ابوسعدی
کائونٹ آئوگسٹ فان پلاٹن (1797ء۔ 1839ء) اور ایک دوسرے حوالے سے (1796ء۔ 1853ء) کا اصل نام Karl August Georg Maimilian, Graf, Von-Platen-Hall-ermiinde ہے۔ پلاٹن ایک سادہ ماحول میں پیدا ہوا۔ اس کا والد جنگلات میں ایک درجے کا افسر تھا، مگر 1806ء میں اسے میونخ کے ایک کیڈٹ اسکول میں پڑھنے کے مواقع ملے۔ 1810ء میں اسے پیجز اسکول (Pages School) میں شرفا کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ 1813ء میں اس نے فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو 1814ء میں اسے کمیشن مل گیا۔ اس کی رجمنٹ اگرچہ فرانس میں خدمات انجام دے رہی تھی، مگر اسے میونخ ہی میں ٹھیرنے کے مواقع مل گئے۔ وہ اپنے مزاج کے باعث فوج میں کامیاب نہ رہ سکا اور بالآخر 1818ء میں طویل غیر حاضری کی اجازت حاصل کرلی۔ ان تمام برسوں میں وہ مشرقی تحریک کا اہم سرگرم قاری اور ادیب رہا۔ 1821ء میں اس کی غزلیات کا پہلا مجموعہ Ghaselen کے نام سے ارلانگن (Erlangen) سے شائع ہوا۔ پھر یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ اس کا دوسرا مجموعہ Lyrische Blaetter میں شائع ہوا، جب کہ تیسرا Spiegel des Hafis Vermischie Schriften میں شائع ہوا۔ فوجی حکم عدولی کے باعث وہ قید بھی رہا، پھر کسی طرح سے اٹلی چلا گیا، جہاں اس نے زندگی کے باقی ایام جلاوطنی میں گزارے۔ پلاٹن کا مشرقی تحریک کی اٹھان میں بہت بنیادی کردار ہے۔ وہ ادب میں فن برائے فن کا قائل تھا اور جرمن میں بہترین غزل گو کا درجہ رکھتا ہے۔ اس نے گوئٹے کا دیوان پڑھ کر فارسی سیکھنے کی کوشش کی۔ اس کی ریوکرٹ (Ruckert) سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ پلاٹن کی شاعری میں حافظ کا رنگ بہت گہرا ہے۔ حافظ کے علاوہ اس نے نظامی گنجوی کے ”سکندر نامہ“ کے کچھ حصوں کا بھی جرمن میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے علاوہ اس کی دوسری مشرقی نظموں میں Parsenlied (پارسی گیت) کا مجموعہ بہت مشہور ہے، جس پر گوئٹے کا اثر بہت نمایاں ہے۔ پلاٹن کی ایک طویل نظم Harmosan (ہرمزان) میں ایک ایرانی شجاع اور نبرد آزما کو ہیرو کے بطور پیش کیا گیا ہے۔ یوں مشرقی تحریک کی نشوونما اور ارتقا میں پلاٹن کا کردار بہت نمایاں ہے۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)
رابعہ بصریؒ
٭اگر تم دنیا سے فارغ ہو تو دنیا کی برائی بھلائی کی تمہیں پروا نہیں ہوسکتی۔
٭مجھے اجر و ثواب کی امید اُس وقت ہوتی ہے جب اپنے اعمال و عبادت کو ہلکا سمجھتی ہوں، اور اُس وقت جبکہ میرا اعتماد محض خدائے رحمٰن کے فضل و کرم پر ہوتا ہے۔
٭اے نفس تُو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہے اور اس کی نافرمانی بھی کرتا ہے۔ اگر تُو محبت میں صادق ہے تو اپنے رب کی اطاعت بھی کر۔ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت ضرور کرتا ہے۔
(اقوال زریں کا انسائیکلو پیڈیا، نذیر انبالوی)
لالچ بری بلا
ایران میں ایک شخص اشعت نامی لالچ اور حماقت میں مشہور تھا۔ ایک روز وہ ہوا میں دامن پھیلائے منہ کھولے اور سر آسمان کی طرف اٹھائے جارہا تھا، کسی نے اس حرکت کا سبب پوچھا تو کہنے لگا: ’’ممکن ہے کہ کوئی اڑتا ہوا پرندہ انڈہ چھوڑے تو وہ نیچے نہ گر جائے‘‘۔ وہ اپنی دھن میں جاہی رہا تھا کہ ایک چیل کی بیِٹھ سیدھی اس کے منہ میں جاگری۔
(ماہنامہ ”چشم بیدار“، دسمبر 2019ء)