زندگی کا سب سے اہم سبق

پروفیسر اطہر صدیقی
ایک نوجوان نے زندگی کا سب سے اہم سبق اپنے پڑوسی سے سیکھا تھا۔ جیک نے پچھلی مرتبہ اس شخص کو کب دیکھا تھا اس بات کو عرصہ گزر گیا تھا۔ کالج، لڑکیاں، نوکری اور خود زندگی اور اس کی مشغولیتیں بیچ میں آگئی تھیں۔ درحقیقت جیک اپنے شہر سے بہت دور اپنے خوابوں کی تلاش میں ملک کے دوسری طرف نکل گیا تھا۔ وہاں وقت کی کمی اور مشغول زندگی کی مصروفیت نے وقت ہی نہیں چھوڑا تھا کہ وہ ماضی کے بارے میں کچھ سوچ سکتا، اور اکثر تو اُس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا تھا کہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ کچھ دیر گزار لے۔ وہ اپنے مستقبل کے لیے کام کررہا تھا اور کچھ بھی اس کو روک نہیں سکتا تھا۔
ایک دن فون پر اس کی ماں نے اسے اطلاع دی:
’’کل رات مسٹر ہیسلر کا انتقال ہوگیا۔ تدفین بدھ کے دن ہوگی‘‘۔
گزشتہ یادیں اس کے ذہن میں خبروں کی ریل کی طرح گزر گئیں اور وہ بیٹھ کر بچپن کی بہت سی پرانی باتوں کو یاد کرنے لگا۔
’’جیک… تم نے سنا میں نے کیا کہا؟‘‘ اس کی ماں نے پوچھا۔
’’اوہ… مجھے افسوس ہے ماں، ہاں میں نے تمہیں سن لیا۔ کتنا وقت گزر گیا ان کے بارے میں سوچے ہوئے۔ مجھے افسوس ہے، میں تو یہ سمجھا تھا کہ وہ عرصہ ہوا فوت ہوچکے ہیں‘‘۔ جیک نے جواب دیا۔
’’بہرحال وہ تم کو نہیں بھولے تھے۔ جب بھی میں ان سے ملتی تھی وہ تمہارے بارے میں ضرور پوچھتے تھے کہ تم کیا کررہے ہو؟ وہ اُن دنوں کو یاد کیا کرتے تھے جب تم نے ان کے ساتھ ان کے گھر میں وقت گزارا تھا‘‘۔ اس کی ماں نے اسے بتایا۔
’’مجھے ان کا وہ پرانا گھر بہت پسند تھا جس میں وہ رہتے تھے‘‘ جیک نے جواب دیا۔
’’کیا تم جانتے ہو جیک… جب تمہارے والد کا انتقال ہوگیا تھا تو مسٹر ہیسلر نے یہ ذمہ داری لے لی تھی کہ تمہاری زندگی میں ایک مرد کا مؤثر قرب رہے‘‘۔
جیک کی ماں نے بتایا۔
’’انھوں نے ہی مجھے بڑھئی کا کام سکھایا تھا‘‘ جیک نے کہا ’’آج میں اپنی اس موجودہ فرنیچر کی تجارت میں ہی نہ ہوتا، یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہے۔ وہ میرے ساتھ بہت وقت گزارتے تھے اور مجھے وہ سب باتیں سکھاتے تھے جو اہم ہوتی تھیں‘‘ جیک نے اپنی ماں کو بتایا اور کہا:
’’ماں… میں تدفین میں شرکت کے لیے ضرور پہنچ جائوں گا‘‘۔
باوجود بے حد مصروفیت کے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، جیک اگلی فلائٹ سے اپنے وطن پہنچ گیا۔ مسٹر ہیسلر کی تدفین بہت ہی سادگی اور خاموشی سے ہوگئی۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اور ان کے زیادہ تر رشتے دار فوت ہوچکے تھے۔
واپسی کے دن سے ایک رات پہلے جیک اور اس کی ماں اپنے پڑوسی کے گھر میں ایک مرتبہ پھر داخل ہوئے، اس گھر کو آخری بار دیکھنے کے لیے۔ دروازے پر کھڑے ہوکر جیک لمحے بھر کے لیے رکا اور ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا۔ گھر آج بھی اسی حالت میں تھا، جیسا اسے یاد تھا، کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ ہر قدم پر یادیں تازہ ہورہی تھیں۔ ہر تصویر سے، ہر فرنیچر سے جو وہاں تھا، یادیں جڑی تھیں۔ جیک یکایک رک گیا۔
’’کیا ہوا جیک؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’وہ بکسا چلا گیا؟‘‘ جیک نے کہا۔
’’کون سا بکسا؟‘‘ ماں نے دریافت کیا۔
’’ایک سنہرا بکسا تھا جس میں ہمیشہ تالا لگا رہتا تھا اور وہ ان کی میز پر رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے ہزار مرتبہ پوچھا ہوگا کہ اس میں کیا ہے؟ اور وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ایک ایسی بیش قیمت چیز ہے جس کی میرے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت ہے‘‘۔ جیک نے اپنی ماں کو بتایا۔ وہ بکسا اب اپنی جگہ پر نہیں تھا۔ گھر میں ہر شے ویسے ہی تھی جیسی جیک کو یاد تھی، سوائے اس بکسے کے۔ اس نے سوچا کہ مسٹر ہیسلر کے کسی عزیز نے اس کو لے لیا ہوگا۔
’’اب مجھے کبھی بھی پتا نہیں چل پائے گا کہ اس بکسے میں اُن کے نزدیک اس قدر قیمتی شے کیا تھی‘‘۔ جیک نے ماں سے کہا اور بولا:
’’اب مجھے چل کر سوجانا چاہیے، کل صبح سویرے میری فلائٹ ہے اپنے گھر جانے کے لیے‘‘۔
مسٹر ہیسلر کو فوت ہوئے دو ہفتے ہوگئے ہوں گے۔ گھر واپس ہوتے ہوئے جیک کو اپنے ڈاک بکس میں ایک نوٹ ملا جس پر لکھا تھا:
’’پارسل کی ڈلیوری کے لیے دستخط کی ضرورت ہے، گھر پر کوئی نہیں ملا، پارسل بڑے ڈاک خانے سے تین دن کے اندر حاصل کرلیجیے‘‘۔
اگلے دن جیک نے پارسل حاصل کرلیا۔ وہ چھوٹا سا پارسل ایک پرانے کاغذ میں ملفوف تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سو سال پہلے ڈاک سے بھیجا گیا ہو۔ اس پر ہاتھ کی لکھائی مشکل سے پڑھی جاسکتی تھی، لیکن واپسی کے پتے نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچا، جس پر لکھا تھا: مسٹر ہیرالڈ ہیسلر۔ جیک نے کار میں بیٹھتے ہی مسٹر ہیسلر کے پارسل کو بے چینی سے کھولا۔ اندر وہی سنہرا بکسا اور ایک لفافہ نکلا۔ جیک کے ہاتھ کانپ رہے تھے جب اس نے نوٹ پڑھا جس میں لکھا تھا:
’’میرے مرنے کے بعد براہ مہربانی یہ بکسا اور اس کے اندر جو کچھ بھی ہے، خط کے ساتھ جیک بینیٹ کو بھیج دیا جائے۔ یہ میری سب سے بیش قیمت شے ہے اور میں نے اپنی زندگی میں اس کی قدر سب سے زیادہ کی ہے‘‘۔
ایک چھوٹی سی چابی لفافے پر ٹیپ سے لگی ہوئی تھی۔ امنڈتے آنسوئوں اور دھڑکتے دل سے جیک نے بکسے کا تالا کھولا۔ اندر ایک بہت ہی خوب صورت سونے کی جیبی گھڑی نکلی، ملائمیت کے ساتھ اس نے گھڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کا کیس کھولا۔ اندر مندرجہ ذیل الفاظ کھدے ہوئے تھے:
’’جیک… شکریہ تمہارے وقت کا جو تم نے میرے ساتھ گزارا۔ ہیرالڈ ہیسلر‘‘۔
اس نے جس چیز کی سب سے زیادہ قدر کی، وہ وقت تھا۔
جیک نے کئی لمحوں تک گھڑی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے رکھا اور اگلے دو دنوں کے سب کام اپنے دفتر فون کرکے رد کردیے۔
’’کیوں؟‘‘ اس کی سیکریٹری جینٹ نے پوچھا۔
’’مجھے کچھ وقت اپنے بیٹے کے ساتھ گزارنے کے لیے چاہیے اور ہاں… جینٹ تمہارا بھی شکریہ میرے لیے کام کرنے کا‘‘۔