدود نہیں رہا۔ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج آپ کی سیرت پڑھنے سے یہی احساس ہوتا ہے۔ کوئی بھی انصاف پسند، دوست ہو، یا دشمن، اس سے انکار نہیں کرسکتا۔
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کا نام اسلام ہے جس پر انسان کی فلاح و نجات کا دارومدار ہے۔ حقیقی اطاعت کی بنیاد اور روح یہی محبت اور تعظیم ہے۔ یہ دونوں جذبات کسی کے بارے میں جتنے زیادہ ہوتے ہیں، اس کی اطاعت اتنی ہی کامل اور پائیدار ہوتی ہے، آسانی سے بے چوں و چرا ہوتی ہے، ذوق وشوق سے ہوتی ہے، جوش اور ولولے سے ہوتی ہے، اور شرف و عزت سمجھ کر ہوتی ہے۔ پھر آدمی اطاعت ہی پر قناعت نہیں کرتا، ایک قدم آگے بڑھ کر اتباع کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے پیشوا کی ایک ایک بات اور ایک ایک ادا کو محبت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو اسی رنگ میں رنگنے کی فکر کرتا ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپؐ کی عظمت و برتری کے احساس کی اس کیفیت کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کا واحد ذریعہ آپؐ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ ہے۔ یوں کہیے کہ آپؐ کے بارے میں ہم سے جس اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے، ایک سلیم الفطرت انسان کے اندر اس اطاعت کا جذبہ آپؐ کی سیرت کے مطالعے سے خودبخود پیدا ہوتا ہے، پیدا کرنا نہیں پڑتا۔ یہ مطالعہ غور سے ہونا چاہیے، اور بار بار ہونا چاہیے، کیونکہ عظمت و برتری کا احساس تو ایک بار کے مطالعے سے بھی کسی حد تک ہوسکتا ہے، لیکن محبت پیدا کرنے کے لیے بار بار مطالعہ کرنا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت علیؓ کے مذکورہ الفاظ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ آپؐ کے وصال کے بعد آپؐ سے قریب رہنے اور ملتے جلتے رہنے کی شکل یہی ہوسکتی ہے۔
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ آدمی کی سیرت و کردار میں اپنی صلاحیت اور کوشش کے مطابق رسولؐ کی جھلک نظر آئے۔ اب اگر کسی کو حوصلہ ہے ایسی شخصیت کی تعمیر کا جس میں کشش اور دلآویزی ہو، عظمت اور بزرگی ہو، رعب اور دبدبہ ہو، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بنیاد بنائے، اور اس کا مطالعہ کرتا رہے۔ آپؐ کی سیرت کا مطالعہ تمام سیرتوں سے بے نیاز کرسکتا ہے، لیکن تمام ہستیوں کی سیرت کا مطالعہ آپؐ کی سیرت سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔
یہ شاعری ہے یا حقیقت؟ اس کا صحیح فیصلہ آپؐ کی سیرت کے وسیع اور گہرے مطالعے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ فداہ ابی و امی۔ ’’ان پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔‘‘
اس گراں قدر کتابِ سیرت کا ترجمہ انگریزی، ہندی، گجراتی اور دوسری زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب دل و دماغ کو فتح کرنے والی ہے۔ ہر مسلمان کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، خصوصاً تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے اصحاب تو اس کا ضرور مطالعہ کریں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ رنگین سرورق سے مزین ہے۔ ان شاء اللہ تمام لوگوں کا صدقۂ جاریہ ہوگی جنھوں نے اس کے ابلاغ کے لیے کچھ بھی حصہ لیا ہے۔