اجتماعی دانش مرچکی ہے ؟۔

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

کہتے ہیں کسی ملک کا بادشاہ مر گیا۔ شہر شہر، بستی بستی سوگ کی کیفیت تھی۔ لوگوں کے چہروں پر مُردنی چھائی ہوئی تھی۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے افسوس کرنے میں مصروف تھا۔ ہر گھر میں بادشاہ کے کارنامے بیان کیے جارہے تھے۔ بادشاہ نیک بھی تھا، اور ایک بھی۔ اس لیے اُس کی صلۂ رحمی، دریا دلی، عدل گستری، زندہ دلی، نیک نامی اور رعایا نوازی کے قصے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے متبادل کے لیے بھی چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ افراتفری اور دل گیری کے اسی ماحول میں کسی نے گائوں کی ایک ایسی خاتون سے بھی رائے دریافت کی، جس کا تازہ تازہ پالتو ککڑ (مرغا) مرا تھا اور وہی اُس کی کُل جائداد تھا۔ رشتے دار تو دور کی بات ہے، کسی واقف کار، پڑوسی یا محلے دار کو بھی اُس کے ساتھ افسوس یا اظہارِ ہمدردی کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ اُس نے بھی نہایت دل جلے انداز میں رائے دی ’’ایتھے کلغیاں آلے نئیں رہے، توانوں بادشاہ دی پئی اے‘‘ (یہاں کلغی والے (یعنی نسلی مرغ) نہیں رہے، تمھیں بادشاہ کی پڑی ہے!)
سن رہے ہیں، اب تو دیکھ بھی رہے ہیں، بلکہ اچھا خاصا بھگت رہے ہیں کہ چند دن قبل کسی ٹی وی چینل پہ نشر ہونے والے کسی ڈرامے کے کسی کردار کی کسی صورتِ حال میں موت واقع ہوگئی ہے، جس کے بارے میں دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ یہ موت فرضی، غرضی اور سراسر عارضی ہے۔ لیکن جناب پورے ملک کے طول و عرض میں پِٹ سیاپا پڑا ہوا ہے۔ اخبارات اس کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں، ٹی وی اسکرینوں سے آنسو نکل نکل کے باہر آرہے ہیں، سیاسی ایوانوں میں باتیں ہورہی ہیں، عوامی حلقوں میں ہلچل ہے، بازاروں دکانوں میں ماتم کی کیفیت ہے، سوشل میڈیا پہ ہاہا کار مچی ہے۔ افسردہ پوسٹیں لگ رہی ہیں، رونے دھونے کی وڈیوز اَپ لوڈ ہورہی ہیں، اس رُلا دینے والے واقعے کے حوالے سے لوگوں سے کیے گئے سروے نشر ہورہے ہیں۔ رہ رہ کے انور مسعود یاد آ رہے ہیں: ۔

اُجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام
اُس قریۂ شکستہ و شہرِ خراب سے
عبرت کی اِک چھٹانک برآمد نہ ہوسکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے

ہمارے ایک قریبی دوست نے تو یہاں تک بتایا کہ وہ اپنے سگے بھائی کے گھر بہت عرصے بعد اچانک ملنے چلے گئے تو اس دورانیے میں بدقسمتی یا اتفاق سے مذکورہ ڈرامے کی یہی قسط چل رہی تھی۔ پورے گھر میں قبرستان کی سی خاموشی تھی، البتہ ٹی وی لائونج سے مکالموں کی ہلکی پھلکی آوازوں کے ساتھ کہیں کوئی سسکی سنائی دے جاتی تھی۔ صاحبِ خانہ نے جو ہمارے دوست کے چھوٹے بھائی تھے، اور مذکورہ گھر میں شوہرِ نامدار کے درجے پر فائز تھے، دروازہ کھولتے ہی ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر اشاروں ہی اشاروں میں دعا سلام کی اور پھر نہایت خاموشی سے لے جاکر ساتھ والے کمرے میں بٹھا دیا، اور پھر انھیں مخمصے میں چھوڑ کر نہایت پُراسرار انداز میں، تھوڑی دیر انتظار کرنے کا کہہ کر بدحواسی اور نڈھال طبیعت کے ساتھ اسی جانب سدھار گئے، جہاں سے سرگوشیوں کا ماخذ ہاتھ آسکتا تھا۔ دوست فرماتے ہیں کہ مجھ پہ گزرنے والی یہ تنہائی، ابھی اوہام و خدشات کے پر لگا کر کسی قیامت خیز منظر کی جانب پرواز کرنے والی تھی کہ چھوٹے اور کسی الجھن میں بری طرح گرفتار بھائی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس سے پہلے کہ مَیں اس ساری سوگواریت کی بابت کچھ دریافت کرتا، وہ خود ہی رنجیدہ کیفیت، سنجیدہ لہجے، گلوگیر آواز، بھیگی آنکھوں اور بجھے ہوئے دل کے ساتھ گویا ہوئے: ’’ دانش مر گیا… بھائی جان دانش مر گیا…آپ کی بھابھی کی طبیعت بہت خراب ہے بھائی جان… دانش مر گیا… ہم نے تو یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا بھائی جان… دانش مر گیا…!!‘‘ فلموں، ڈراموں کی دنیا سے انجان دوست نے مزید بتایا کہ یہ سنتے ہی میرا دھیان سب سے پہلے بھائی کے سسرال کی جانب گیا، لیکن مَیں ان کے خاندان میں فوری طور پر کسی دانش کو تلاشنے میں ناکام رہا۔ پھر دماغ کو نہایت سرعت سے اپنے پورے خاندان کی طر ف پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے دوڑایا لیکن ڈور کا سِرا کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ مختصر یہ کہ میرا ذاتی اور مقامی قسم کا گوگل سسٹم جب سیاسی، ادبی، تعلیمی، فلمی اور بین الاقوامی دنیا میں کسی قریب المرگ دانش کا سراغ لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہا، تو کم علمی پہ شرمندہ شرمندہ نہایت رقت انگیز انداز میں بھائی کو سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا: ’’کون سا دانش پیارے بھائی؟ کیا ہوا اُسے؟‘‘
’’بھائی جان! آپ دانش کو نہیں جانتے؟‘‘
’’بھیا میرے کچھ بتائو تو پتا چلے؟ تمھارے دوست تھے یا کلاس فیلو؟ کولیگ تھے یا پڑوسی؟ کوئی حادثہ ہوا ہے؟ خودکُشی کی ہے؟ یا کسی کے ساتھ دشمنی تھی خدانخواستہ؟ کس ہسپتال میں جان دی؟ کیا عمر تھی مرحوم کی؟ پسماندگان میں کون کون ہے؟ شادی شدہ تھے یا بالکل جوان موت ہے؟ جنازہ کتنے بجے ہے؟ کوئی پرچہ ورچہ درج ہوا کہ نہیں؟‘‘
’’بھائی جان آپ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ رہے ناں دیہاتی کے دیہاتی!!‘‘
’’میرے بھائی کچھ بتائو تو پتا چلے، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا!!‘‘
’’بھائی جان آپ کتنے بے خبر ہیں! آپ ٹی وی بالکل نہیں دیکھتے؟‘‘
’’مَیں نے یہاں آنے سے تھوڑی دیر پہلے والا بولیٹن سنا تھا، کسی قسم کی بریکنگ نیوز نہیں تھی۔‘‘
’’بھائی جان! پتا نہیںآپ کیا باتیں کررہے ہیں! مَیں تو ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے ہیرو دانش کی بات کررہا ہوں، اتنا مشہور ڈراما ہے، آپ کو اس کا بھی پتا نہیں؟ ہمارا تو پورے گھر کا رو رو کے برا حال ہے۔ آپ ذرا بیٹھیں، مَیں آپ کی بھابھی کے منہ پہ چھینٹے مار کے آتا ہوں۔‘‘
دوست بتاتے ہیں کہ بھائی کے پیٹھ موڑتے ہی مَیں چپکے سے دروازہ کھول کے باہر نکل آیا، گلیوں بازاروں میں بھی کچھ اسی قسم کی سرگوشیاں سنائی دیتی رہیں۔ گھر پہنچ کے فون پہ وائی فائی آن کیا تو سوشل میڈیا بھی ہچکیاں لے رہا تھا۔ مَیں سوچ میں پڑ گیاکہ یہ قوم، جس کا مستقبل گروی رکھا جا چکا ہے، جس کے بچوں کا مستقبل سیاست دان کھا گئے ہیں، جو جہالت سے مالا مال ہے، جو بدقسمتی سے دنیا میں ہونے والی ترقی کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہوسکی، جو بے روزگاری، ماحولیاتی آلودگی، تعلیم، صحت، صاف پانی، ضروری اناج، جہیز، غربت، ٹریفک، توہم پرستی جیسے ذاتی، اور کشمیر، برما، شام، ایران، فلسطین اور نریندر مودی جیسے بین الاقوامی اور لاینحل مسائل میں مبتلا ہے، وہ ڈرامے کے کسی کردار کی فرضی سی موت پر اس قدر رنجیدہ ہے، تو سوچنا پڑے گا کہ ہمارے ہاں واقعی دانش مر چکا ہے یا اجتماعی دانش مر چکی ہے؟
(ڈاکٹر اشفاق احمد ورک۔ روزنامہ 92…28جنوری2020ء)